انقلابِ ایران (1906ء) میں ساری آبادی اور فوج دو گروہوں میں بٹ گئی۔ ایک گروہ یہ چاہتا تھا کہ نظم و نسق کے تمام اختیارات بادشاہ کے پاس رہیں۔ یہ استبدادی کہلاتا تھا۔ اور دوسرا یہ اختیارات پارلیمان اور اس کے منتخب وزرا کو دلانا چاہتا تھا اور یہ مشروطہ کے نام سے مشہور تھا۔ یہ دونوں گروہ ہر جگہ لڑ رہے تھے اور ملک میں افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔
انہی دنوں کا ذکر ہے کہ ایک دیہاتی کسی کام کے لیے تہران جارہا تھا، جب وہ شہر کے قریب پہنچا تو ایک فوجی دستے نے اسے روک کر پوچھا:
’’تم مشروطہ ہو یا استبدادی؟‘‘
دیہاتی کی بلا جانے کہ مشروطہ و استبدادی کس جانور کا نام ہے، اس نے سوچے سمجھے بغیر کہہ دیا:
’’الحمدللہ، میں مشروطہ ہوں‘‘۔
وہ فوجی استبدادی تھے۔ سالارِ دستہ نے کہاکہ ’’اس چغد کو مرغا بناکر اس کی پیٹھ پر سو جوتے لگائو‘‘۔
وہ دیہاتی ذرا اور آگے گیا تو ایک اور دستہ سامنے آگیا۔ سالار نے پوچھا: ’’تم مشروطہ ہو یا استبدادی؟‘‘ مشروطہ بننے کا مزہ تو پہلے چکھ چکا تھا، اس لیے بڑے اطمینان سے کہنے لگا:
’’الحمدللہ، میں استبدادی ہوں‘‘۔
اور وہ تھے ’’مشروطے‘‘۔ سالارِ دستہ نے اسے مرغا بناکر سو جوتے اور لگا دیئے۔ غریب دیہاتی کی کھال کئی جگہ سے پھٹ گئی اور ہڈیوں سے ٹیسیں نکلنے لگیں۔ اٹھا، روتا، کراہتا اور لڑکھڑاتا ہوا چل دیا، چند ہی قدم گیا ہوگا کہ ایک اور دستہ آگیا۔ سالار نے وہی سوال پوچھا۔ دیہاتی نے کان پکڑلیے اور کہنے لگا:
’’جتنے جوتے لگانا چاہیں لگایئے اور میری خلاصی کیجیے‘‘۔
(ماہنامہ چشم بیدار۔ مارچ 2018ء)