دو ہفتے پہلے کی بات ہے، علی الصبح تقریباً نو ہی بجے حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا مکتوبِ مرطوب کراچی سے موصول ہوا۔ مفتی صاحب نے پہلے تو کلماتِ ستائش سے نوازا، پھر اِس مفت خور طالب علم کو مفت میں ’’مفتیِ لغت‘‘ کی سند تفویض کی، اما بعد فرمایا:
’’مجھے خوشی ہے کہ ماشاء اللہ آپ کو عربی پر بھی کافی عبور حاصل ہے۔ اس لیے میں نے بارہا کہا اور لکھا ہے ایم اے اُردو، ایم فل اُردو اور پی ایچ ڈی اُردوکے نصاب میں ابتدائی عربی اور فارسی کا کوئی معیاری نصاب ضرور شامل کیا جائے، اس کے بغیر ہماری آج کی یونیورسٹیوں کے فضلاء کے لیے اُردو کے کلاسیکل ادب سے کماحقہٗ استفادہ ممکن نہیں ہے۔ ایک بار میں نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی مرحوم کو پی ٹی وی پر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مرحوم کے تعزیتی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سنا، وہ فرما رہے تھے:
’’ہم دونوں جامعہ ملّیہ دہلی میں تھے۔ عصر کے بعد ہم دونوں چائے پر مل بیٹھتے اور’’ مخلّٰی بالطبع‘‘ ہوکر گپ شپ کرتے‘‘۔
میں نے اپنے اُردو کے پروفیسر صاحبان سے کہا کہ ’’ڈاکٹر صاحب تو سائنس کے آدمی ہیں، لیکن ماضی میں تعلیم کا آغاز مکتب سے ہوتا تھا اور اس میں ابتدائی عربی وفارسی بھی شامل تھی۔ آج اگر میں آپ سے کہوں کہ تختۂ سیاہ پر ’مُخلّٰی بالطبع‘‘ لکھ دیں تو آپ صحیح نہیں لکھ پائیں گے، اور اگر میں لکھ دوں اور اس پر حرکات نہ لگاؤں تو آپ صحیح تلفظ نہیں کرپائیں گے‘‘۔
لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ یہ تحریک بھی برپا کریں۔ میں نے ایک بار آرٹس کونسل [کراچی] میں کہا تھا: ’’کراچی والے اپنے آپ کو اُردو زبان کا وارث سمجھتے ہیں، لیکن اب آپ صرف ’اُردو اسپیکنگ‘ رہ گئے ہیں۔ اُردو لکھنے اور پڑھنے سے دُور ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر کالم نویسوں کا تعلق بھی پنجاب سے ہے۔ ڈریے اُس وقت سے جب آپ کو بیس پچیس سال بعد اپنے بچوں کو اُردو پڑھانے کے لیے اساتذہ پنجاب سے بلانے پڑیں…‘‘
مفتی صاحب کا خط تو اس سے آگے بھی جاری تھا۔ آگے مفتی صاحب نے’رسم الخط‘ پر بات کی۔ مگر خط کا اتنا ہی حصہ پڑھ کر ہم بالکل ’مُخلّٰی بالطبع‘ ہوچکے تھے۔ خاصی دیر تک ’مخلّٰی بالطبع‘ رہنے کے بعد خیال آیا کہ مفتی صاحب اچھے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اس گنہگار مسلمان سے بھی اچھا خاصا حُسنِ ظن رکھتے ہیں۔ حق تویہ ہے کہ یہ عاجز کالم نگار عربی زبان سے کماحقہٗ آگاہ بھی نہیں ہے، کجاکہ عبور حاصل ہو۔ مکتب میں صرف ’’یسّرنا القرآن‘‘ اور ناظرۂ قرآن پڑھا تھا۔ البتہ ثانوی جماعتوں میں عربی یا فارسی میں سے ایک اختیاری مضمون منتخب کرنا تھا۔ سو جماعت ششم کے اِس طالب علم نے عربی زبان کا انتخاب کیا۔ فارسی کی بنیادی تعلیم والد صاحب نے گھر ہی پر دے دی تھی۔ ’’داند خدائے مہرباں… اندر زمین وآسماں‘‘ لہک لہک کر گایا کرتے تھے۔ اور بھی کئی فارسی نظمیں والد مرحوم نے زبانی یاد کروا دی تھیں۔ ثانوی مدرسے میں عربی کے کچھ بنیادی قواعد اور کچھ ضروری گردانیں رٹوا دی جاتی تھیں۔ بس… ’یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر‘۔
مفتی صاحب نے درست نشان دہی فرمائی۔ بلاشبہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ہمارے ملک کے اُن مایہ ناز سائنس دانوں میں سے ایک تھے، جنھیں ہم بڑے فخر سے دنیا کے بڑے بڑے سائنس دانوں کی صف میں شمار کرسکتے ہیں۔آپ جامعہ کراچی میں ہمارے استاد تھے۔ ماہر کیمیا دان تھے۔ وطن عزیز کے درخت ’’نیم‘‘ اور پاکستان کے پھول دار پودوں پر گراں قدر تحقیق کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے تھے۔ فلسفی، مصور اور شاعر تھے۔ صدیقی صاحب انگریزی اور جرمن زبان کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے اپنی تعلیم کی ابتدا اُردو، عربی اور فارسی ہی سے کی تھی۔ ابتدائی تعلیم لکھنؤ سے حاصل کی۔ بعد میں علی گڑھ آگئے۔
وطنِ عزیز میں رائج انگریزی ذریعۂ تعلیم نے پچھلے 75 برسوں میں کوئی جوہرِ قابل پیدا ہی نہیں ہونے دیا۔ بقولِ اقبالؔ:
نہ اُٹّھا پھر کوئی رومیؔ عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گِلِ ایراں وہی تبریز ہے ساقی
لوگ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام لے سکتے ہیں۔ مگر اُن کی بھی بنیادی تعلیم اُردو ہی میں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اُردو شعر و ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ خود بھی شاعر تھے۔ اپنا ایک ’حسبِ حال شعر‘ اُنھوں نے دنیا ٹیلی وژن کے مقبول پروگرام ’’حسبِ حال‘‘ میں سنایا تھا:
گزر تو خیر گئی ہے تِری حیات قدیرؔ
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
یہ شعر غالباً اُس وقت کہا ہوگا جب وہ بالکل ’مخلّٰی بالطبع‘ کردیے گئے تھے۔ انگریزی ذریعۂ تعلیم سے کچھ ذہین پاکستانی پروان بھی چڑھے، مگر اُنھوں نے پاکستان کی نہیں، اُنھیں ممالک کی خدمت کی، جن کی زبان میں اُنھوں نے تعلیم حاصل کی تھی۔ بچوں کے قتل سے فرعونِ مصر بدنام ہوا، فراعینِ عصر نکو نام ہوئے، جن کی تدبیر تھی کہ کسی قوم کو اُس کے بچوں سے محروم کرنا ہو تو قوم اور قوم کے بچوں کے درمیان لسانی باڑکھڑی کردیجیے۔ ذہنی و جسمانی فاصلہ آپ سے آپ پیدا ہوجائے گا۔ قوم اور بچگانِ قوم دونوں ’مخلع بالطبع‘ ہوجائیں گے۔
اقبالؔ نے ’’ضربِ کلیم‘‘ میں ایک لُردِ فرنگی (English Lord)کی زبان سے کہلوایا ہے:
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اُدھر پھیر
تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر
لیکن اگرہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ہماری ہی قوم کے دست و بازو بنیں تو مفتی منیب الرحمٰن مدظلہٗ العالی کی تحریک محض ایم اے اُردو، ایم فِل اُردو اور پی ایچ ڈی اُردو تک محدود رکھنے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ ہمارے طلبہ و طالبات کا ذریعۂ تعلیم ہی اُردو ہونا چاہیے۔ بچوں کے علم و دانش میں اضافہ صرف اُسی زبان میں کیا جا سکتا ہے جس زبان میں وہ خواب دیکھتے ہیں۔ خواب دیکھیں گے تو انھیں شرمندۂ تعبیر کرنے کی تدبیر بھی کریں گے۔ زبانِ غیر سے شرحِ آرزو ممکن نہیں۔ علم کی بنیادیں پختہ ہوجائیں تو آپ جتنی زبانیں ضروری سمجھیں اُنھیں ضرور سکھائیں، تاکہ وہ دوسری زبانوں سے استفادہ کرکے اُن کے علوم و فنون کو اپنی زبان میں منتقل کریں اور اپنی قوم کو فائدہ پہنچائیں۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ بچوں کے لیے ایک ایسی زبان کو تعلیم کی زبان بنادیا گیا ہے جو ہمارے ملک کے کسی صوبے یا کسی خطے کے بچوں کی تو کیا، پورے براعظم ایشیا کے کسی ملک کی زبان نہیں۔ ایشیا جو ہماری جولاں گاہ ہے، جہاں ہمارے بچوں کو رہنا، بسنا، پروان چڑھنا اور ترقی کرنا ہے۔ سبحان اللہ! سات سمندر پارکے بچوں کی بولی، ہمارے بچوں کی تعلیمی زبان ہے۔ جب کہ اپنی زبان کو سات سمندر پار کی بولی سمجھ کر ایک الگ مضمون کی صورت میں مارے باندھے پڑھایا جارہا ہے۔ اسی وجہ سے تو ہمارے بچے علم، تحقیق، ایجادات و اکتشافات ہر چیز سے بالکل ’مُخلّٰی بالطبع‘ ہوچکے ہیں۔
اے عزیزو! ’مُخلّٰی (تلفظ: موخلّا) کا مطلب ہے وہ چیز جسے خالی کردیا گیا ہو۔ آزاد چھوڑ دیا گیاہو۔ ’بالطبع‘ کا مطلب ہے طبیعت سے یا مزاج سے۔ گویا وہ شخص جس کی طبیعت خالی ہوگئی ہو اور مزاج آزاد چھوڑ دیا گیا ہو، وہ ’مُخلّٰی بالطبع‘ ہوتا ہے۔ ’مُخلّٰی بالطبع‘ کا ایک مفہوم بے تکلف ہونا بھی لیا جاتا ہے اور بے فکر یا خالی الذہن ہونا بھی۔ مراد یہ کہ جو شخص ذہنی طور پرکسی فکر، کسی الجھن یا کسی بندھن سے بندھا نہ ہو، کسی ضابطے میں جکڑا ہوا نہ ہو، ہر قسم کے تناؤ سے خالی اور آزاد ہو، ’مُخلّٰی بالطبع‘ ہے۔ بے فکر اور بے پروا لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔