خوش آمدید 2023ء

وقت، زندگی کا دوسرا نام ہے، جو خالق کائنات، اللہ تعالیٰ کی جانب سے اشرف المخلوقات، انسان کے لیے عظیم الشان تحفہ ہے، یہ روز و شب، یہ ماہ و سال دراصل وقت ہی کا نقش ثانی ہے، دیوار پر لٹکے گھڑیال کی مسلسل متحرک سوئیاں اور کیلنڈر کے وقفوں، وقفوں سے پلٹتے اوراق دراصل ہمیں وقت کے گزرنے کا احساس دلانے ہی کا ذریعہ ہیں، مگر ہم ان کی جانب توجہ دیتے ہیں نہ وقت کی قدر کرتے ہیں اور نہایت بے دردی سے اسے ضائع کرتے چلے جاتے ہیں، صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے، زندگی یونہی تمام ہوتی ہے اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ کس قدر قیمتی متاع سے کیسی بے خبری کے عالم میں ہم ہاتھ دھو چکے ہیں، خاص طور پر جب سے سماجی ابلاغ کے ذرائع عام ہوئے ہیں، وقت کی اہمیت بالکل ہی فراموش کر دی گئی ہے، نہ صرف نوجوان بلکہ بچے، بوڑھے، مرد خواتین سب ہی سارا، سارا دن اور پوری پوری رات موبائل فون یا لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلاتے اور چٹ چیٹ کرتے گزار دیتے ہیں، کسی کو احساس ہے نہ پرواہ کہ ہم اپنی حیات مستعار کا سب سے قیمتی سرمایہ کس آسانی سے برباد کر رہے ہیں۔ اہل دانش نے اس عظیم سرمائے کو برف سے تشبیہ دی ہے کہ اسے اگر مثبت اور کار آمد طریقے سے استعمال نہ کیا جائے تو اسے بہرحال بے کار میں پگھل کر ضائع ہو جانا ہے، اسے برباد ہونے سے بچانے کا واحد طریقہ اس کا مثبت، مفید اور کار آمد طور پر استعمال ہے…!!!

شام و سحر اور وقت کے اسی الٹ پھیر نے عیسوی کیلنڈر کا ایک اور ورق پلٹ دیا ہے، 2022ء تلخ و شیریں یادیں چھوڑ کر رخصت ہوا، اب 2023ء ہمارے سامنے ہے، اسلامیان پاکستان کا 2022ء اس حال میں گزرا ہے کہ ملک دینی، سیاسی، سماجی، اخلاقی، تہذیبی اور معاشی ہر پہلو سے زوال کا شکار اور ناقابل عبور دلدل میں دھنستا محسوس ہو رہا ہے مگر قومی سیاسی قیادت ہوس اقتدار کی شکار ہے جس کی غیر حکیمانہ حکمت عملی کے باعث ملک کا مستقبل غیر محفوظ دکھائی دے رہا ہے ہر معاملہ میں اشرافیہ اور عدلیہ کا کردار نمایاں ہے، ٹھوس اقدامات کی بجائے قانونی موشگافیوں کے سہارے ملکی معاملات چلائے جا رہے ہیں، حالات کا تقاضا ہے کہ ملک کی قومی، سیاسی اور جمہوری قیادت سر جوڑ کر بیٹھے اور باہم تبادلہ خیال کے ذریعے در پیش بحرانوں اور مسائل کا قابل عمل حل تلاش کیا جائے ورنہ صورتحال کی سنگینی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ گزرے سال کے حالات اور قومی قائدین کے رویوں کا جائزہ لیا جائے تو مایوسی اور نا امیدی کے سو ا کچھ نظر نہیں آتا۔ بحیثیت قوم بھی ہماری نفسیات کا معاملہ عجیب ہے، ہم سنجیدگی سے اپنے مسائل کا جائزہ لے کر ان کے حل کی راہیں تلاش کرنے کی بجائے ہر وقت حیلے بہانے جشن منانے کے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں، یہی حال نئے سال کی آمد ہے، جس کا بلا جواز جشن منانے پر ہم اپنے محدود مادی وسائل اور قیمتی وقت خرافات میں ضائع کرنے میں ذرہ برابر دریغ نہیں کرتے حالانکہ ایک سال کے اختتام اور نئے سال کی آمد پر سب سے اہم کام یہ ہونا چاہئے کہ ہم غور و فکر اور تدبر کریں کہ گزرے برس میں ہم نے کیا کھویا، اور کیا پایا؟ کہاں کہاں غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں، آئندہ برس کے دوران کس طرح ان کا ازالہ ممکن ہے، مگر ہمیں جشن منانے سے فرصت ملے تو اس جانب توجہ دیں حالانکہ قرآن و حدیث میں بار بار ہمیں یہ انتباہ کیا گیا ہے کہ وقت کی جو مہلت اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی کی صورت میں عطا فرمائی ہے، اس زندگی کے خاتمہ پر ہمیں جواب دینا ہو گا کہ اسے کیسے اور کن کاموں میں خرچ کیا؟ زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب ہم سے لیا جائے گا مگر ہمیں اس کی قطعی فکر نہیں…!!!

اب 2023ء کا نیا سال ہمارے سامنے ہے جس میں ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر غور و فکر کے بعد شعوری طور پر یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ 2022ء کی ناپسندیدہ صورت حال سے کیسے بچا جا سکتا ہے، غربت، مہنگائی، بے روز گاری اور بیکاری جیسے مسائل یقینا بہت گھمبیر اور پریشان کن ہیں مگر ہماری سادگی سے دوری اور نمود و نمائش کی، عادات ان کی شدت میں اضافہ کی بڑی وجہ ہیں اسی طرح اخلاقیات اور سماجیات میں ہم جس تیز رفتاری سے روبہ زوال ہیں، اپنی دینی اقدار اور قومی روایات سے ہم جس طرح لا تعلق بلکہ بیزار ہوتے چلے جا رہے ہیں، علامہ اقبالؒ کے بقول سبب اس کا کچھ اور ہے، بے زری بہرحال نہیں، ہمیں اس سبب کو کریدنا اور اسے دور کرنا ہو گا۔

قومی سطح پر 2023ء عام انتخابات کا سال ہے، ان انتخابات کو کسی نئے سیاسی اور آئینی بحران کا پیش خیمہ بننے سے بچانے کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین قبل از وقت مذاکرات کے ذریعے متنازعہ امور مل بیٹھ کر طے کر لیں اور انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات کر لی جائیں ورنہ یہ حقیقت فراموش نہیں کی جانا چاہئے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں فوجی قیادت کی ناکامی، غلط حکمت عملی اور ناقابل ستائش کردار کے علاوہ 1970ء کے عام انتخابات کے نتائج اور سیاست دانوں کی انتخابات سے قبل اور بعد کی غلطیوں، کوتاہیوں اور بداعمالیوں کا بھی بڑا دخل تھا، اللہ تعالیٰ ہمیں آئندہ ایسی کسی بھی صورت حال سے محفوظ فرمائے۔ آمین…!!!

(حامد ریاض ڈوگر)