حق دو گوادر کی تحریک بلوچستان اور گوادر کے عوام کے حق کی ایک پرامن اور منظم جمہوری تحریک ہے جسے ختم کرنے کے لیے پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے تحریک کے سینئر رہنمائوں سمیت درجنوں کارکنان اور مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ اس ساری صورت حال کا پس منظر یہ ہے کہ گوادر میں پُرامن بڑے احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی بعد قومی سطح پر توجہ کا مرکز بننے والے جماعت اسلامی کے مقامی رہنما مولانا ہدایت الرحمن گوادر کے معروف سیاسی شخصیت ہیں‘ وہ گوادر میں ماہی گیروں کے مسائل، سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں اور دیگر مسائل پر اصولی مؤقف کے ساتھ ڈٹے رہے اور پھر گوادر کے عوام ان کی پشت پرکھڑے ہیں جو مظلوم اور بے غرض ہیں‘ یہ عوام برسوں سے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے نشانے پر ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمن نے گزشتہ سال دسمبر میں ایک ماہ کے طویل دھرنے کے بعد صوبائی حکومت کے ساتھ طے ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے رواں سال ایک مرتبہ پھر 27 اکتوبر سے دھرنے کا آغاز کیا تھا اور دھرنا شروع کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمن نے کہا تھا کہ طے شدہ مطالبات پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوا۔ گزشتہ سال ہونے والے معاہدے جسے بی بی سی نے بھی رپورٹ کیا تھا ‘ میں طے ہوا تھا کہ سرحدی تجارت سے متعلق معاہدے کے نکات کے مطابق ٹریڈ یونینز اور کمیٹی سسٹم کے خاتمے کے احکامات جاری کیے جائیں گے اور سرحدی کاروبار ضلعی انتظامیہ کے مرتب کردہ ضابطۂ کار کے مطابق بحال کیا جائے گا۔ معاہدے میں کہا گیا تھا کہ سرحدی تجارت فرنٹیئر کور سے ضلعی انتظامیہ کے حوالے کیا جائے گا اور اسے تمام اختیارات دیے جائیں گے۔ سرحدی تجارت کے حوالے سے ٹوکن، ای ٹیگ میسج اور لسٹنگ وغیرہ کا خاتمہ کیا جائے گا‘ سرحدی تجارت سے متعلق معاہدے کے نکات پر ایک مہینے میں عملدرآمد شروع کردیا جائے گا۔
اسی طرح غیر ضروری چیک پوسٹوں کے خاتمے کے لیے مشترکہ کمیٹی تشکیل دینے کا معاہدہ بھی طے پایا تھا‘ لیکن جیسا کہ ہمارے غیر سنجیدہ سیاست دان اور بیوروکریسی ہمیشہ سے کرتی آئی ہے اور اس نے اس معاملے کو بھی سنجیدہ نہیں لیا اور اسے بے وقت سمجھا‘ اب کہاں گئی کمیٹی اور کہاں گیا معاہدہ والا معاملہ ایک بار پھر ان مظلوموں کے ساتھ ہوا یہی وجہ ہے کہ آج بھی مظاہرین صوبے سے ٹرالر مافیا، پینے کے صاف پانی سمیت دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے دھرنا دے رہے ہیں اور اپنا سب کام کاج اورروزگار جو پہلے ہی تباہ ہے‘ چھوڑ کر احتجاج کررہے ہیں۔
گزشتہ دنوں دھرنے کو ختم کرنے کے لیے پولیس نے مظاہرینپر بدترین شیلنگ کی، دھرنے کے لیے لگائے گئے ٹینٹ اکھاڑ پھینکے اور ’’حق دو تحریک‘‘ کے سینئر رہنما حسین واڈیلہ سمیت دیگر رہنمائوں سمیت درجنوں کارکنوں اور مظاہرین کو گرفتار کر لیا جو تادم تحریر گرفتار ہیں۔ اس کے رد عمل میں گوادر شہر میں شٹر ڈائون ہڑتال اور تمام کاروباری مراکز بند رہے جب کہ خواتین نے گوادر سے مکران کوسٹل ہائی وے کو بھی بند کردیا اس کے علاوہ ضلع گوادر کی تحصیل پسنی، اورماڑہ اور جیوانی میں بھی احتجاج جاری ہے۔ احتجاج کے دوران گوادر میں موبائل فون سروس اور نیٹ ورک بھی بند رہا۔
’حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن نے گوادر میں صورت حال کی ذمہ داری حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے حکومت نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔مولانا ہدایت الرحمن کا کہنا ہے کہ دھرنے میں آ نے والی خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
’حق دو تحریک‘ کے رہنمائوں کے مطابق حکومت کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے بات چیت کے لیے نہ آنے پر گوادر شہر میں پورٹ اور ائرپورٹ کے سامنے دھرنا دینے کے علاوہ ریلیاں بھی نکالی گئیں جن میں خواتین کی ایک بڑی ریلی بھی شامل تھی۔ مولانا ہدایت الرحمن کا کہنا ہے کہ جب حکومت نے احتجاج کو اہمیت نہیں دی تو ایک اور احتجاجی دھرنا کیمپ ایکسپریس وے پر گوادر پورٹ کے قریب دیا گیا۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان کی جانب سے بھی اس سلسلے میں جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ روز وزیر داخلہ اور صوبائی وزیر لالا رشید بلوچ نے حکومتی ٹیم کے ہمراہ ’حق دو تحریک‘ کے رہنمائوں سے طویل مذاکرات کیے۔ حکومت کی جانب سے مطالبات پر جلد عملدرآمدکی مکمل یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ترجمان کے مطابق احتجاجی مظاہرین کی پورٹ کی جانب پیش قدمی کو روکنے کے لیے پولیس نے انتہائی محدود سطح پر کارروائی کی تاکہ عام شہری متاثر نہ ہوں۔ ظاہر ہے گوادر کی بلوچستان کے پس منظر میںصورت حال اچھی نہیں ہے اور نہ ہی اس وقت ملک کے سیاسی، معاشی حالات کے تناظر میں اس کا متحمل ہوسکتا ہے۔ بلوچستان میں محرومیاں بڑھ رہی ہیں‘ بلوچستان کے لوگ کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں‘ انہیں کئی طرح کی شکایت ہیں۔ ا س طرح کی ریاستی دہشت گردی انہیں اور متنفر کرنے کی ساز ش اور کسی بڑے کھیل کا حصہ ہے جو مقامی ایجنٹ کھیل رہے ہیں، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے اس صورت حال پر کہا کہ گوادر میں دو ماہ سے جاری پُرامن دھرنے کے خلاف پولیس آپریشن، نہتے مرد اور خواتین پر تشدد اور گرفتاریاں انتہائی افسوس ناک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کا مسائل حل کرنے کے بجائے تشدد کا راستہ اختیار کرنا شکست خوردگی کی علامت ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ معاہدے پر فوری عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اور تمام گرفتار قائدین وکارکنان کو جلدازجلد رہا کیا جائے۔ امیر جماعت پہلے بھی حکمرانوں کو یہ پیغام دیتے رہے ہیں کہ بلوچستان سے زیادتی کا کھیل ختم کیا جائے‘ یہ ملک صدر‘ وزیراعظم، آرمی چیف کا ہی نہیں‘ کروڑوں پاکستانیوں کا بھی ہے۔ جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ عدالتیں لوگوں کو انصاف دیں، ایوان میں قانون سازی ہو اور ہر شخص آئین کے مطابق اپنی ذمے داری ادا کرے۔
حق دو گوادر کی تحریک جمہوری سیاسی تحریک اس کو تشدد اور جبر کے ذریعے کچلنے کی کوشش ریاستی دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں ۔