امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق، شجاع الدین شیخ و دیگر کا خطاب
ملک میں سودی معیشت ختم کرنے کے لیے جماعت اسلامی مسلسل متحرک ہے۔ اسلام آباد سمیت ملک کے متعدد شہروں میں اس موضوع پر سیمینار کیے گئے ہیں اور معیشت دانوں کے ساتھ مشاورت بھی جاری ہے۔ اسلام آباد میں ’’حرمتِ سود اور عملی اقدامات‘‘ کے موضوع پر قومی سیمینار ہوا جس سے تنظیم اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ، سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان، سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود، پی ٹی آئی کے رہنما ڈاکٹر بابر اعوان، نائب امرا جماعت اسلامی پروفیسر محمد ابراہیم، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، رکن قومی اسمبلی عبدالاکبر چترالی، ماہر معیشت ڈاکٹر طاہر منصوری، ڈاکٹر عتیق الرحمٰن و دیگر ماہرین نے خطاب کیا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے سیمینار کی صدارت کی۔ انہوں نے اپنے صدارتی کلمات میں کہاکہ ’’سب کا اتفاق ہے کہ کمزور معیشت کی وجہ سے پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پاکستان کا معاشی نظام دن بدن کمزور ہوتا جارہا ہے۔ صدر، وزیراعظم اور وزیر خزانہ کا اتفاق ہے کہ معیشت کمزور ہے۔ سودی نظام کی وجہ سے ہماری معیشت آگے نہیں بڑھ رہی، ہم سب کا مشن ہے کہ پاکستان سے سودی نظام کا خاتمہ ہو۔ وقت ہے کہ اب سودی نظام کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ابھی تک حکومت نے سود کے خلاف فیصلے پر عملی کام نہیں کیا۔ ملک میں دو اقتصادی نظام ایک ساتھ نہیں چل سکتے، قوم کو آئندہ بجٹ سود سے پاک چاہیے۔ سودی نظامِ معیشت آئینِ پاکستان کی نفی ہے، ملک کے 99فیصد عوام غیرسودی نظام چاہتے ہیں۔ حکومت ایک طرف معیشت کو سود سے پاک کرنے کے اعلانات کررہی ہے، دوسری جانب اسٹیٹ بینک نے سود کی شرح میں اضافہ کردیا۔ مرکزی بینک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چنگل سے نکالا جائے اور مالیاتی اداروں کے دباؤ پر اس کی خودمختاری کے فیصلے کو واپس لیا جائے۔ اسٹیٹ بینک نوٹیفکیشن جاری کرے کہ کوئی بھی بینک ملک میں سودی کاروبار نہیں کرے گا، جو بینک ایسا کرے اُس کا لائسنس منسوخ کیا جائے، آئندہ کے لیے ایسے بینکوں کو ریگولیٹ کیا جائے جو اسلامی بینکاری کریں۔ حکومت مخلص ہے تو صنعتی، زرعی، انفرادی قرضوں پر سود ختم کرکے اصل زر واپس لے، جماعت اسلامی کی طرف سے قومی اسمبلی میں متعارف کرایا جانے والا امتناع سود بل پاس کرے، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر من و عن عمل کرے اور سود سے پاک معیشت کا واضح روڈمیپ دے۔ قوم کو حکمرانوں پر اعتماد نہیں، اعلانات کے بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘
اس موقع پر جاری اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں مختلف بینکوں کی جانب سے دائرکی گئی اپیلیں واپس کرائے، جو بینک اپیلیں واپس نہیں لے رہے اسٹیٹ بینک اُن کے لائسنس منسوخ کرے۔ حکومت طے کرے کہ ملک میں اسلامک بینکنگ کے سوا کوئی بینکاری نظام نہیں چل سکتا، عام آدمی کو سود سے آزاد کیا جائے، اسلامی بانڈ جاری کیے جائیں اور وفاقی شرعی عدالت کا قانونی اسٹیٹس نافذ کیا جائے۔
سراج الحق نے کہا کہ سودی نظام شیطانی نظام ہے اور پاکستان کے عوام ہی نہیں پوری انسانیت کے مسائل کی جڑ ہے، اس نظام سے صرف ایک قلیل طبقہ جو کہ شاید دو فیصد سے بھی کم ہے، فیض یاب ہورہا ہے، جب کہ کروڑوں اربوں انسان غربت، بے روزگاری، مہنگائی، ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں سودی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرتیں بڑھ رہی ہیں، کبھی امریکہ تو کبھی یورپ اور مشرقِ بعید میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے دفاتر کے سامنے اور ظالم سرمایہ دارانہ نظام کے محافظوں کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں، پوری دنیا میں محروم طبقات سود کی لعنت کے خلاف آوازیں بلند کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آج پوری دنیا کو اسلام کے فطری نظام کی ضرورت ہے، اس سے ہی انسانیت کی فلاح اور کامیابی ممکن ہے۔ امیر جماعت نے کہا کہ قائداعظمؒ کی ہدایات کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک کو اُن کی رحلت کے بعد سودی نظام میں جکڑ دیا گیا اور یہ سلسلہ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے۔ آئینِ پاکستان کی دفعات اور 31 علما کے 22 نکات پر مشتمل اعلامیے کی خلاف ورزی ہوئی، اسلامی نظریاتی کونسل کی ہدایات کا مذاق اڑایا گیا اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو نافذ نہیں کیا جارہا۔ انھوں نے کہا کہ سودخوروں سے توقع نہیں کہ وہ سودی نظام ختم کریں گے، حکمران عوام سے جھوٹ بولتے ہیں، یہ نااہل اور نامراد ثابت ہوچکے، ان کے ہوتے ہوئے عوام بنیادی حقوق سے بھی محروم رہیں گے، حکمران معاشی اور سیاسی دہشت گردی اور ملک کے تمام مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ قوم اپنے معاشی، سماجی اور سیاسی حقوق کے حصول اور ان کے تحفظ کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دے۔
مشترکہ اعلامیے میں وزارتِ خزانہ کی جانب سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کمیٹی کے قیام کو خوش آئند کہا گیا ہے، مگر حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس کمیٹی میں علمائے کرام اور بینکنگ اور معیشت کو سمجھنے والے اسلامی اسکالروں کی تعداد کو بڑھایا جائے اور کمیٹی کو مستقل شریعہ سپروائزری بورڈ میں تبدیل کیا جائے جسے آئینی و قانونی تحفظ حاصل ہو، اور اس بورڈ کی رہنمائی اور نگرانی میں حکومت اسلامی نظامِ معیشت کی تشکیل اور ترقی کے لیے قانون سازی کا عمل جلد مکمل کرے۔