مسلم سجاد صاحب.. چند خوش گوار یادیں

آج سے 11 برس پہلے کی بات ہے، دو بندے آپس میں محوِ گفتگو تھے۔ایک نے کہا: ”مجھے ماہ نامہ ”ترجمان القرآن“ کے نائب مدیر مسلم سجاد صاحب سے ملنا ہے لیکن میں انھیں شکل سے نہیں جانتا“۔ دوسرا کہنے لگا: ’’سفید خشخشی ڈاڑھی، سانولی رنگت، پیچھے ہاتھ باندھے ہوئے منصورہ میں سب سے آہستہ چلتا ہوا جو بندہ نظر آئے وہ مسلم سجاد صاحب ہوں گے۔ نمازوں کے اوقات میں مسجد آتے جاتے دیکھے جاسکتے ہیں۔‘‘
ایک طرف چال کا یہ عالم تھا، دوسری طرف اُن کی بولنے کی رفتار عام کراچی والوں سے زیادہ تیز تھی۔ بولتے ہوئے اکثر اوقات اُن کے الفاظ آگے نکل جاتے اور سننے والا حیران پریشان پیچھے رہ جاتا۔ اُن کی ہاتھ کی لکھائی پروفیسر خورشید صاحب کی لکھائی کی طرح رموز کے زمرے میں آتی جسے خاص لوگ ہی پڑھ سکتے تھے۔ عام بندے کے لیے پڑھناآسان نہ تھا۔
2004ء میں ادارہ معارف اسلامی لاہور کے زیراہتمام سہ ماہی تصنیفی تربیت کلاس کے الوداعی پروگرام میں شرکا کی نمائندگی کرتے ہوئے میں نے گفتگو کی۔ میں نے رسمی طور پر سب کا شکریہ ادا کرنے کے بعد آخر میں یہ جملہ کہا: ”مجھے امید ہے کہ (تصنیفی تربیت کا) یہ مفید سلسلہ جاری رہے گا اور آنے والے کورس کے لیے قیام و طعام کا بہتر انتظام کیا جائےگا۔“
ویسے تو منورحسن صاحب نے بھی بطور خاص اس جملے کی داد دی، ادارے کے سربراہ حافظ محمد ادریس صاحب وضاحت پیش کرنے میں مصروف ہوگئے، لیکن اس جملے کا صحیح لطف مسلم سجاد صاحب نے لیا، وہ دیر تک مجھے دیکھتے رہے اور ہنستے رہے۔
یہ 2005ء کی بات ہے میں منصورہ آیا۔ مسجد میں ملے۔ اُس وقت ہمارے درمیان بے تکلفی نہ تھی۔ میں نے سلام کیا، مصافحہ کیا، پھر حسبِ دستور حال احوال پوچھتے ہوئے کہا:”سر! آپ کی صحت کیسی ہے؟“
اپنے مخصوص اسٹائل میں جوابی سوال داغا: ”آپ کو کیسی نظر آرہی ہے؟“
میں نے کہا: ”مجھے تو ٹھیک نظر آرہی ہے۔“
کہنے لگے: ”پھر میں آپ کو اندرونی بیماریاں کیوں بتاؤں؟“ پھر اپنی ہی بات کا لطف لے کر اپنے مخصوص اسٹائل میں ہنسنے لگے۔
میں ایک عرصے تک ماہ نامہ ترجمان القرآن کے ادارتی امور میں رضاکار کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ اس دوران ایک دن مجھے وفیات پر ایک مضمون کا مسودہ دیا اور اس کے بارے میں میری رائے جاننا چاہی۔ میں نے احتیاط کے ساتھ اپنی رائے دیتے ہوئے کہاکہ یہ مضمون اگر ”ا ب ج“ سے لکھوایا جائے تو زیادہ مناسب رہے گا۔ برجستگی سے کہنے لگے:”چھوڑو، وہ گورکَن کی طرح تیار بیٹھے رہتے ہیں اور ہر ایک پر ایک ہی طرح کی چیزیں لکھتے ہیں۔ پھرکہنے لگے: ”مجھے ایسی بات نہیں کرنی چاہیے لیکن حقیقت تو یہی ہے۔“
مسلم صاحب باقی ادارتی امور کے ساتھ ساتھ مالی امور کا انتظام بھی کرتے تھے۔ اشتہار بنانے اور اعانت کی اپیل میں بھی ان کو ملکہ حاصل تھا۔ انھوں نے حسن البنا شہید نمبر کی اشاعت سے پہلے جماعت کے تمام امرائے اضلاع کو خط لکھاکہ ہر ضلع کم ازکم ایک اشتہار اس خصوصی نمبر کے لیے دے۔ شمارہ چھپنے کے بعد انھوں نے اُن امرائے اضلاع کو ایک تنبیہی خط جاری کیا جنھوں نے اس حکم کی تعمیل نہیں کی تھی۔ ایک دن میں باہر دکان سے کوئی چیز خرید کر اپنے کمرے کی طرف آرہا تھا، ترجمان کے دفتر کے سامنے مسلم صاحب کسی اور صاحب سے بات کررہے تھے۔ سلام کرکے میں نے آگے گزرنا چاہا۔ انھوں نے آواز دی: ”خٹک صاحب! ذرا رُکیے“۔ میں رک گیا۔ کہنے لگے: ”یونس خٹک آپ کے رشتے دار ہیں؟“ میں نے کہا: ”نہیں، اتنا معلوم ہے کہ وہ مانسہرہ کے امیر ضلع ہیں“۔ پھر وہ میرا ہاتھ پکڑ کر دفتر میں لے گئے، کہنے لگے: ”میں نے جو تنبیہی خط جاری کیا تھا، یونس خٹک صاحب نے اس کا جواب دیا ہے“۔ پھر ہنس ہنس کر کہنے لگے: ”مزاآگیا۔“
یونس خٹک صاحب کے احتجاج کا لب لباب یہ تھا کہ ’’ہماری طرف سے نہ صرف یہ کہ اشتہار مل گیا ہے بلکہ آپ نے شمارے میں شائع بھی کردیا ہے، لیکن اس کے باوجود اندھادھند لاٹھیاں برساتے ہیں۔‘‘
مسلم سجاد صاحب نے اس کا مختصر جواب لکھا تھا: ’’بھائی! یہ لاٹھی آپ کے لیے نہیں تھی، غلطی سے آپ کو لگ گئی۔‘‘
ایک دفعہ مسجد سے باہر نکلے، میں اُن کے ساتھ ساتھ جارہا تھا۔ ہمارے پیچھے سابق امیر جماعت منورحسن صاحب آئے، سلام کیا، ہم نے مصافحہ کیا۔ وہ منور صاحب کے ساتھ کوئی بات کرنے لگے۔ باقی بات کیا تھی وہ مجھے نہیں معلوم، تمہید کچھ اس طرح سے تھی: ’’منورصاحب! مجھے آپ سے بات کرنی ہے لیکن آپ سے بات کرنے سے پہلے تو اقدام قتل کرنا پڑتا ہے‘‘۔ منورصاحب نے ترنت جواب دیتے ہوئے کہا:’’وہ تو آپ دن میں کئی دفعہ کرلیتے ہیں۔‘‘پھردونوں مسکرانے لگے۔
گفتار و کردار میں اپنی مثال آپ، منفرد شخصیت کے مالک یہ شخص ایک دن چُپکے سے دنیائے فانی کو چھوڑ گئے۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔