چین، بھارت سرحدی کش مکش کا دائرہ اروناچل پردیش تک پھیل گیا
بھارت نے 5اگست 2019ء کو کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کرکے حقیقت میں ایک مسئلے سے جان چھڑانے کی کوشش میں مسائل کا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ ان میں سب سے بڑی بلا کا نام چین اور بھارت کی سرحدی کشیدگی ہے جو وقفے وقفے سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر سایہ فگن ہوجاتی ہے۔ کشمیریوں کو تو طاقت کے بے محابا استعمال سے وقتی طور پر دبا دیا گیا اور ان کا گلا گھونٹنے کا پورا انتظام کردیا گیا، اور پاکستان خود حالات کی دلدل میں پھنس کر رہ گیا، مگر چین کی سرحد رِستا ہوا زخم بن چکی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تصادم اور آویزش کا یہ سلسلہ جموں وکشمیر کی حدود سے پھیل کر اروناچل پردیش تک دراز ہوگیا ہے۔ یوں چار سو کلومیٹر پر محیط لائن آف ایکچوئل کنٹرول عدم استحکام اور غیر یقینی کا مرکز بن گئی ہے۔ چین کی پیپلزلبریشن آرمی اور بھارتی فوج کے درمیان ارونا چل پردیش کے توانگ سیکٹر کے علاقے میں 9 دسمبر کو ایک بھرپور تصادم ہوا جس میں بھارت کے درجنوں فوجی زخمی ہوئے۔
دنیا کی پانچ اُبھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم ”برکس“ کے دو رکن ممالک کے سربراہ چینی صدر ژی جن پنگ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی حال ہی میں ایک مشترکہ اجلاس میں مسکراہٹیں بکھیر کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹر میں دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان ڈھائی سال بعد ایک فری اسٹائل دنگل ہوا، جس میں ڈنڈوں اور اینٹوں کا آزادانہ استعمال ہوا۔ بھارت کے اخبار ”دی ہندو“ نے دعویٰ کیا ہے کہ چین کے زخمی فوجیوں کی تعداد زیادہ ہے مگر وہ اس دعوے کا ثبوت پیش نہیں کرسکا۔ اس کے برعکس چینی فوجیوں کے ہاتھوں بھارتی فوجیوں کی پٹائی کی تصویریں میڈیا کی زینت بن چکی ہیں جن میں ان کے چہروں پر تشدد کے نشانات واضح ہیں۔ سوجی ہوئی آنکھیں اور نیل پڑے گال بھارتی فوجیوں پر بیتنے والی قیامت کی کہانی سنا رہے ہیں۔ اس تصادم کے بعد دونوں فوجیں واپس اپنے اپنے علاقوں میں چلی گئیں اور فوجی کمانڈروں کے درمیان فلیگ میٹنگ بھی ہوئی۔ یہ 15 جون 2020ء کے بعد دونوں فوجوں کے درمیان ہونے والا پہلا تصادم ہے۔ اُس وقت گلوان وادی اور پنگانگ جھیل کے علاقوں میں دونوں فوجوں کے درمیان شدید تصادم میں 20 بھارتی فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ بھارتی فوجیوں کی چیخ پکار اور رونے دھونے کی وڈیوز بھی منظرعام پر آئی تھیں۔ اِس بار بھی چین نے اس معرکہ آرائی کا پورا ریکارڈ تیار رکھا ہوگا اور وقت آنے پر اسے دنیا کے لیے ریلیز کیا جاسکے گا۔
اس تصادم پر بھارت کے ایک دفاعی مبصر پروین ساہنی نے بہت خوب تبصرہ کیا ہے کہ ”مودی چین کے خطرے کو ہلکا نہ لیں، مودی جب یہ کہتے ہیں کہ جنگوں کا دور گزر چکا ہے تو اس پر صرف اُن کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر ہی یقین کرتے ہیں۔ جنگ کا خطرہ ہروقت موجود ہے اور چین کے لیے تائیوان کا راستہ اروناچل پردیش سے ہوکر گزرتا ہے۔“ بھارتی دفاعی مبصر نے ایک بڑی بات کی ہے۔ چین اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ رکھتا ہے، یہ تبت کا علاقہ ہے جس کا نام بدل کر بھارت نے تاریخ بدلنے کی کوشش کی ہے، مگر چین اس دعوے کو قبول نہیں کررہا۔ اس لیے چینی جب آزادی اور اعتماد کے ساتھ لائن آف ایکچوئل کنٹرول عبور کرکے کوئی کارروائی کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی کے علاقے میں پائوں نہیں رکھا بلکہ ایک ایسے علاقے میں داخل ہوئے جسے وہ اپنا سمجھتے ہیں اور جس پر وہ حق رکھتے ہیں۔ چین کی اسی بات کو مودی نے یوں تقویت دی کہ جب بھارتی پارلیمنٹ اور میڈیا میں چینی فوج کی کارروائیوں پر حکومت کو ہدفِ تنقید بنایا جانے لگا تو نریندر مودی اس بات سے صاف انکاری ہوگئے کہ چینی فوج نے بھارتی حدود میں داخل ہوکر کارروائی کی ہے۔ مودی نے کہا کہ نہ کوئی ہماری سرحدوں کے اندر گھسا، نہ کوئی یہ جرات کرسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ چین کے مؤقف کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔
بھارت کے مسلمان راہنما اور رکن لوک سبھا بیرسٹر اسدالدین اویسی چین کی پیش قدمی کے حوالے سے مودی کو زچ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے، انہوں نے ایک بار پھر سوال اُٹھایا کہ وہ چین کی سرحد پر کوئی کارروائی کرنے سے گریزاں کیوں ہیں؟ ان کی 56 انچ کی چھاتی اور سرخ آنکھ چین کی سرحد پر کہاں چلی جاتی ہے؟ اسدالدین اویسی نے پہلے بھی الزام عائد کیا تھا کہ نریندر مودی نے G20 کانفرنس کی صدارت کے بدلے لداخ میں دفسانگ علاقہ چین کو دے دیا ہے۔ بیرسٹر اویسی نے کہا ہے کہ لداخ میں چین مضبوط ہورہا ہے اور دفسانگ میں چین کی فوج کی طرف سے دو سو خیموں پر مشتمل ایک بستی بسانے کی اطلاعات اسی بات کا مظہر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی نے G-20 میں شرکت کے بدلے یہ علاقہ چین کو دے دیا ہے، جبکہ بھارت کے فوجی کمانڈروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ علاقہ بھارت کے لیے دفاعی اعتبار سے خاصا اہم ہے۔ یہ اندازہ نہیں کہ مودی حکومت کی اس علاقے میں اپنی فوج کو کیا ہدایات ہیں، جبکہ چین کی فوج بھی اس پر لب کشائی سے گریز کررہی ہے۔ سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے بھی اس علاقے میں چینی فوج کی سرگرمیوں کی تصدیق ہورہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی نے یہ کہہ کر معاملے کو مشکوک بنایا تھا کہ کسی نے ہماری زمین پر قبضہ نہیں کیا۔
بھارت کے مسلمان راہنما کی طرف سے یہ الزام اُس وقت سامنے آیا ہے جب بھارت نے انڈونیشیا کے بعد دنیا کے 20 طاقتور ملکوں کی تنظیم کی صدارت سنبھالی ہے اور یہ مدت ایک سال کے لیے ہے۔ G-20 میں امریکہ، چین اور روس جیسے متحارب مگر بڑے ممالک شامل ہیں۔
لداخ کا علاقہ چند برسوں سے ایک پراسرار قسم کی جادونگری بنا ہوا ہے جہاں ایٹمی طاقت کے حامل دو ہمسایہ ملکوں بھارت اور چین کے درمیان آنکھ مچولی جاری ہے۔ یہ وہ قطعۂ زمین ہے جہاں بھارت کی ساری اکڑفوں ختم ہوکر رہ جاتی ہے کیونکہ یہاں اُس کا مقابلہ چین کی پیپلزلبریشن آرمی کے جوانوں سے ہوتا ہے۔ اس علاقے میں چینی فوج آہستہ روی سے پیش قدمی کرتی جارہی ہے۔ بھارت کی فوج یہاں چینی افواج کی مزاحمت یا راستہ روکنے کی جرات نہیں کرسکتی۔ عملی مزاحمت تو دور کی بات، اِس بار لب کشائی سے بھی گریز کیا جارہا ہے۔ بھارتی فوج نے چند برس قبل ان علاقوں میں چینی فوج کے ساتھ مڈبھیڑ کا راستہ اپنایا تھا تو بھارتی فوجیوں کی درگت ایک دنیا نے دیکھی تھی۔ مُکّوں، ڈنڈوں اور پتھروں کے استعمال سے بھارت کے بیس فوجی مارے گئے تھے اور درجنوں کو مرغا بناکر قید کرلیا گیا تھا۔ اس کے برعکس چار چینی فوجی اس تصادم میں کام آئے تھے۔ اس واقعے سے سبق حاصل کرنے کے بعد بھارتی فوج نے مونچھ نیچی کرکے وقت گزارنے کی پالیسی اپنالی ہے، مگر یہ پالیسی بھی کارگر ہوتی نظر نہیں آتی، اور سب کی جڑ کشمیر پر بھارت کا یک طرفہ فیصلہ ہے۔