ہمارے علم دوست، اعلیٰ قدروں کے زوال پذیر معاشرے میں اخلاص اور اخلاق کے پیکر ملک نواز احمد اعوان، اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ یہ ایک حقیقت ہے، اس عالمِ فانی میں مستقل قیام کا پروانہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ میری ان سے آخری ملاقات 28 جون 2022ء کو منصورہ میں ہوئی تھی اوریکم ستمبر 2022ء کی صبح تقریباً10 بجے ان کے نمبر سے واٹس ایپ پر ان کی وفات کی اطلاع نے افسردہ اور مغموم کردیا۔ اس وقت اُن سے دودہائیوں سے زائد عرصے پر پھیلے ہوئے تعلق کی یادیں حافظے پر دستک دے رہی ہیں۔ 1998ء میں کراچی سے محمد راشد شیخ کی کتاب ’’تذکرۂ خطاطین‘‘ چھپی تو بہ غرض حصولِ کتاب 2000ء میں ان کے گھر ملاقات ہوئی، وہیں فنِ خطاطی کے معروف رمز شناس ملک نواز احمد اعوان صاحب کا غائبانہ تعارف ہوا۔ چناں چہ شیخ صاحب کے ساتھ ملیر سے بس میں سوار ہوئے اور طارق روڈ بس اسٹاپ پراترکر ایک تنگ و تاریک گلی میں داخل ہوگئے جہاں فریج اور ریفریجریٹر مرمت کرنے کی ایک ورکشاپ دیکھی، جس میں علوم و فنون کی نادر و نایاب کتابیں کثیر تعداد میں بغیر ترتیب کے رکھی تھیں۔ آدھی آستین کی شرٹ اور پینٹ میں ملبوس، چہرے پر موٹے شیشوں والی عینک لگائے بھاری بھرکم جسم، شکستہ کرسی (ملاقاتوں میں تسلسل ہوا تو بعض دفعہ مجھے اسی کرسی پریہ کہتے ہوئے بٹھاتے کہ اس کرسی کو یہ شرف اور امتیاز حاصل ہے کہ امام الخطاطین حافظ محمد یوسف سدیدی ؒ صاحب اس پر بیٹھ کر خطاطی کرتے بھی رہے ہیں اور شائقینِ خطاطی کو اصلاح بھی دیتے رہے ہیں) پر ایک صاحب کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے۔ ان کے چہرے کی تمکنت و شادابی، جہاں ان کے شخصی وقار میں خوب اضافہ کررہی تھی وہاں کسی راہِ علم کے مسافر ہونے کا بھی پتا دے رہی تھی۔ دورانِ گفتگو معلوم ہوا کہ ان کا حافظہ نادرونایاب علمی جواہر پاروں کا خزینہ ہے۔ اب تک شناسائی نہ ہونے کے باوجود اُن کے ملنے کا انداز بے تکلفانہ اور دل آویز تھا۔ انھوں نے چائے سے ہماری ضیافت کی۔ میں نے اپنی خطاطی کے الٹے سیدھے نمونے دکھائے۔ ضروری ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ رابطے میں رہنا، اِن شاء اللہ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔ یہ تھی اُن سے میری پہلی ملاقات۔
وہ بہت ساری خوبیوں سے متصف تھے۔ منکسرالمزاج، طبیعت انتہائی سادہ پائی تھی۔ ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ ہر حال میں صبر و شکر کے دامن سے وابستہ رہا۔ ہر طرح کے حالات میں اُن کو مطمئن دیکھا گیا۔ ہر انسان کا حالاتِ زمانہ کے الٹ پھیر سے متاثر ہونا اور اس وجہ سے مزاج میں تبدیلی کا رونما ہونا ایک حقیقت ہے، مگر ملک نواز اعوان صاحب کا رویہ اس معاملے میں ہمیشہ پُروقار اور وضع دار رہا۔کبھی بھی تنگیِ داماں کا تاثر ظاہر نہیں ہونے دیا، بلکہ اُن کے چہرے پر طمانیت کے آثار ہمیشہ نمایاں رہتے، ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ وہ ہمیشہ متحمل مزاج، ہنس مکھ، ہمدردی اور خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار رہتے تھے، ان کی تنقید میں بھی مزاح کا پہلو نمایاںرہتا۔ ان کی شخصیت میں وہ کشش تھی کہ جو کوئی ایک بار مل لیتا اسے دوسری بار ملنے کی خواہش بے تاب رکھتی تھی۔ ایک دفعہ مل لینے والا شخص ان کا گرویدہ بلکہ ان کی زلف ِ گرہ گیر کا اسیر ہوجاتا تھا۔ راقم السطور کا جب بھی کراچی جانا ہوتا اُن سے ملنا پروگرام میں سرفہرست ہوتا، اور ہمیشہ اپنے پروگرام میں محض اُن سے ملنے کے لیے بطور خاص ایک دن کا اضافہ کرنا پڑتا۔
وہ ایک ملنسار، انتہائی سادہ، محبت کرنے والے انسان اور فیض رسانی کا ایسا چشمہ تھے جہاں تشنگانِ علم و فن پہنچ کر اپنی تشنگی بجھاتے تھے۔ دوستوںمیں ان کی شخصیت کو نسیمِ بہار کی حیثیت حاصل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی شخصیت میں نیک نامی اور فیض رسانی کے اوصاف بہ کثرت عطا فرمائے تھے۔ ہمیشہ محبتوں کے منّاد دیکھے گئے۔ مبتدیوں میں خوابیدہ اور مخفی صلاحیتوں کو منصۂ شہود پر لانے کا فن اُن میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ کسی کی ذات میں برائی کو بیان کرنے سے کوسوں دور، اور احساسِ برتری کے مہلک جراثیم سے سراسر پاک رہے۔ ہر ایک سے بغیر لگی لپٹی رکھے اپنے خیالات کا اظہار کردیتے تھے۔پوری زندگی اُن کا علم وادب سے بہت گہرا تعلق رہا۔ وسیع المطالعہ ہونے کے باعث ان میں یہ خوبی بھی تھی کہ دوسروں کے نظریات سے اتفاق کرتے تو اس کو بلاجھجھک قبول کرلیتے۔ مختلف موضوعات پر مدلل، مسکت اور باحوالہ گفتگو کرنے پر خوب ملکہ حاصل تھا۔
ان کے حلقہ احباب میں کتابوں کے رسیا شامل ہوتے تھے۔ ان میں کوئی اسلامی علوم میں دلچسپی رکھتا، توکسی کو تصوف سے دلچسپی ہوتی… کوئی فقہ، تفسیر وحدیث کا شیدائی، تو کسی کا میدان فنِ خطاطی ہوتا… کوئی علم لغت کا ماہر، توکوئی عالمِ دین… کوئی امیر ہوتا کوئی غریب، کوئی اپنی لائبریری کو کتب سے مزین کرنے میں سرگرداں ہوتا، کوئی مورّخ، نقاد… نیز ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے باکمال لوگ اُن کی علم نوازی کی شہرت سن کر دوردراز سے اُن کے علمی خزانے سے فیض اور حظ اٹھانے کے لیے کھنچے چلے آتے تھے۔
دورانِ قیامِ کوئٹہ پروین رقم ؒ کے ایک شاگرد کو خطاطی کرتے دیکھ کر انہیں خطاطی سے جو لگائو پیدا ہوا وہ آخری وقت تک قائم رہا۔ بلامبالغہ وہ خطاطی کے عاشقِ صادق تھے۔ فنِ خطاطی سے ان کو عشق کی حدتک جو لگائوتھا وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ہفت روزہ فرائیدے اسپیشل میں پاکستانی خطاطوں کے تعارف کا سلسلہ انھی کی جستجو سے کچھ عرصہ باقاعدگی سے جاری رہا، مگر بوجوہ یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔شائقین، مبتدی اور خطاطوں کو ملکی اور غیر ملکی نامور خطاطوں کے فن پارے کمالِ محبت سے عنایت کرکے ان کو فنی سفر میں آگے بڑھنے کی خوب ترغیب دیتے۔ نوآموز کے فنی جوہر پر پڑی دبیز تہوں سے پردہ ہٹاکر ان کو علمی استعداد سے حظ اٹھانے کے قابل بناتے۔ فنِ خطاطی پر گفتگو کرتے تو ایک انسائیکلو پیڈیا معلوم ہوتے تھے۔ راقم سطور کے ذوقِ خطاطی اورکتب بینی کو جو مہمیز ملی وہ ان ہی کی مرہونِ منت ہے۔ اگر میں ان کو اتالیقِ خطاطی کہوں تو بہت حد تک درست ہوگا، کیوں کہ میں نے کافی رموزِ خطاطی اُن سے سیکھے ہیں۔کتاب کے ٹائٹل کی تیاری میں مشورہ دیتے وقت رنگوں کے بہترین انتخاب سے ٹائٹل کو جاذب نظر بنانے کی خوب تاکید کرتے۔ پوری زندگی، نامور خطاطوں کے بصری جمالیات سے مزین فن پارے اور اہلِ علم وادب کی کتابیں بانٹ کر احساسِ تفاخر سے مالامال کرکے عجیب سرشاری اور تمکنت حاصل کرتے رہے۔
آج کے قحط الرجال کے دور میں علم پروری، ادب دوستی اور علم کی روشنی پھیلانا اُن کا مشن رہا۔ ان کی شخصیت کا مشکل پہلو کسی شعبے میں ان کا تخصص تلاش کرنا ہوتا تھا۔ وہ صرف کتابیں نہیں بانٹتے تھے بلکہ دوست احباب اور ضرورت مندوں کی مختلف اشیائے خورونوش بھی ازراہِ ہمدردی فروخت کرتے تھے جیسے کتب، شہد اورچاول وغیرہ کا راقم عینی شاہد ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہر طرح کی مدد پر کمربستہ رہتے۔ پوری زندگی علم بصورت کتاب بانٹتے رہے۔ جوہرِقابل کی قدرکرنے والے جوہر شناس، ضرورت مند کی دلچسپی کی کتاب سنبھال کر رکھتے جو عندالملاقات پیش کرتے، یا ذاتی خرچ سے بذریعہ ڈاک ارسال کردیتے تھے۔کتاب بانٹنے میں بہت زیادہ فراخ دل واقع ہوئے تھے۔ اپنی پسند کی کتاب دے کر واپس نہ ملنے کا شکوہ بھی کرتے لیکن اس کے باوجود کسی سے علمی خزانہ چھپایا اور نہ ہی کتاب دینے سے کبھی انکار کیا۔ اس عمل کو بخیلی سمجھتے تھے۔ لوگ بغیر بتائے کتابیں لے جاتے تھے اور پھر واپس نہ کرتے، جس پر اکثر اوقات نوحہ کناں رہتے۔کتاب دے کر بھول جاتے اور پھر تلاش کرتے وقت نہ ملنے پر اکثر کہتے ’’اسبغول تے کُجھ نہ پھول‘‘۔ نادر ونایاب کتب کی گمشدگی پر افسردہ ہوجاتے۔ اپنی دکان سے جو بیک وقت لائبریری کاکام بھی دیتی تھی، اکثر کتب کے چوری ہوجانے کا شکوہ کرتے اور پھر فوراً یہ کہتے ہوئے بات کا رخ کسی اور طرف موڑ دیتے کہ یہ بھی صدقۂ جاریہ ہے، اس بہانے سے کتاب پڑھ تو لیں گے۔
علمی مقالات کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے والے ریسرچ اسکالرز اوردانش وَروں کو مفید علمی مشوروں سے نوازتے۔ علم کے متلاشی جب علمی استفادہ و استفاضہ کا راستہ مسدود ومحدود پاکر اُن کے ہاں پہنچتے تو اُن کے قلم کو خلعت اور وسعت عطاکرتے ہوئے اور گوہرِ مقصود سے مالامال اورسرفراز کرکے واپس بھیجتے۔ ان کی ترغیب پر راقم نے محمد طاہر بن عبدالقادر الکُردی المکی کی تالیفتاریخ الخط العربی وادابہ کا عربی سے اردو میں ترجمہ کرایا تو اس کی کمپوزنگ کے پروف پڑھنے کے بعد اس کو فوراً شائع کروانے کی تاکید کرتے رہتے۔کاش یہ کتاب ان کی زندگی میں چھپ سکتی۔
ملک صاحب کی کراچی میں بظاہر ائیر کنڈیشنڈ اور ریفریجریٹر مرمت کرنے کی ورکشاپ تھی مگر حقیقت میں علما، فضلا، ادبا اورعلم وفن کا مرکز ومرجع تھی۔ ان کے ہاں آنے والوں میں مدارس کے اساتذہ، کالجوں اوریونیورسٹیوں کے مختلف شعبوں کے سربراہان، صحافی، مدیرانِ مجلات و اخبارات، مصنف، مولف، مترجم، خطاط غرض ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے اصحاب میں سے کوئی نہ کوئی ہر وقت موجود ہوتا تھا۔ان کے پاس آنے والوں کی فہرست تیار کرنا مشکل امر ہے، تاہم راقم کی موجودگی میں یحییٰ بن زکریاصدیقی(ایڈیٹر فرائیڈے اسپیشل کراچی)، ماہ نامہ الواقعہ کراچی کے مدیر محمد تنزیل الصدیقی، ریاض احمد خطاط اور بہت سارے اشخاص کواکثر وہاں آتے دیکھا۔ وہ خطاطوں میں خالد جاوید یوسفی صاحب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مولانا مودودی، مشفق خواجہ، ڈاکٹرمحمد حمیداللہ، پروفیسر سید محمد سلیم، محمد عالم مختار حق، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں، تحسین فراقی، خرم مراد، معین الدین عقیل، سید صبیح الدین صبیح رحمانی (مدیر نعت رنگ)، سید فضل الرحمٰن (مدیر السیرہ عالمی )، محمدراشد شیخ، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر انجم رحمانی، پروفیسر غازی علم الدین اور پروفیسر محمد اقبال جاوید کے معترف تھے۔
کتابوں پر تبصرہ، اپنے وقت کا بہترین مصرف سمجھتے ہوئے کرتے تھے۔ فرائیڈے اسپیشل میں سالہا سال تک کتابوں پر تبصروں کو ادبی لہجے میںقلمی آہنگ عطا کرتے رہے۔ مصنف کی کمزوریوں پر پردہ پوشی اور اچھائی کو بیان کرنے کے فن سے خوب واقف تھے۔ اچھے پہلوئوں کو اجاگر کرنے کی کوشش ہمیشہ نمایاں رہتی۔کتاب کے کمزور پہلوئوں پر مثبت انداز میں توجہ مبذول کراتے جس کو مصنف یا مؤلف فراخ دلی سے قبول کرتا۔ تیس سال تک کتب پر تبصرہ لکھنے والے ملک صاحب سے آخری ملاقات میں مَیں نے کہا کہ فرائیڈے اسپیشل میں کتابوں پر آپ کے کیے گئے تبصروں کو اگر کتابی شکل میں جمع کردیا جائے تو ایک معلوماتی دستاویز بن سکتی ہے۔ تواس پر انہوں نے کہا: کاش کوئی ایسا کرتا! مزید بتایا کہ پچھلے سال کتابوں پر122 تبصروں میں 92 تبصرے میں نے لکھے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔
علمی،ادبی، فنی حلقوں میں نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی پہچانے جاتے تھے۔ بیرونی ممالک کے اہلِ قلم سے بھی برابر روابط تھے۔ ایک مرتبہ عبدالعزیز جاوید مرحوم رحیم یارخان (مترجم فارسی اردو) کو محمد حسین تسبیحی(ایرانی محقق، دانشور اور شاعر) سے رابطے کی ضرورت پڑی، میں نے یہ معاملہ ان کے گوش گزار کیا تو انھوں نے اُن کے برقی پتے میں ہماری مکمل معاونت فرمائی۔
اُن کے والد اور دادا کوئٹہ میں رہائش پذیر رہے۔ فروری 1943ء میں کوئٹہ میں پیدائش ہوئی۔ سرکاری کاغذات میں ان کی پیدائش1946ء درج ہے۔آبائی تعلق سیالکوٹ کے گائوں کوٹلی لوہاراں سے تھا۔ بچپن لاہور میں گزارا۔ ان کی والدہ صاحبہ کا تعلق جموں سے تھا۔ اہلیہ کی پیدائش پشاور میں ہوئی۔ 1972ء میں شادی کراچی میں ہوئی۔ تعلیم لاہور میں حاصل کی(ازراہِ تفنن کہتے تھے کہ میں پورا پاکستانی ہوں)۔ بی اے کرنے کے بعد اپنے ماموں سے ریفریجریشن کی مرمت کا کام سیکھ کر ایک غیر ملکی کمپنی سے ڈپلوما حاصل کیا۔ اُن دنوں ترکی کی کسی کمپنی کو ایسے افراد کی ضرورت تھی جو انگریزی بول چال میں معمولی صلاحیت رکھتے ہوں۔ تین سال تک کام کرنے پر ان کو وہاں کی شہریت مل سکتی تھی۔ ضروری کاغذات کی تیاری کے لیے پانچ سوروپے درکار تھے جس کا ذکر انہوں نے اپنے ماموں سے کیا۔ ان کے مامو ں نے ان کے والد صاحب کو بتایا کہ اگر بچہ باہر چلا گیا تو واپس نہیں آئے گا۔ لہٰذا اجازت نہ ملی، جس پر انہوں نے ڈینسوہال سے150/- روپے کی مکمل کِٹ خرید کر کراچی کی معروف طارق روڈ پر اپنا ذاتی کام شروع کردیا۔
پچاس سال کراچی میں گزارنے کے بعدکراچی سے لاہور منتقلی کے مرحلے پر دو دفعہ ( 8 اگست 2017 ء اور28 اکتوبر2017ء)کراچی بلا کر اپنے قیمتی ذخیرۂ کتب سے اپنی پسند وضرورت کی کتب لے جانے کے لیے کہا۔ میں نے کتابیں پیک کرنے سے پہلے رقم کا پوچھا تو کہا کہ میں کتب فروش نہیں ہوں، کتابیں صدقۂ جاریہ ہوتی ہیں۔ ان کی یہ وسعت ِ قلبی علمی خدمت کی غماز ہے۔ ایک مرتبہ استاذالخطاطین حافظ یوسف سدیدیؒ نے، سعودی عرب سے خریدی گئی خطاطی کے نمونوں پر مشتمل کتاب Master Pieces of Arabic Calligraphy (22×28سائز ) ملک صاحب کو تحفے میں پیش کی جو انھوں نے اپنے دستخط سے مجھے بھجوادی، جو میرے لیے نادر یادگار ہے۔ خطاطی کی مختلف کتب، قرآن مجید بخط استاد حامد الٓامدی (ترکی) اور تیسواں پارہ قرآن بخط شوقی اس پر مستزاد ہیں۔ معروف خطاط حافظ محمد یوسف سدیدی صاحبؒ، جناب خالد جاوید یوسفی صاحب اور انجم رحمانی صاحب کی مرتب کردہ کتاب (دوسرا حصہ) کے تادم آخر شدت سے منتظر رہے۔ کاش!ان کی زندگی میں یہ شاہکارکتابیں چھپ جاتیں۔
کتاب دوست ملک صاحب نے 28 جون 2022ء کو آخری ملاقات میں ناصر فاروق کی مرتبہ کتاب ’’مغرب اور جدید سائنس‘‘ مجھے عنایت کی۔ مزید کتب کا پیکٹ ڈاک سے روانہ کرنے کا وعدۂ فردا لے کر30 اگست 2022ء کو ایسی جگہ روانہ ہوگئے جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔ مجھے انھوں نے ڈھیروں کتابیں عنایت کیں، اکثر کتابوں پر لکھ کر دیا۔ یہ کتابیں ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔نیز اپنی زندگی کے بارے میں بہت دلچسپ واقعات سنائے، خاص کر ایک بات جو انھوں نے کی وہ قابل غور ہے: ’’جَوان آدمی کی موت کو لوگ محبت سے یاد کرتے ہیں مگر ہم جیسے بوڑھوں کو یاد کرنے والوں میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ میرے ہم عصروں میں 75 فی صد لُڑھک گئے ہیں اور باقی 25 صد جو بچے ہوئے ہیں مرنے کے لیے جگہ تلاش کررہے ہیں۔‘‘
پوری زندگی خیر بانٹنے اور سمیٹنے والے ملک نواز اعوان کی یادوں کا سلسلہ بہت طویل ہے، مگر اپنی بات کو حضرت واصف علی واصفؒ کے اس قول پر ختم کرتا ہوں جو حرف بہ حرف اس مردِ درویش پر صادق آتا ہے ’’فقیری شروع ہوتی ہے بے ضرر ہوجانے سے، اور مکمل ہوجاتی ہے منفعت بخش ہوجانے پر۔‘‘