فرائیڈے اسپیشل 2022ءایک نظر میں ( پہلا حصہ)

سیاست کی طرح پاکستانی صحافت میں بھی گندگی بھری ہوئی ہے، لیکن سیاست کی طرح صحافت میں بھی کچھ لوگوں اور اداروں نے اپنے اچھے پن کو نمایاں کررکھا ہے اور سخت نامساعد حالات میں ضمیر کی آواز کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ صحافت میں ذمہ داری اور سنجیدگی کا دوسرا نام فرائیڈے اسپیشل ہے جس نے اہم ایشوز اور واقعات پر رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ ذیل میں فرائیڈے اسپیشل کے جنوری 2022ء سے دسمبر 2022ء تک کے 51 شماروں کا ایک جائزہ پیش کیا جارہا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فرائیڈے اسپیشل نے کن کن موضوعات اور ایشوز کا احاطہ کیا ہے۔

2022ء میں فرائیڈے اسپیشل کے دھنک، رشدو ہدایت، حاصلِ مطالعہ، گوشہ اقبال مستقل سلسلے تھے۔ اس کے پہلے شمارے 7جنوری میں شاہنواز فاروقی نے ”پاکستانی سیاست کی ہولناک معذوریاں: سیاست جیسا ”مقدس کام” گالی کیوں بن گیا؟“ کے عنوان سے کالم لکھا تھا، اور آج بھی صورتِ حال کچھ مختلف نہیں کہ ”پاکستانی سیاست کی سب سے بڑی معذوری یہ ہے کہ اس کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے، پاکستان کا نظریہ پاکستان کو ایک سپرپاور بناکر ابھار سکتا تھا۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کے نظریے کو نظرانداز کیا اور اسے قومی زندگی پر اثرانداز ہی نہیں ہونے دیا۔ چنانچہ پاکستان کی سیاست بھی غیر نظریاتی ہوگئی۔ اس وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نواز لیگ ہے، میاں نوازشریف تین بار ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ مگر اُن کا اور اُن کی جماعت کا کوئی نظریہ ہی نہیں۔ کہنے کو تو میاں نوازشریف کہتے ہیں کہ وہ ’’نظریاتی‘‘ ہوگئے ہیں، مگر ہم کئی بار اپنے کالموں میں عرض کرچکے ہیں کہ میاں صاحب نظریاتی شخصیت نہیں بلکہ ’’نظرآتی شخصیت‘‘ ہیں۔ عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں، اور اس سے ایسا تاثر پیدا ہوتا ہے جیسے ان کا کوئی نظریہ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اور اُن کی جماعت تحریک انصاف کا بھی کوئی نظریہ نہیں، نہ ہی عمران خان کسی نظریاتی ایجنڈے کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کی جماعت بھان متی کا کنبہ ہے۔“

ابونثر یعنی احمد حاطب صدیقی نے ”میزانِ عدل! تیرا جھکاؤ ہے جس طرف“ کے عنوان سے اور ابوالحسن اجمیری نے ”سب سے مہنگے ”سیب“ کی کہانی“ کی کہانی لکھی تھی۔ ”ریکوڈک معاہدہ.. ارکان اسمبلی کو ’’خفیہ بریفنگ؟‘‘جلال نورزئی کا کالم تھا، اور مسعود ابدالی نے ”امریکہ کے وسط مدتی انتخابات“ پر مضمون لکھا تھا۔ ڈاکٹر اظہر چغتائی نے ”نمونیا:اسباب، علامات اور علاج“ پر لکھتے ہوئے بتایا تھا کہ ”پاکستان میں ہر سال لاکھوں بچے نمونیا کا شکار ہوجاتے ہیں اور تقریباً 58000 بچے ہر سال اپنی پانچویں سالگرہ سے پہلے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ نمونیا ایک قابلِ احتیاط اور قابلِ علاج بیماری ہے۔“ اسی طرح ناصر فاروق کا قسط وار مضمون ”موسمی آفتیں: ہمارے ذرائع پیداوار کیا ہیں؟“ بھی شائع ہوا۔

14جنوری کے شمارے میں شاہنواز فاروقی کے مضمون کا عنوان ”پاکستان میں معاشرے کی کامیابیاں اور ریاست کی ناکامیاں“ تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا: ”ریاست اور اسے چلانے والوں نے معاشرے کو مضبوط اور توانا بنانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ پاکستانی ریاست معاشرے کے ساتھ مثبت تعلق کی صورت پیدا کرلے تو معاشرہ اجتماعی زندگی کی معنویت اور جہت کو بہت بڑھا سکتا ہے“۔ صحافت اور کالم نگاری کا وسیع تجربہ رکھنے والے مضمون نگار میاں منیر احمد نے ”مری: برفانی طوفان کی ہلاکت خیزی، انتظامی غفلت اور ناکامی کا ذمے دار کون…“ کے عنوان سے مری میں حادثے کے محرکات پر روشنی ڈالی تھی۔ عارف بہار کا موضوع ”چین، پاکستان، بھارت کشیدگی کی مثلث“، سلمان عابد کا ”قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل: مطلوبہ نتائج کیسے حاصل ہوں گے؟“، مسعود ابدالی کا عنوان ”قازقستان! بدعنوان قیادت اور مہنگائی کا عذاب“ تھا۔ محمد کلیم صدیقی کا ”جیل سپرنٹنڈنٹ کی صاحبزادی کے لیے مولانا مودودیؒ کی لکھی گئی..“ اور ڈاکٹر اظہر چغتائی کا موضوع ”پسلی چلنا: بچوں میں پانی کی کمی نہ ہونے دیں“ تھا۔

21جنوری کے شمارے میں ”قومی سلامتی پالیسی میں حقیقی سلامتی کا فقدان“ شاہنواز فاروقی کا موضوع تھا۔ ”حق دو کراچی تحریک دھرنا“ اے اے سید، ”قومی سلامتی پالیسی عوامی ورژن کا اجرا“میاں منیر احمد، ”امریکہ کی یہودی عبادت گاہ میں یرغمالی کارروائی، اسلاموفوبیا کی نئی لہر“ مسعود ابدالی، ”خیبر پختون خوا سے پی ٹی آئی کی سیاسی پسپائی“ عالمگیر آفریدی، اور ”یہ ہے اسمارٹ واچ کا زمانہ“ابوالحسن اجمیری کے مضامین تھے، جبکہ ”معلّم، محقّق اور قلم کار ڈاکٹر انور محمود خالد“ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا، اور ”حاشر فاروقی مسلم صحافت کا ستون“ عارف الحق عارف کا مضمون تھا۔ اسی طرح مرحوم ملک نواز احمد اعوان نے جو فرائیڈے اسپیشل کے تبصرہ نگار تھے اور ان کے تبصرے قارئین بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے ”سرسید احمد خان اور ان کے نامور“ کے عنوان سے اس شمارے میں تبصرہ کیا تھا، اور اس کے ساتھ ایک اہم ٘مضمون پروفیسر اعجاز فاروق اکرم کا ”عجیب ِجدید غیر منقوط ترجمۂ قرآن‘‘ کے عنوان سے بھی تھا۔

28 جنوری کی ٹائٹل اسٹوری کا عنوان ”ہندوستان کے مسلمانوں کی نسل کُشی کا خطرہ“ تھا جسے شاہ نواز فاروقی نے لکھا تھا اور اس میں بتایا تھا کہ ”ہندوئوں نے بھارت میں ایک ایسی صورتِ حال پیدا کردی ہے کہ ہر مسلمان ’’مجرم‘‘ یا ’’ممکنہ مجرم‘‘ ہے۔ مسلمان ریلوے میں دس سے بارہ فیصد تھے، مگر اب ان کی تعداد ایک فیصد یا اس سے بھی کم ہے۔ اس وقت بھارت میں صورتِ حال یہ ہے کہ ایم اے اور پی ایچ ڈی مسلمان نوجوانوں کو بھی ملازمت نہیں ملتی“۔ اسی طرح مسعود ابدالی کے کلیدی مضمون کا عنوان ”یمن! تازہ کشیدگی، بدامنی و بدنصیبی کی داستان“ تھا جس میں انہوں نے لکھا کہ ”جزیرہ نمائے عرب کا یہ جنوبی حصہ زرخیزی کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھا، جس کی بنا پر اس خطے کو یُمن کہا جاتا تھا جس کا اردو ترجمہ مبارک یا فیض رساں کیا جاسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ طلوعِ اسلام کے بعد جب ہدایت کی کرنیں یہاں پہنچیں تو اہلِ یمن کی اکثریت نے دینِ حق کو فوراً قبول کرلیا، اسی وجہ سے کچھ صحابہ یہاں رہنے والوں کو پیار سے ”اہلِ یمین“ (دائیں بازو والے) پکارتے تھے۔ یمن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ نقشے کے جنوبی حصے کو قدیم جغرافیہ دان شمال کے مقابلے میں دایاں کہا کرتے تھے، اس لیے عرب دنیا کے اس جنوبی حصے کا نام یمن پڑگیا۔ یمن ملکہ سبا کا علاقہ تھا۔ ملکہ کے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دستِ حق پر قبولِ اسلام کا ذکر سورہ نمل میں موجود ہے، جبکہ سورہ سبا میں یمن کے حوالے سے سیل العرم (بند توڑ سیلاب) کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس تباہ حال بند کا ملبہ آج تک لوگوں کے لیے نشانِ عبرت بنا ہوا ہے، اور اس کے قریب ہی 1980ء میں ایک جدید ترین مَأرب ڈیم تعمیر کیا گیا۔“ ابونثر نے ”غلطی ہائے مضامین“ کے سلسلے میں ”فارسی پنجاب کے کھیتوں میں دوڑائی گئی“، اور ابوالحسن اجمیری نے ”سب سے مہنگے ”سیب“ کی کہانی”” لکھی تھی، اور نذیرالحسن نے ”کراچی سے سوتیلی مائوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے” کے عنوان سے جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی کا انٹرویو پیش کیا تھا۔ جبکہ ”قائداعظم شناسی کی ایک تازہ روایت“ ڈاکٹر معین الدین عقیل کے لکھے ہوئے مضمون کا عنون تھا۔ ”کورونا وائرس، فلو اور کولڈ“ڈاکٹر اظہر چغتائی کا مضمون تھا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا خصوصی مضمون ”قانون کی نگاہ میں مساوات کا حق حاکموں کا قانون سے..“ بھی اس شمارے کی زینت بنا۔ حامد ریاض ڈوگر نے اداریہ ”یا اسلام پہ چلنا سیکھو یا اسلام کا نام نہ لو“ کے عنوان سے لکھا۔

4فروری کے شمارے میں احمد جاوید نے ”عروج وزوال“ کے عنوان میں بتایا کہ ”عروج و زوال کے تاریخی عوامل کیا ہمیں بعض مظاہرِ عروج کی باز آفرینی کا موقع دیں گے؟ مذہبی ذہن قوانینِ تاریخ سے مناسبت نہ رکھنے کی وجہ سے اکثر ناگزیر اور بدیہی رکاوٹوں کی طرف سے آنکھ بند کرلیتا ہے۔ اس روش کا ازالہ کیے بغیر نشاۃ الثانیہ محض ایک خواہش کی سطح سے اوپر نہیں اٹھ سکتی۔“ اسی طرح ”5فروری یوم یک جہتی کشمیر“ میاں منیر احمد، ”امریکہ کے سیاہ فام تحریکِ اسلامی کا ہراول دستہ“ مسعود ابدالی، ”مغرب کے دُہرے معیار: سنکیانگ کے غم گُسار کشمیر کے تماشائی“سید عارف بہار،”29روزہ کراچی دھرنا کامیاب“اے اے سید، ”بلوچستان: دہشت گرد حملے جاری ایک ماہ میں تیسری واردات“ جلال نورزئی، ’’سندھ کا بلدیاتی قانون، احتجاج اور ترامیم‘‘ اسامہ تنولی کے مضمون کا عوان تھا۔ جب کہ شاہ نواز فاروقی نے ”پاکستانی قوم کو ’’قوم‘‘ کون بنائے گا؟“ کے عنوان سے لکھا تھا کہ ”پاکستان نظریاتی اور تاریخی شعور کے حوالے سے بہت مال دار تھا۔ پاکستان کا نظریہ ایسا تھا کہ اس نے ایک بھیڑ کو ایک قوم بنایا تھا، محمد علی جناح کو قائداعظم میں ڈھالا تھا۔ افراد کے وکیل کو ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا وکیل بناکر کھڑا کیا تھا، اور مُردہ جغرافیے کو ایک ریاست کی صورت دی تھی۔ یہ سب کچھ ’’معجزاتی‘‘ تھا، مگر پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے ’’معجزے‘‘ کو ’’لطیفہ‘‘ بناکر رکھ دیا۔ اس نے ملک کے نظریے کو اٹھاکر ایک طرف رکھ دیا۔ اس نے نظریے کو اپنے لیے خطرہ سمجھا، اس لیے ملک میں وہ نظامِ انصاف وجود میں نہ آسکا جو معاشرے کی وحدت کا ضامن ہوتا ہے“۔ ڈاکٹر اسامہ شفیق نے ”برطانیہ: مذہبی و نسلی منافرت، مسلمان اقلیت غیر محفوظ“ کے عنوان سے لکھا تھا کہ ”برطانیہ میں گو کہ مذہبی و نسلی منافرت کے قوانین سخت ہیں لیکن آئے دن منافرت پر مبنی رویّے دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ عام شہری کی زندگی گو کہ اس حوالے سے باقاعدہ طور پر کبھی نہ کبھی متاثر ہوتی ہے، لیکن اب یہ الزامات حکومت کے وزراء و سابق وزراء کی جانب سے آئیں تو اس کی سنگینی کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔“

11فروری کے شمارے میں ”پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی اور مضمرات“ کے عنوان سے شاہ نواز فاروقی نے لکھا اور بہت خوب لکھا تھا۔ اس تحریر کو آج بھی پڑھنے کی ضرورت ہے، آپ لکھتے ہیں:

”دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ قوم کی ’’طاقت‘‘ ہوتی ہے مگر پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ قوم کی ’’کمزوری‘‘ بن گئی ہے۔ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ قوم کا ’’حصار‘‘ ہوتی ہے لیکن پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ قوم کا ’’محاصرہ‘‘ بن گئی ہے۔ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ قوم کی ’’نمو‘‘ ہوتی ہے مگر پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ قوم کا ’’انجماد‘‘ بن گئی ہے۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کا منظر ایسا ہے کہ اسے دیکھ کر ہمیں اکثر میر کا شعر یاد آجاتا ہے۔ میر نے کہا ہے:

سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا

پاکستان کا جتنا عالم ہے اس پر اسٹیبلشمنٹ پوری طرح چھائی ہوئی ہے اور پاکستان میں صرف اسٹیبلشمنٹ کی بات مستند ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے بکواس ہے، کاٹھ کباڑ ہے۔“

”لارڈ نذیر احمد کو سزا… کیا حقیقت، کیا فسانہ؟“ اے اے سید کے مضمون کا عنوان تھا۔ اسی طرح ”امریکہ میں سیاہ فاموں اور رنگ دار اقلیت کے خلاف نفرت…“ مسعود ابدالی، اور ”مولانا مودودی ؒکے چار خطوط“ دانش یار، ”سندھ کی درس گاہوں کا خراب حال“ اسامہ تنولی، اور ”بڑھتی ہوئی دہشت گردی… قومی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے“ کے موضوع پر اداریہ، حامد ریاض ڈوگر نے لکھا تھا۔

18 فروری کے شمارے میں شاہنواز فاروقی کا موضوع تھا ”مسلمانوں کی بقا و سلامتی کی دو بنیادیں دین اور مزاحمت“۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ ”مجاہدین نے امریکی اسلحے اور امریکی سرمائے سے سوویت یونین کو ہرایا ہے۔ چنانچہ جب امریکہ افغانستان میں داخل ہوا تو کروڑوں لوگوں کا خیال تھا کہ اب افغانستان میں وہی ہوگا جو امریکہ اور اُس کے 48 اتحادی چاہیں گے۔ مگر مجاہدین کے شوقِ شہادت اور مزاحمت نے 20 سال میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔ امریکہ نے افغانستان کی جارحیت پر دو ہزار ارب ڈالر سے زیادہ صرف کیے، دو ہزار فوجی گنوائے، 12 ہزار فوجیوں کو زخمی کرایا، اور اُسے بالآخر افغانستان اُنھی طالبان کے حوالے کرنا پڑا جن کو وہ وحشی اور درندے کہا کرتا تھا۔ یہ منظر بھی ہمارے سامنے ہے کہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمان 70 سال سے بھارت اور اسرائیل کی مزاحمت کررہے ہیں۔ اگر ان دو خطوں کے مسلمانوں میں دینی حمیت اور مزاحمت کا رجحان نہ ہوتا تو بھارت کشمیر کو، اور اسرائیل فلسطین کو کب کا ہڑپ کرچکا ہوتا۔“ سید عارف بہار کا عنوان تھا ”مسعود۔۔۔سفارت سے سفارت تک“، محمد اصغر نے ”آئی ایم ایف کی غلامی اور بدترین مہنگائی“ پر، اور ”امریکہ افغانستان کا مجرم: قطر معاہدے کی خلاف ورزی امریکہ کررہا ہے“ جلال نورزئی، ”طلبہ یونین بحالی تحریک“ امیر العظیم، ”سندھ میں طلبہ یونین کی بحالی“حامد الرحمٰن، ”بھارت میں مسلم دشمنی کی بھڑکتی آگ اور حجاب کا تنازع“ڈاکٹر سلیم خان، ”انٹرنیٹ پر عربی اور اسلامی مآخذ“ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا عنوان تھا۔

25فروری کے شمارے میں مسعود ابدالی کا عنوان تھا ”روس یوکرین تنازع: نیٹو اور روسی دفاع بہانہ۔۔ توانائی اور دانہ اصل نشانہ“۔ جبکہ شاہنواز فاروقی کا عنوان تھا ”الطاف حسین اور برطانوی عدالت کا فیصلہ“ جس میں انہوں نے لکھا:

”ایم کیو ایم نے کراچی میں 35 سال تک بھتہ خوری کی آڑ میں معاشی دہشت گردی بھی کی۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے بھتہ خوری سے اربوں روپے کمائے۔ ایم کیو ایم کی معاشی دہشت گردی کا نشانہ صرف صنعت کار، تاجر اور دکان دار ہی نہ بنتے تھے بلکہ سبزی فروش اور رکشہ، ٹیکسی والے بھی ایم کیو ایم کو بھتہ دیتے تھے۔ ایم کیو ایم کی معاشی دہشت گردی کی وجہ سے سیکڑوں کارخانے کراچی سے ملک کے دوسرے شہروں بالخصوص پنجاب منتقل ہوئے۔“ ”کراچی میں لٹیروں کا راج: اسٹریٹ کرائمز میں تشویشناک اضافہ“ اے اے سید کا، جبکہ ’’پیکا ترمیمی آرڈیننس: فرائیڈے اسپیشل کی سیاسی رہنمائوں سے گفتگو“ میاں منیر احمد کا موضوع تھا۔

مارچ کے پہلے ہفتے یعنی 4مارچ کو ”شمسی توانائی… رکاوٹیں کیا ہیں؟“ کے عنوان سے میاں منیر احمد، ”فیک نیوز کا تماشہ اور آزادیِ اظہار کی آکسیجن“ شاہ نواز فاروقی، ”پب جی کی خطرناک موت کی دنیا“ اے اے سید، ”ادب اور صحافت میں کیا فرق ہے؟“ ابونثر، ”شیخ ایاز: مضطرب شعور کی ہزار داستان“ ضمیر حسین لغاری، ”اسمارٹ فون کی غلامی“ ابوالحسن اجمیری، ”بحراسود پر قبضے کی جنگ:روس کا یوکرین پر حملہ…“ مسعود ابدالی، ”معلّم، محقق، ماہرِ تعلیم ملک حق نواز خاں“ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ”کیا گلٹی (نوڈز) خطرناک ہوتی ہیں؟“ ڈاکٹر اظہر چغتائی، ”اسلام کا تجارتی ضابطہ اخلاق“پروفیسر ڈاکٹر شہباز حسن کے عنوانات تھے۔

11مارچ کو ”اخبار، ریڈیو اور فلم کی طاقت کا راز کیا ہے؟“ کے عنوان سے شاہ نواز فاروقئ نے اپنے کلیدی مضمون میں لکھا کہ ”ٹیلی ویژن کی 24 گھنٹے کی نشریات انسانی تاریخ کا بالکل انوکھا واقعہ ہے، اور ان نشریات نے انسان کی زندگی کو اطلاعات کے سمندر میں دھکیل دیا ہے۔ اس صورتِ حال نے کروڑوں انسانوں کے تناظر کو ’’اطلاعاتی‘‘ یا ’’خبری‘‘ بنادیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ پہلے ذرائع ابلاغ زندگی کا حصہ تھے، اب زندگی ذرائع ابلاغ کا حصہ ہے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ مسئلہ انسان کے ’’ہونے‘‘ یا ’’نہ ہونے‘‘ کا ہے۔ شیکسپیئر ہمارے زمانے میں ہوتا تو کہتا: مسئلہ ہونے یا نہ ہونے کا نہیں، ٹیلی ویژن پر ہونے یا نہ ہونے کا ہے۔ جو ٹیلی ویژن پر موجود ہے ’’حقیقی وجود‘‘ اُس کا ہے۔ جو ٹیلی ویژن پر موجود نہیں وہ موجود ہوکر بھی غائب ہے۔“ ”یوکرین پر روسی جارحیت اور مغربی میڈیا“ ڈاکٹر اسامہ شفیق، ”تحریک عدم اعتماد… عمران خان کا مستقبل؟“ میاں منیر احمد، ”پنجاب میں تبدیلی؟“ تاثیر مصطفیٰ، ”آؤ پڑوسن لڑیں!“ ابونثر، ”تنائو کا سر درد کیا ہے؟“ ڈاکٹر عبدالمالک کا عنوان تھا۔

18مارچ کے شمارے میں ”بلوچستان: باقی بلوچ سے ہدایت الرحمٰن بلوچ تک“ امان اللہ شادیزئی، ”روس یوکرین جنگ اور توانائی کا بحران“مسعود ابدالی، ”مسلم دنیا کے حکمران اسلام اور امت ِ مسلمہ“شاہ نواز فاروقی، ”تحریک عدم اعتماد ملکی سیاست میں بھونچال“ تاثیر مصطفیٰ، ”قومی زبان کا عدم ِنفاذ“ڈاکٹر معین الدین عقیل، ”روس،یوکرین جنگ میں برطانوی فوجیوں کی شرکت“ڈاکٹر اسامہ شفیق کا موضوع تھا۔

25مارچ کے شمارے میں ”پاکستانی سیاست کے حمام میں سب ننگے“ میں کیا خوب شاہ نواز فاروقی نے لکھا تھا کہ ”عہدِ حاضر کے مجدد مولانا مودودیؒ کی پوری سیاست دین مرکز تھی۔ انہوں نے جماعت اسلامی بنائی تو دین کے غلبے کی جدوجہد کے لیے۔ قائداعظم نے اپنی ایک تقریر میں ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک امت کا تصور پیش کیا ہے، لیکن پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، بڑے سیاست دانوں اور بڑی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ پاکستانی قوم کو ’’گٹر سیاست‘‘ کا تحفہ دیا ہے۔ یہ گٹر سیاست 1971ء میں آدھا ملک نگل گئی، اور باقی آدھے ملک کا حال اب گٹر سیاست کی وجہ سے ابتر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست ایک ایسا حمام ہے جس میں سب ننگے ہیں۔“

25مارچ 2022ء کو سام پیزیگیٹی کے چھپے مضمون کا ترجمہ بعنوان ”معاشی منڈی کی پوجا کب تک؟“ تھا۔ فلم: ’’دی کشمیر فائلز.. پسِ پردہ عزائم“ سید عارف بہار کا، ”اسلاموفوبیا…مسلمانوں کو خطرہ یا مسلمانوں سے خطرہ؟“ مسعود ابدالی کا، ”سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کا کھیل… گیند عدالتی کورٹ میں“ سلمان عابد کا، جبکہ ”کہانی کشمیری پنڈتوں کی“ افتخار گیلانی کا مضمون تھا۔ اسی شمارے میں ڈاکٹر اظہر چغتائی نے ایک اہم موضوع ”بچوں کے سر پر چوٹ… کہیں خطرناک تو نہیں؟“ میں لکھا کہ گود سے گر کر، بستر سے لڑھک کر، اسٹرالر الٹ جانے سے، واکر سے گر کر یا بھاگتے دوڑتے کسی چیز سے ٹکرا کر، موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ، کار ایکسیڈنٹ یا کھیل کے دوران… غرض وجہ کوئی بھی ہو، سر کی چوٹ پر زیادہ پریشانی ہوتی ہے بہ نسبت دیگر کسی جسمانی حصے کی چوٹ کے۔ کب پریشان ہونا چاہیے اور کب پریشانی کی بات نہیں؟ یہ بہت اہم سوالات ہیں۔ انہیں اگر سمجھ لیا جائے تو بلاوجہ ایمرجنسی روم کے وزٹ سے بچا جاسکتا ہے۔