کشمیر، چین بھارت کشمکش کا محوربن رہا ہے؟

چین کے ساتھ کشیدگی اور اس میں چین کا اتھاریٹیرین انداز مودی کے مصنوعی آہنی مجسمے کو شکست و ریخت کا شکار بنارہا ہے

منقسم جموں و کشمیر کی سرحد خطے کی تین ایٹمی طاقتوں کے درمیان خطرے کی لکیر بن کر رہ گئی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کنٹرول لائن پر ایک ایسا سکوت طاری ہے جس کی تہہ میں اب بھی غیر یقینی موجود ہے۔ بظاہر اس سکوت کی وجہ دونوں ملکوں کے مقامی فوجی کمانڈروں کے درمیان جنگ بندی کے پرانے معاہدے کی تجدید ہے۔

کنٹرول لائن پر اس سکوت کی حد وہیں پر ختم ہوتی ہے جہاں سے چین بھارت لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا آغاز ہوتا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول پوری طرح گرم ہوتی جارہی ہے۔ یوں کشمیر ہی پاکستان اور بھارت کی طرح بھارت اور چین کے درمیان کشمکش اور مخاصمت کا محور بن کر رہ گیا ہے۔ چین کے ساتھ مخاصمت بھارت میں عسکری بھونچال کا باعث تو تھی ہی، یہ سیاسی بحران کی بنیاد بھی بنتی جارہی ہے۔

اس کشمکش کا ایک مظاہرہ 7 نومبر کو توانگ سیکٹر میں پیپلزلبریشن آرمی کی طرف سے بھارتی فوجیوں کی بننے والی دُرگت سے ہوا، یہ کشیدگی کے نئے دور کا آغاز تھا۔ دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان کشیدگی کی پہلی لہر اُس وقت اُٹھی تھی جب کشمیر کی خصوصی شناخت کے خاتمے کے بعد چین نے لداخ میں پنگانگ جھیل اور گلوان وادی میں پیش قدمی کی تھی، جس کے بعد دونوں میں ایک خونیں تصادم ہوا تھا، جس میں بھارت کے 20 اور چین کے 4 فوجی مارے گئے تھے۔ بھارت نے چین کو اپنی پوزیشنوں پر واپس جانے کے لیے منت سماجت سے بھی کام لیا اور آنکھیں دکھانے کی روش بھی اپنائی، اور یوں مذاکرات کے 25 دور گزرگئے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلا۔

کشیدگی کے دوسرے دور کا آغاز اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹر میں چین اور بھارت کی فوجوں کے درمیان ہاتھ پائی اور دھینگا مُشتی سے ہوا، اور اب یہ لہر ختم ہونے کے بجائے آگے ہی بڑھ رہی ہے۔

چین بھارت کشیدگی کے عسکری بحران کا نتیجہ یہ ہے کہ چین لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر اپنی فوجی قوت کو بڑھا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چین نے تبت کے اہم ہوائی اڈوں پر لڑاکا جہاز کھڑے کردیے ہیں جن میں ڈرون بھی شامل ہیں۔ سیٹلائٹ سے حاصل کی گئی تصاویر کے مطابق ان جہازوں اور ڈرون کا رخ ہندوستان کے شمال مشرق کی سمت ہے۔ یہ تصاویر اُس وقت حاصل کی گئی ہیں جب توانگ سیکٹر میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد بھارتی فضائیہ نے سرحدوں پر چوکسی کے نظام کو بڑھا دیا ہے۔ یہ کشیدگی اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں میں ہندوستان کی فضائیہ نے بھی کم ازکم دو مواقع پر اپنے طیاروں کی اُڑانیں بھری تھیں۔ یہ اُڑانیں چینی جہاز کی طرف سے بھارتی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اطلاع ملنے پر بھری گئی تھیں۔ چین کے ہنگڈا ائربیس کی تصاویر بتاتی ہیں کہ وہاں جدید ڈبلیو زیڈ سیون ڈریگن ڈرون کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔ اس ڈرون کو 2021ء میں منظرعام پر لایا گیا تھا۔ یہ مسلسل دس گھنٹے تک پرواز کرسکتا ہے۔ اس ڈرون کا مقصد اطلاعات جمع کرنا اور جاسوسی کرنا ہے۔ بھارت کے پاس اس طرح کا ڈرون نہیں۔ بھارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ چین اقصائے چین کے علاقے میں ان ڈرون کا استعمال کررہا ہے۔ ان تصاویر میں فضائی اڈے پر دو فلینگر فائٹر جیٹس کو بھی دیکھا گیا ہے۔ یوں چین کے ساتھ کشیدگی نے بھارت کے عسکری خطرات میں اضافہ کیا ہے۔

چین کی ان سرگرمیوں سے ہندوستان میں ایک سیاسی بحران بھی جنم لے رہا ہے۔ منقسم اپوزیشن مودی حکومت کی چین پالیسی پر تابڑ توڑ حملے کررہی ہے۔ اس طرح اپوزیشن کا ایک مودی مخالف محاذ سا غیر اعلانیہ طور پر بن رہا ہے۔ لوک سبھا میں اس اتحاد اور محاذ کے خدوخال اُس وقت اُبھرے جب اپوزیشن نے چین کی سرگرمیوں کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کا مطالبہ کیا، جس کی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے واک آئوٹ کیا۔ اس سے پہلے کانگریسی لیڈر راہول گاندھی نے کہا تھا کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چین ہمارے فوجیوں کی پٹائی کررہا ہے مگر حکومت اپوزیشن کو کچھ بتانے کو تیار نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ چین ہماری زمین پر قبضہ کررہا ہے اس پر ہم بحث نہیں کریں گے تو کون کرے گا! اس کے جواب میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ فوجی جوانوں کے لیے پٹائی کے الفاظ استعمال نہ کیے جائیں، یہ توہین آمیز ہیں۔ اسی طرح مسلمان راہنما اور رکن لوک سبھا اسد الدین اویسی نے مودی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ مودی اپنی لال آنکھ چین کو کب دکھائیں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ اگر بقول مودی ہندوستان کی سرزمین میں کوئی نہیں گھسا تو پھر مذاکرات کے پندرہ دور کیوں ہوئے؟

یوں چین کے ساتھ کشیدگی اور اس میں چین کا اتھاریٹیرین انداز مودی کے مصنوعی آہنی مجسمے کو شکست و ریخت کا شکار بنارہا ہے۔ بھارت میں یہ سوچ اُبھرنے لگی ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے شیر بننے والے مودی چین کے مقابلے میں بکری بن رہے ہیں۔ اس سے مودی کی مصنوعی شبیہ چھپن انچ سینہ اور لال آنکھ وغیرہ بکھرتی جارہی ہے۔ اپوزیشن کو مودی کا امیج تباہ کرنے کے لیے چین کی کشیدگی کی صورت میں ایک نادر موقع مل گیا ہے۔ وہ جم کر اس موقع سے فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ اس طرح چین کے ساتھ کشیدگی بھارت میں عسکری کے ساتھ ساتھ سیاسی بحران کی بنیاد بھی رکھنے کا باعث بن رہی ہے۔

امریکہ سمیت مغرب کی پوری کوشش ہے کہ اس بحران میں پاکستان کو کودنے کا موقع نہ مل سکے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان بھلے سے بھارت سے کشیدگی بڑھائے مگر بھارت کے بارے میں پاکستان کا غصہ اور چین کی ناراضی باہم ملنے نہ پائیں۔ اسی لیے امریکہ اس وقت ایک بار پھر پاکستان کو چین اور بھارت کی کشمکش میں فریق بننے سے روکنے کی کوشش کررہا ہے۔ پاکستان سے حالیہ رابطوں کا مقصد پاکستان کو انگیج رکھ کر اُسے چین کے ساتھ ہاتھ ملانے اور چین بھارت کشیدگی میں کسی تیسرے فریق کے طور پر کودنے سے روکنا ہے۔