انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیزکے زیر اہتمام ’’ٹی ٹی پی، حکومت امن مذاکرات‘‘ کے موضو ع پر مجلسِ مذ اکرہ

خیبر پختون خوا میں بالخصوص اور ملک کے دیگر حصوں میں بالعموم ہر گزرتے دن کے ساتھ بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ پچھلے چند ماہ کے دوران صوبے میں بدامنی کے جو واقعات رونما ہوچکے ہیں ان میں زیادہ تر پولیس کو نشانہ بنایا گیا ہے، جب کہ بعض واقعات میں سیکورٹی فورسز پر بھی حملے کیے گئے ہیں جن میں تازہ حملہ جسے خودکش قراردیا گیا ہے، شمالی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹر میران شاہ میں ایک فوجی کانوائے پرکیاگیا ہے، جب کہ اس کے بعد لکی مروت میں ایک پولیس تھانے برگئی پر دہشت گردوں کی جانب سے راکٹ حملے کے نتیجے میں چار اہلکار شہید ہوگئے ہیں جب کہ اسی روز بنوں کینٹ میں واقع سی ٹی ڈی مرکز پر دہشت گردوں کے حملے اور وہاں سیکورٹی کے کئی اہلکاروں کو یرغمال بنائے جانے کی اطلاعات سے صوبے میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صوبے میں بدامنی کے واقعات میں اس اضافے کے تانے بانے جہاں پاک افغان سرحد پر گزشتہ کچھ عرصے سے پیدا ہونے والی صورت حال سے جوڑے جارہے ہیں، وہیں ان واقعات میں اضافے کی ایک وجہ ٹی ٹی پی، حکومت امن مذاکرات کے تعطل اور اس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کی جانب سے سیزفائر کے خاتمے کے اعلان کو بھی ایک اہم وجہ قرار دیا جارہا ہے۔ صوبے میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور ٹی ٹی پی کی جانب سے امن مذاکرات اور سیزفائر کے خاتمے کے اعلان کے وطنِ عزیز اور خاص کر خیبر پختون خوا پر پڑنے والے اثرات اور نتائج کا جائزہ لینے کے لیے گزشتہ دنوں انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز(آئی آر ایس) پشاور کے زیر اہتمام ’’ٹی ٹی پی، حکومت امن مذاکرات‘‘ کے موضوع پرایک مجلسِ مذاکرہ منعقد کی گئی جس کی صدارت جماعت اسلامی کے صوبائی امیر، سابق سینیٹر اور 2014ء میں حکومت، طالبان امن مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کی، جب کہ اس مذاکرے سے خیبر پختون خوا اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک، جمعیت علمائے اسلام(س) کے صوبائی امیر مولانا سید یوسف شاہ، شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے جیو نیوز کے نمائندے محمد رسول داوڑ، چیئرمین آئی آر ایس ڈاکٹر محمد اقبال خلیل اور راقم الحروف نے بھی اظہارِ خیال کیا۔
مذاکرے کا آغاز قاری محمد کمال کی تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔ ڈاکٹرمحمد اقبال خلیل نے اپنی افتتاحی گفتگو میں مذاکرے کے اغراض ومقاصد بیان کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ چندماہ سے ہونے والے بدامنی کے پے درپے واقعات نے تمام پاکستانیوں کو متاثر کیا ہے۔ چند ماہ میں دہشت گردی کے ڈیڑھ سو سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر پولیس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ماضی میںتحریک طالبان پاکستان کے ساتھ شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، باجوڑ اور سوات میں کئی معاہدے ہوئے جن کا مقصد امن کا قیام تھا، لیکن بدقسمتی سے ان معاہدوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، صلح ہم سب کی ضرورت ہے اور بالآخر ہمیں اس جانب جانا ہوگا۔ اس سیمینار کے انعقاد کا مقصد اس اہم موضوع پر مختلف الخیال افراد کو اظہارِ رائے کا موقع دینا ہے، تاکہ ہم اتفاقِ رائے سے اس اہم ترین مسئلے کا کوئی حل تجویزکرسکیں،گوکہ یہ ایک پیچیدہ اور مشکل عمل ہے لیکن ہمیں اپنی کوششیں ترک نہیں کرنی چاہئیں۔

رسول داوڑ نے کہا کہ امن معاہدوں کو ہمیشہ مختلف واقعات کے ذریعے سبوتاژکرنے کی کوشش کی گئی، حکیم اللہ محسود کی ہلاکت اور اب عمرخالد خراسانی کی ہلاکت کو بھی امن مذاکرات کو ختم کرنے کا جواز بتایا جارہا ہے۔ ٹی ٹی پی سے پُرامن مذاکرات ختم کرنے کے لیے مہمندگروپ کا دبائو ہے۔ مذاکرات میں اصل مسئلہ ضمانت کا ہے۔ ایک دوسرے پر اعتماد کا شدید فقدان ہے۔ اگر پاکستان کے جید علماء ایک متفقہ رائے بنا لیں اور ان واقعات کے درمیان ایک سرخ لکیر کھینچ لیں تب کوئی بات بن سکتی ہے۔ طالبان دوبارہ عوامی حمایت کے حصول کی کوشش کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حالیہ حملوں میں عوامی مقامات کے بجائے زیادہ تر پولیس اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایاجارہا ہے۔ میران شاہ کے حالیہ واقعے کی ذمے داری قبول نہیں کی گئی کیونکہ اس میں زیادہ تر عام لوگ نشانہ بنے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے لوگ اگر تسلیم بھی ہوجائیں تب بھی اُن کی معاشرے میں ایڈجسٹمنٹ ایک مستقل مسئلہ ہے۔ لوگ انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان کا آئین اگر اسلامی ہے تو اس نکتے پر بھی طالبان کو اسلحہ رکھنے پر قائل کیا جا سکتا ہے، البتہ تاحال وہ آئینِ پاکستان کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ طالبان بھی معمول کی زندگی میں پلٹنا چاہتے ہیں لیکن ایسا کرنے میں بعض خدشات رکاوٹ ہیں۔ انہیں قبائلی علاقوں میں نفاذِ شریعت کی پیشکش کی گئی ہے لیکن وہ سارے پاکستان میں شریعت کے نفاذ کی بات کرتے ہیں۔ طالبان سے بات چیت کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں، علمائے کرام اور فوج کو مل کر ایک متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹی ٹی پی کے بعد داعش کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے، اگر داعش کو شروع میں کنٹرول نہ کیاگیا تو یہ طالبان سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے ناراض اور سخت گیر لوگ جو معمول کی زندگی میں واپسی کے قائل نہیں ہیں وہ داعش کی جانب راغب ہورہے ہیں، آئندہ آنے والے دنوں میں داعش ایک بڑے خطرے کے طور پر سامنے آسکتی ہے۔
مولانا یوسف شاہ نے مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئی آر ایس نے ایک اہم موضوع کا انتخاب کیا ہے، یہ ہماری زندگی اور نئی نسلوں کی بقا کا مسئلہ ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے پہلے دور میں ہم دور دراز اور دشوار گزار علاقوں تک گئے، اس دور میں طالبان آئینِ پاکستان کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ سابقہ مذاکرات میں بھی پارلیمان کی منظوری لی گئی تھی لیکن بعد میں حکومت خود پیچھے ہٹ گئی تھی۔ علماء نے طالبان کو سمجھایا ہے لیکن انھوں نے یہ تحریک چونکہ علماء کے کہنے پر شروع نہیں کی اس لیے وہ علماء کے کہنے پر ختم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ ان کا اپنا مؤقف اور نظریہ ہے جس پر ہماری اُن سے بحث ہوتی رہی ہے۔ وہ قبائل کی سابقہ حیثیت کی بحالی چاہتے ہیں، وہ اپنے نام کو برقرار رکھنے پر بھی بضد ہیں، اسلحہ رکھنے پر بھی تیار نہیں ہیں۔ اداروں کے اندر بھی طالبان کے حوالے سے ایک مؤقف نہیں ہے۔ ’پیغام پاکستان‘ میں اٹھارہ سو علماء نے دستخط کیے تھے، وہ بھی نہیں مانا گیا۔ اس مسئلے کا حل ہماری جماعتوں اور علماء کے ہا تھ میں نہیں ہے، یہ مسئلہ صرف طالبان کے ساتھ جڑا ہوا بھی نہیں ہے بلکہ یہ اصل میں دوممالک کا مسئلہ ہے۔ ہمیں افغان طالبان حکومت کے ساتھ بیٹھنا ہوگا، امیرالمومنین سے سنجیدہ گفتگو کرکے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ طالبان نے ایک متبادل حکومت کا اعلان کررکھا ہے۔ اس مسئلے کو شروع کرنے والے ہی اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔ طالبان حکومت کو کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا لیکن وہاں امن ہے، ہمیں امن کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ بدامنی کا نقصان ساری قوم کو ہوا ہے، کوئی ادارہ محفوظ نہیں ہے۔ امن تمام طبقات کی ضرورت ہے، لہٰذا جتنا جلدی ہوسکے ہمیں امن کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔

سردار حسین بابک نے کہا کہ اس مسئلے کو ریاستی سطح پر سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ ایران، بھارت اور چین کی مثالیں سامنے ہیں جنھوں نے اس مسئلے پر قابو پایا ہے۔ افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے، کیا ہم نے اسلامی تعلیمات کے تحت اس اہم پڑوسی ملک کی حقیقت کا کبھی خیال رکھا ہے! افغانستان کی بدامنی پر ہم نے پانی ڈالنے کے بجائے ہمیشہ پیٹرول چھڑکا ہے۔آج اپنی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ہم اپنی مسجد، مدرسے، اسکول، بازار اور گھر کو تحفظ دینے میں ناکام ہیں۔کیا ہم تمام پختون مسلمان نہیں ہیں؟ پھر ہم کیوں آگ اور خون سے کھیل رہے ہیں؟ خیبرپختون خوا میں حکومت نام کی چیز نہیں ہے۔ صوبے میں جاری بدامنی پر حکومت کی جانب سے اب تک نہ تو کوئی سنجیدگی دکھائی گئی ہے اور نہ ہی حکومت کے پاس اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ہے۔ ہمیں ایسی حکومت چاہیے جو اس مسئلے کو بطور چیلنج قبول کرے، اور جو یتیموں اور بیوائوںکو تحفظ دے اور جو اُن کے آنسوئوں کو پونچھ سکے۔ اے این پی کا مطمح نظر اس صوبے میں امن کی وکالت کرنا ہے۔ ہم نے قوم سے کبھی گلہ نہیں کیا ہے، نہ ہم نے خفگی ظاہر کی ہے اور نہ ہی خود پر ہونے والے حملوں پر اشتعال سے کام لیا ہے۔ ہم باچا خان کے عدم تشدد کے نظریے کے پیروکار ہیں، اس خطے میں پچھلے چالیس سال سے جاری کشت وخون ایک منظم منصوبہ اور سازش ہے جس کا نشانہ پختون ہیں۔ اس منظم جنگ میں دونوں جانب سے پختونوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، مرنے اور مارنے والے دونوں پختون ہیں۔ ہمارے قابل اذہان اور پڑھے لکھے لوگوں کو زندگی سے مایوس اور متنفر کرکے یہاں سے نقل مکانی پر مجبور کیا جارہا ہے۔ تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہم سب کو امن کو ترجیح بنانا چاہیے۔

پختون سرزمین پر بدامنی کے لیے امریکہ، طالبان اور حکومتِ پاکستان ایک پیج پر ہیں، یہ جنگ پختونوں کے خلاف ہے، اس جنگ میں سب سے بڑا نشانہ اے این پی بنی ہے۔ پولیس کو حقیقی معنوں میں اختیارات دے کر امن ایک دن میں قائم کیا جاسکتا ہے۔ صوبے میں اقتصادی بدحالی عروج پرہے، لوگ یہاں سے دوسرے علاقوں میں نقل مکانی پر مجبور ہورہے ہیں۔ قیام امن کے لیے کسی سرخ اور سبز جھنڈے کے بجائے سفید جھنڈا اٹھا کر علماء کوآگے بڑھنا چاہیے، ہم مقتدی بن کر اُن کے پیچھے صف باندھنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم اپنی قوم کے لیے مذہبی، سیاسی اور اقتصادی آزادی چاہتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کا روشن مستقبل چاہتے ہیں، پڑوسیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔ ملک میں پارلیمان موجود ہے، اس کو امن کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ اس اہم مذاکرے میں دعوت کے باوجود صوبائی حکومت کے ترجمان کی عدم شرکت سے صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کی اس اہم ترین مسئلے کے حوالے سے سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنھوں نے طالبان کو موجودہ پوزیشن تک پہنچایا ہے وہی لوگ انہیں واپس بھی لا سکتے ہیں۔ مولانا حسن جان، ڈاکٹر فاروق خان یا طاہر داوڑ کا تعلق اے این پی سے نہیں تھا لیکن انہیں پختون آواز ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا اور قتل کیا گیا۔ انہوں نے تمام سیاسی قوتوں پر زور دیا کہ وہ امن کے بیانیے کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔
پروفیسر محمد ابراہیم خان نے اپنے خطاب میں کہاکہ تاریخ کا یہ سبق ہے کہ ہر مسئلے کا حل بالآخر مذاکرات سے نکلتا ہے۔
ماضی میں جتنی جنگوں اور تنازعات نے جنم لیا اُن کا حل مذاکرات سے نکالا گیا،1893ء میں ہند افغانستان مذاکرات کے نتیجے میں ڈیورنڈ لائن کھینچی گئی، تیسری اینگلو افغان جنگ کے بطن سے 1919ء میں پنڈی معاہدے نے جنم لیا، 1988ء میں سوویت افغان جنگ کا اختتام جنیوا مذاکرات پر ہوا، لیکن چونکہ اِن مذاکرات میں اصل فریق یعنی افغان مجاہدین غائب تھے اس لیے یہ معاہدہ دیرپا اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا، اگریہ مذاکرات سوویت یونین اور افغان مجاہدین کے درمیان ہوتے تو افغانستان میں بعد میں بدامنی کی جو آگ لگی وہ کبھی نہ لگتی، پاکستان کے اُس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے مذاکرات کیے لیکن جنرل ضیاء الحق اس کے خلاف تھے، اس لیے ان مذاکرات کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا۔ آرمی پبلک اسکول پشاورکے شہدا کے والدین کا مطالبہ ہے کہ انہیں ان کے بچوں کے قاتلوں کا آج تک نہیں بتایاگیا ہے۔ اس واقعے کے حوالے سے سوال یہ ہے کہ اگر ہم حالتِ جنگ میں تھے تو اس سیکورٹی لیپس کا ذمے دار کون ہے؟ میاں نوازشریف بطور وزیراعظم 2014ء میں مذاکرات کے ذریعے فوج کو سرپرائز دینا چاہتے تھے، انہیں ایسا نہیں کرنے دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ لاشوں کے گرنے کا یہ سلسلہ آخرکب تک جاری رہے گا؟ طالبان کے خاتمے کے اعلانات اور دعووں کے باوجود آخر امن کیوں قائم نہیں ہوتا؟ اس کا ذمے دار کون ہے؟

پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ بات چیت حقیقی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہونی چاہیے، متاثرین کے درمیان نہیں۔ انہوں نے کہاکہ 2014ء میں پارلیمنٹ کی منظوری سے ہونے والے مذاکرات کے عمل میں وہ بھی مذاکراتی کمیٹی کے رکن تھے لیکن ان مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ مذاکرات کے ایک ماہ بعد جون 2014ء میں شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا اور کئی دعوے کیے گئے کہ علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کردیا گیا ہے، لیکن آج بھی فوجی دستوں کی موجودگی کے باوجود شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں اور قتل و غارت گری کا کھیل جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کھیل اب ختم ہونا چاہیے کیونکہ اس میں سب سے زیادہ نقصان عام لوگوں نے اٹھایا ہے۔