شمس العلما مرزا قلیچ بیگ (4 اکتوبر، 1853ء۔ 3 جولائی، 1929ء) سندھ سے تعلق رکھنے والے انیسویں صدی کے مشہور و معروف عالم، صاحبِ دیوان شاعر، ماہرِ لسانیات، ماہرِ لطیفیات، مؤرخ، مترجم، ناول نگار اور ڈراما نویس تھے۔ آپ ٹنڈو ٹھوڑو، حیدرآباد، سندھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مکتب سے حاصل کی اور بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول حیدرآباد میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد حصولِ علم کے لیے الفنسٹن کالج بمبئی چلے گئے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سندھ واپس لوٹے اور عدالتی امتحان پاس کرکے مختیارکار کے طور پر شکارپور میں تعینات ہوئے۔ تیس سال تک سرکاری خدمات انجام دینے کے بعد 1910ء میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
مرزا قلیچ بیگ خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اپنی 76 برس کی زندگی میں 8 مختلف زبانوں (عربی، بلوچی، انگریزی، فارسی، سندھی، سرائیکی، ترکی اور اردو) میں43 موضوعات پر 461 سے زائد کتابیں تصنیف، تالیف و ترجمہ کرکے ایک تاریخ رقم کی۔ علاوہ ازیں کئی اصناف کا نہ صرف سندھی زبان میں ترجمہ کیا، بلکہ ان کو متعارف بھی کرایا۔ برطانیہ کے شہرئہ آفاق ڈراما نگار ولیم شیکسپیئر کے 8 ڈراموں سمیت مختلف زبانوں میں لکھے گئے ڈراموں کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا، جب کہ 32 ڈرامے خود تحریر کیے۔ مرزا صاحب نے ”زینت“ کے نام سے پہلا سندھی ناول اور ابتدائی سندھی ڈراموں میں سے ایک ”خورشید“ لکھا۔ ان ڈراموں میں مزاحیہ، عشقیہ، تاریخی اور سماجی مسائل سمیت دیگر موضوعات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مرزا صاحب ہی نے سب سے پہلے چچ نامہ کا فارسی سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ”ساؤ پن یا کارو پنو“کے نام سے اپنی خود نوشت بھی لکھی۔
مرزا قلیچ بیگ کی علمی اور ادبی خدمات کے صلے میں انھیں 1906ء میں قیصر ہند کے لقب سے نوازا گیا تھا۔ جب کہ 1924ء میں برطانوی حکومت نے انھیں شمس العلما اور خان بہادر اور سندھ کے عوام نے فادر آف سندھی لٹریچر اور سندھ کے شیکسپیئر کے خطابات دیے۔
سندھ کی تاریخ میں مرزا قلیچ بیگ سے زیادہ کتابیں کسی نے نہیں لکھیں۔ پیش نظر کتاب دراصل مرزا قلیچ بیگ کی کتابوں کی وضاحتی فہرست ہے۔ اس کتابیات کو مرزا اعجاز علی بیگ نے بہت محنت سے مرتب کیا ہے۔ ابتدا میں حروفِ تہجی کی ترتیب سے43 موضوعات کے تحت مرزا قلیچ بیگ کی عربی، بلوچی، انگریزی، فارسی، سندھی اور اردو کتابوں اور مخطوطات کی تعداد ذکر کی گئی ہے۔ اس کے بعد ہر موضوع کے تحت کتابوں کا نام (سندھی اور انگریزی میں)، ان کا سنِ اشاعت اور مختصر وضاحتی نوٹ تحریر کیا گیا ہے۔ اس کتابیات میں شامل مخطوطات اور کتابوں کی کُل تعداد 461 ہے۔
جن موضوعات پر مرزا قلیچ بیگ نے کتابیں لکھیں اُن میں سے چند درجِ ذیل ہیں: زراعت، نباتات، عمرانیات، معاشیات، اخلاقیات، تعلیمِ نسواں، مستقبلیات، علم نجوم اور علم ہیئت، اسلامی قانون، لطیفیات، سوانح، عیسائیت، بہائی مذہب، بلوچی گرامر، ڈرامے، شخصیات، بچوں کا ادب وغیرہ۔ ان عنوانات سے مرزا قلیچ بیگ کی متنوع علمی خدمات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مرزا قلیچ بیگ کی علمی خدمات کے حوالے سے یہ کتاب ایک اہم ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ محققین کے لیے ایک بیش قیمت سرمایہ اور اپنے عہد کے ایک بڑے عالم کو ایک عمدہ خراجِ تحسین بھی ہے۔ اس کتابیات کی اشاعت پر فاضل مرتب مرزا اعجاز علی بیگ اور ناشر شمس العلماء مرزا قلیچ بیگ چیئر دونوں ہی قابلِ مبارک باد ہیں۔