تازہ ترین خبر کے مطابق نیویارک کے بعد کراچی دنیا میں سب سے زیادہ منشیات استعمال کرنے والا شہر بن چکا ہے
کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں نہیں رک رہی ہیں۔ شہر میں ایک بار پھر بدامنی اور دہشت گردی کا راج ہے۔ اس شہر میں رہنے والے دن کی روشنی میں بھی غیر محفوظ ہیں۔ موبائل فون اور پرس چھیننے والے شہر کے ٹریفک سگنلز اور شاپنگ سینٹرز کے باہر دن دہاڑے وارداتیں کرتے ہیں، سروں میں گولیاں مارتے ہیں اور انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ پولیس کے تمام دعووں کے باوجود دہشت گرد پورے شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں، عوام کے جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں، گلی محلوں میں لوٹ مار اور سڑکوں پر موت کا کھیل جاری ہے۔ ابھی دو دن پہلے یونیورسٹی روڈ پر این ای ڈی کے طالب علم بلال کو ڈاکوؤں نے مزاحمت پر سفاکی کے ساتھ سینے اور ٹانگ پر گولی مار کر زندگی سے محروم کردیا تھا، اور اس واقعے کی گونج ابھی فضا میں موجود تھی کہ کورنگی کے ایریا میں گن پوائنٹ پر موٹر سائیکل چھیننے کی واردات کے دوران مزاحمت پر ڈاکوئوں کی فائرنگ سے32 سالہ نوجوان، ایل ایل بی کے طالب علم اظہر کے جاں بحق ہونے کی خبر آگئی۔ گوکہ پولیس کی جانب سے بلال کے قاتلوں کو پکڑنے کا دعویٰ بھی سامنے آیا ہے، اگر یہ دعویٰ ٹھیک ہے تو بھی اس شہر کی تاریخ یہ ہے کہ شاذو نادر ہی کوئی اپنے کیے کی سزا کاٹتا ہے، کیونکہ عموماً مجرموں کو بچانے میں بھی پولیس کا ہی کردار ہوتا ہے۔ وہ کیس کمزور بناتے ہیں، تفتیشی رپورٹ اس طرح کی ہوتی ہے جس سے ریلیف جرم کرنے والے کو ہی ملتا ہے، اور عدالت عدم ثبوت کی بنا پر اسے چھوڑ دیتی ہے،جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ جرائم پیشہ افراد دوبارہ اسٹریٹ کرائمز میں ملوث ہوجاتے ہیں، اور یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر ہر عمر کے شہری ڈاکوؤں کو یا تو اپنا مال دے رہے ہیں یا اپنی جان دے رہے ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سال 2022ء میں اب تک شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی 82 ہزار 713 وارداتیں ہوئی ہیں، دورانِ ڈکیتی ڈاکوؤں کی فائرنگ سے سو سے زائد شہری جاں بحق اور 419 اب تک زخمی ہوچکے ہیں۔ اسی طرح امسال اب تک شہر کے مختلف علاقوں میں لوگوں سے 27 ہزار 249 موبائل فون چھینے گئے،2 ہزار 131 گاڑیاں، جبکہ 52 ہزار 383 موٹر سائیکلیں چھینی اور چوری کی گئیں، گھروں میں ڈکیتیوں کے 432 واقعات ہوئے۔ شہر میں ڈکیتیوں، لوٹ مار اور اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے شہریوں کے اندر خوف و ہراس پیدا کردیا ہے۔ جرائم کرنے والوں کو کسی کا خوف نہیں ہے، رات ہو یا دن، مسلح وارداتیں ہورہی ہیں، اور کوئی شہری مزاحمت کرے تو اُسے گولی مار دی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت، محکمہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا کررہے ہیں؟ پورا شہر جانتا ہے کہ پولیس کی ملی بھگت کے بغیر کوئی جرم نہیں ہوسکتا۔ پولیس رشوت کے عوض مجرموں کو تحفظ دیتی ہے۔ ہمارے یہاں تھانے اور چوکیاں بکتی ہیں۔ شہر میں کوئی بھی غیر قانونی کام ہورہا ہو اُس کی اطلاع مقامی تھانوں کو ہوتی ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ شہر میں کسی جگہ جائز، ناجائز تعمیراتی کام ہوتا ہے تو پولیس موبائل یا پولیس کے موٹر سائیکل سوار فوراً وہاں پہنچ جاتے ہیں اور اپنا حصہ لیے بغیر نہیں جاتے۔ اور جس علاقے میں این ای ڈی کے طالب علم کو نشانہ بنایا گیا ہے وہاں مبینہ ٹاون تھانے کی موبائل اور پولیس اہلکار پوری مستعدی کے ساتھ یہ کام کرتے دیکھے جاتے ہیں۔ اسی طرح پولیس کی بڑی تعداد اِس وقت وزرا، اُن کے بچوں و بیگمات، اراکین قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی اور بڑے پولیس افسران کے پروٹوکول میں لگی ہوئی ہے۔ ایسے میں اے ڈی آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو فرما رہے ہیں کہ ”شہری چپ چاپ اپنا مال و متاع ڈاکوئوں کے حوالے کردیں، مزاحمت نہ کریں“۔ یہی وجہ ہے کہ عام شہری ان پولیس اہلکاروں سے مایوس، بے زار اور پریشان ہیں اور ڈاکو آزاد ہیں۔ جماعت اسلامی، کراچی کا مقدمہ مستقل اور سنجیدگی سے لڑرہی ہے، امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کی اپیل پر شہید ہونے والے طالب علم بلال ناصر، اور شہر میں ڈکیتیوں و اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اور ان میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے خلاف ہفتہ 17دسمبر کو ’’یوم سیاہ‘‘ منایا گیا، جس میں پورے شہر میں مظاہرے بھی ہوئے۔ کورنگی کے اظہر کی نمازِ جنازہ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کی امامت میں ادا کی گئی، جس میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری اور مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد بھی شریک تھے۔ اس موقع پر حافظ نعیم الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت اور پولیس نے اہلِ کراچی کو مسلح ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ جرائم پیشہ عناصر موبائل اور موٹر سائیکل چھیننے کے دوران مزاحمت پر نوجوانوں کو قتل کررہے ہیں اور شہریوں کی جان ومال محفوظ نہیں۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم وزارتوں اور حکومتی عہدوں کی بندر بانٹ میں لگی ہوئی ہیں۔ کراچی پولیس چیف کا بیان نہ صرف پولیس کی نااہلی و ناکامی بلکہ ڈاکوئوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے، پولیس کی سرپرستی میں جرائم پیشہ عناصر دن دہاڑے اپنی وارداتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ چند روز قبل این ای ڈی یونیورسٹی کے سامنے ایک طالب علم بلال ناصر مزاحمت پر مسلح ڈاکوئوں کے ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھا۔ پولیس اور حکومت کو عوام کی پریشانی اور مشکلات کا کوئی احساس نہیں ہے۔ کراچی میں لوٹ مار اور قتل وغارت گری کا سلسلہ نہ رکا تو جماعت اسلامی سخت لائحہ عمل کا اعلان کرے گی، کراچی کے نوجوانوں کا اس طرح بے دردی کے ساتھ قتل کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے نوجوان اظہر کے والد اور بھائیوں سے بھی ملاقات و تعزیت کی اور اظہر کے بہیمانہ قتل پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے جماعت اسلامی کی جانب سے مکمل قانونی رہنمائی کی بھی یقین دہانی کرائی۔
کراچی کے نوجوان اس وقت تباہ حال ہیں، جہاں وہ سڑکوں پر اسٹریٹ کرائمز کا شکار بن رہے ہیں، وہیں نشے کی لعنت کا بھی بڑی تعداد میں شکار ہورہے ہیں۔ تازہ ترین خبر کے مطابق نیویارک کے بعد کراچی دنیا میں سب سے زیادہ منشیات استعمال کرنے والا شہر بن چکا ہے۔ کراچی شہر کے کئی علاقے منشیات کی فروخت کا مرکز بنے ہوئے ہیں جہاں نشہ کرنے والے افراد کےلیے چرس، ہیروئن اور آئس سمیت کرسٹل تک دستیاب ہے۔شہر کی سڑکوں سمیت انڈر پاسز سے گزریں تو نشے میں مبتلا انسانوں کی زندہ لاشیں جگہ جگہ نظر آئیں گی، نشے کی لت میں مبتلا نوجوان اپنی زندگی کو تیزی سے ختم کررہے ہیں۔اور اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کی ناک کے نیچے یا ان کے تعاون سے ہورہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گنجان اور پوش علاقوں سمیت کچی آبادیوں میں منشیات کی فروخت کے محفوظ مراکز موجود ہیں۔ مچھر کالونی، سہراب گوٹھ، ناظم آباد سمیت کئی اہم علاقے منشیات کی فروخت کا مرکز ہیں جہاں ہیروئن، چرس، آئس سمیت تمام ہی منشیات مل جاتی ہیں۔ پکڑے جانے والے ملوث عناصر عدالتوں سے ضمانت پر رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ شہر کے نوجوان نشے کا شکار ہوکر اپنی زندگی ختم کررہے ہیں اور سندھ حکومت کے پاس ان کے لیے کوئی پروگرام نہیں ہے۔ اِس وقت شہر کو اس کا درد رکھنے والی قیادت کی ضررورت ہے۔ کراچی پر سے سندھ حکومت کا قبضہ ختم نہیں ہوا تو اس شہر کی بربادی کے قصے مستقبل میں لوگ اپنے بچوں کو سنایا کریں گے۔ کوئی ہے جو کراچی کو بچالے؟