تیونس… غیر جماعتی، غیر سیاسی ”انتخابی ڈراما“

چ

تیونس کے حالیہ عام انتخابات میں صرف 8 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ شمالی افریقہ کے اس چھوٹے سے ملک نے عوامی سیاست اور جمہوریت کے باب میں بہت اہم بلکہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ 17 دسمبر کے انتخابات میں عوام کی عدم دلچسپی سے جہاں ملک کا سیاسی و اقتصادی بحران شدت اختیار کرتا نظر آرہا ہے، وہیں تیونسی حزبِ اختلاف اسے امید کی کرن قرار دے رہی ہے، یعنی عوام کی واضح اکثریت نے ”انتخابی ڈرامے“ سے لاتعلق رہ کر جمہوری قوتوں کے بیانیے کی کھل کر حمایت ظاہر کردی ہے۔ یقیناً اِن رہنمائوں کو زمینی صورت حال کا زیادہ بہتر اندازہ ہوگا، لیکن ہمیں تیونس کا سیاسی مستقبل مخدوش نظر آرہا ہے جس کی تفصیل اس مضمون کے آخر میں بیان کی جائے گی۔ گفتگو سے پہلے اس ملک کی سیاسی تاریخ پر چند سطور.. جس سے قارئین کو صورت حال کے پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
سواکروڑ سے بھی کم آبادی والا یہ چھوٹا سا ملک بحرِ روم کے کنارے شمالی افریقہ میں واقع ہے۔ قدیم عرب جغرافیہ داں اس علاقے کو مغرب العربی کہا کرتے تھے جو تیونس، الجزائر، لیبیا، مراکش اور موریطانیہ پر مشتمل ہے۔ ساحلی علاقوں میں بربر عرب آباد ہیں اور اس مناسبت سے مغرب کا ایک اور نام ”بربری ساحِل“ بھی ہے۔ مشہور مسلم جرنیل طارق بن زیاد بھی بربر نسل کے تھے۔ علمی سطح پر تیونس کی وجہ شہرت مسجد و جامعہ الزيتونہ ہے۔ دوسری صدی ہجری کے آغاز میں قائم ہونے والا یہ تعلیمی ادارہ دنیا کے قدیم ترین مدارس میں شمار ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سابق امریکی صدر اوباما کے والد بارک حسین اوباما سینئر نے بھی جامعہ الزیتونہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ہے۔
جنوری 1956ء میں فرانس سے آزاد ہونے والے تیونس نے اپنے پہلے 55 سال میں صرف دو صدور دیکھے۔ پہلے صدر حبیب بورقیبہ تیس سال برسراقتدار بلکہ مسلط رہے، تاوقتیکہ معذوری کی بنا پر انھیں معزول کرکے 1987ء میں وزیراعظم زین العابدین صدر بن گئے۔ تیسری دنیا کی طرح تیونس میں بھی تمام قومی وسائل فوج اور حکمران طبقے کے لیے وقف تھے، جبکہ بے روزگاری اور مہنگائی نے تیونس کے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ بدترین آمریت، اخبارات پر پابندی اور جاسوسی نظام کی وجہ سے سارے ملک میں گھٹن کا ماحول تھا اور عام لوگوں میں سخت مایوسی تھی۔
24 دسمبر 2010ء کو بے روزگاری سے تنگ آکر ایک نوجوان محمد بوعزیزی نے تیونس کے صدارتی محل کے سامنے خود کو نذرِ آتش کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی سارے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ نے آزاد میڈیا کی کمی پوری کردی اور سارے تیونس میں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے۔ زین العابدین حکومت نے پہلے تو طاقت کا بھرپور استعمال کیا اور پھر معافی تلافی کا ڈول ڈالا گیا۔ فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے آخری وقت تک صدر زین کی پشتیبانی کرتے رہے۔ لیکن طلبہ کے پُرامن مظاہروں سے مجبور ہوکر 23 سال تک مطلق العنانیت سے بھرپور لطف اٹھانے کے بعد خودساختہ مردِ آہن اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ 14 جنوری 2011ء کو بصد سامانِ رسوائی سعودی عرب فرار پر مجبور ہوگئے۔ صدر صاحب کی خواہش تھی کہ وہ امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں پناہ حاصل کریں، مگر اُن کے مغربی سرپرستوں نے آنکھیں پھیر لیں۔
فوج نے اخوانی فکر سے متاثر النہضہ کے سربراہ راشد الغنوشی کو قومی حکومت بنانے کی دعوت دی جسے النہضہ نے فوری طور پر مسترد کردیا، جناب غنوشی کا کہنا تھا کہ تیونسی عوام نے چہرے نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کے لیے قربانیاں دی ہیں اور اس وقت ملک کی ترجیح ایک ایسے دستور کی تدوین ہے جو عوامی امنگوں کا ترجمان ہو۔ چنانچہ پارلیمان کے اسپیکر فواد مبزا کو قائم مقام صدر بناکر انتخابات کی تیاری شروع ہوگئی۔
اُسی سال 23اکتوبر کو متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے اور آئین ساز اسمبلی تشکیل دی گئی۔ ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات میں جوش و خروش دیدنی اور ووٹ ڈالنے کا تناسب 90 فیصد رہا۔ النہضہ نے 41 فیصد ووٹ لے کر 217 کے ایوان میں 90 نشستیں حاصل کیں، جبکہ اس کی مخالف سیکولر جماعت PDPکو صرف 17 نشستیں مل سکیں۔ کانگریس فار ریپبلک المعروف موتمر 30 کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔
النہضہ نے جو آئین ترتیب دیا اُس کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یہ دستور نہیں بلکہ انسانی اقدار کا منشور ہے جس میں قیدیوں کے حقوق کی بھی ضمانت دی گئی تھی۔ تفتیش کے لیے تشدد کی ہر شکل کو قابلِ دست اندازیِ پولیس قرار دیا گیا۔ ضلعوں کی بنیاد پر سارے ملک میں انسانی حقوق کی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جن کے سربراہ حاضر سروس جج تھے۔ آئین کے مطابق رنگ، نسل، مذہب اور لسانیت کی بنیاد پر امتیاز ایک جرم قرار پایا۔ آزادیِ اظہار کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ عدلیہ کو انتظامیہ کے اثر سے کلیتاً آزاد کردیا گیا۔
آئین منظور ہوتے ہی جنوری 2013ء میں ایک قومی حکومت تشکیل دی گئی جس کی نگرانی میں 26 اکتوبر کو ایوانِ نمائندگان کے انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں النہضہ کو شکست ہوگئی۔ فوج کی حامی ندائے تیونس 86 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی اور 69 سیٹوں کے ساتھ النہضہ نے حزب اختلاف کا کردار سنبھال لیا۔ پانچ سال بعد 2019ء میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے جس میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہ کرسکی لیکن 52 نشستوں کے ساتھ النہضہ پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔
کچھ دن بعد ہونے والے صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ 50 فیصد ووٹ نہ مل سکے، چنانچہ ووٹوں کے اعتبار سے پہلے نمبر پر آنے والے قیس سعید اور ان کے قریب ترین حریف نبیل قروئی کے درمیان Run-offمقابلہ ہوا۔ النہضہ نے قیس سعید کی حمایت کی اور وہ بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے۔ دوسری طرف راشد الغنوشی کو پارلیمنٹ کا اسپیکر چن لیا گیا۔ یعنی انقلابِ یاسمین کی کامیابی کے بعد تیونس میں تین پارلیمانی اور دو صدارتی انتخابات ہوئے اور انتقالِ اقتدار سمیت کسی بھی مرحلے پر کوئی بدمزگی دیکھنے میں نہ آئی۔ نظریاتی اختلافات کے باوجود وزیراعظم، صدر، اسپیکر اور حزبِ اختلاف کے تعلقات انتہائی شاندار رہے۔
ربیع العربی کے آغاز پر عرب حکمراں، اسرائیل اور ان کے مغربی سرپرست لرز کر رہ گئے تھے جب دیکھتے ہی دیکھتے ساری عرب دنیا آمریت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ شیوخ و امرا نے جہاں اس تحریک کو کچلنے پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے وہیں اس کی بنیادیں اکھیڑنے پر خلیجی ریاستوں کے ساتھ اُن کے سرپرستوں نے بہت عرق ریزی سے کام کیا، جس میں نصاب کی تبدیلی، اسرائیل سے قریبی تعلقات اور اخوان المسلمون کی بیخ کنی شامل ہے۔
گزشتہ دہائی کے اختتام پر شروع ہونے والی عرب دنیا کی تحریکِ آزادی یا ربیع العربی(Arab Spring) صرف تیونس ہی میں اپنے اہداف حاصل کرسکی۔ مصر میں مغرب و اسرائیل کے ایما پر فوج نے عوامی امنگوں کا گلا گھونٹ دیا۔ الجزائر اور بحرین میں بھی یہ مزاحمت کچل دی گئی۔ جبکہ لیبیا اور یمن میں اٹھنے والی تحریک خانہ جنگی کا شکار ہوگئی۔ یہی حال شام کا ہے جہاں فرقہ وارانہ محاذ آرائی نے داعش کا روپ اختیار کرلیا ہے۔ مراکش میں بادشاہ نے اپنے کچھ اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کیے لیکن وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے شاہی احکامات کے ذریعے یہ تمام اقدامات کالعدم کردیے گئے۔ تیونس کی اس کامیابی کو عالمی و علاقائی قوتوں نے تسلیم نہیں کیا اور اس کے خلاف ایک منظم مہم دس سال سے جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر ان تجزیاتی مقالوں کی بھرمار ہے جن میں سیاست دانوں کی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرکے اعداد و شمار کی مدد سے یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ ملک کو چلانا بے ایمانوں کے بس کی بات نہیں، تیونس کا درد وہی سمجھ سکتے ہیں جو ملک کی حفاظت کے لیے وردیوں میں ملبوس سر سے کفن باندھے بیٹھے ہیں، سیاست دان تو موقع پرست طالع آزما ہیں جنھیں صرف اقتدار عزیز ہے جس کے حصول کے لیے یہ اپنا ضمیر اور ملکی مفاد سب کچھ بیچنے کو تیار ہیں۔
مارچ 2020ء میں وارد ہونے والے نامراد کورونا نے ملکی معیشت کو برباد کرکے رکھ دیا اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی۔ یہ تیونس کے جمہوریت دشمنوں کے لیے نادر موقع تھا۔ الزام تراشی و انگشت نمائی کا سلسلہ شروع ہوا اور تیونسی سیاست دانوں کی برداشت اور مل کر کام کرنے کی دس سالہ مخلصانہ کوششوں پر پانی پھرگیا۔ صدر قیس نے شکوہ کیا کہ معیشت میں بہتری کے لیے پارلیمان ان کے اقدامات کی توثیق میں بہت دیر لگارہی ہے۔ دوسری طرف اسپیکر راشدالغنوشی کا کہنا تھا کہ پارلیمان میں بحث کے بغیر قانون سازی نہیں ہوسکتی تاہم فوری اقدامات کے لیے جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس پر وہ اعتراض نہیں کریں گے۔
فوج کے ایما پر حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے اور جلد ہی ان کا رخ پارلیمان اور خاص طور سے النہضہ کی طرف ہوگیا۔ پارلیمان کا گھیرائو کرکے حکومت سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس دوران تشدد کے واقعات میں درجنوں افراد زخمی ہوئے، کئی مقامات پر نقاب پوش گروہوں نے النہضہ کے دفاتر پر حملے کیے، اور جنوب مغربی تیونس کے شہر توزر میں مقامی دفتر کو آگ لگادی گئی جس میں مارشل لا کے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے۔ صدر قیس نے 25جولائی 2021ء کو پارلیمان معطل کردی اور وزیراعظم ہشام المشیشی کابینہ سمیت گھر بھیج دیے گئے۔ قوم سے اپنے خطاب میں صدر قیس نے حکومت پر کرپشن اور بے حسی کے سنگین الزامات لگائے اور ساتھ ہی دھمکی بھی دے گئے کہ اگر کسی نے صدارتی حکم کی خلاف ورزی کی تو انھوں نے مسلح افواج کو روایتی تنبیہ کے بغیر گولی چلانے کا حکم دے دیا ہے۔
ابتدا میں جناب راشد الغنوشی نے صدر کے فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا، لیکن جب النہضہ کی شوریٰ نے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو غنوشی صاحب نے مظاہرہ منسوخ کرکے صدر قیس کو بات چیت کی پیشکش کردی۔ معزول وزیراعظم نے بھی صدر کا فیصلہ قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ نامزد وزیراعظم کو فوری طور پر اقتدار منتقل کردیں گے۔ لیکن اس پیشکش کے جواب میں فوج نے پکڑ دھکڑ شروع کردی۔ کورونا کے نام پر رات کا کرفیو بھی لگادیا گیا، ساتھ ہی جناب قیس نے منتخب قانون ساز اسمبلی سے منظور کیا جانے والا دستور بیک جنبشِ قلم منسوخ کردیا، اور نئے آئین کی تدوین کے لیے ”قانونی ماہرین“ کی ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ دوسری طرف معیشت کی تعمیرنو کے لیے ایک عظیم الشان منصوبے کا اعلان ہوا جس کے مطابق حکومت کے زیرانتظام تمام اداروں کو فروخت کردیا جائے گا اور انھیں فروخت کے لیے پُرکشش بنانے کی غرض سے ان میں بڑے پیمانے پر چھانٹی ہوگی۔ سرکاری اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے سیاست دانوں نے سماجی بہبود کے جو پروگرام شروع کیے ہیں ان کو ختم یا ان کے لیے مختص رقم میں بھاری کٹوتی کی جائے گی اور اس اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مستقبل کے سیاسی طالع آزما لوٹ مار کا نیا کھانچہ نہ کھول سکیں، نئے دستور میں ان سب کا احاطہ کیا جائے گا۔ نئے دستور کا مسودہ سامنے آتے ہی تیونسی مزدوروں کی وفاقی انجمن الاتحاد العام التونسي للشغل یا UGTTنے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بڑی طاقتوں کے ایما پر تحریر کی جانے والی یہ دستاویزِ غلامی کسی قیمت پر قبول نہیں کی جائے گی۔ عوام کی منتخب پارلیمان نے 2011ء میں جو آئین بنایا وہ تیونسیوں کی امنگوں کا ترجمان ہے اور اس کی منسوخی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود حکومت نے اس سال 26 جولائی کو ”عوامی ریفرنڈم“ کے ذریعے نیا دستور منظور کرلیا۔ طلبہ و مزدور یونینوں اور سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کا تناسب صرف 30 فیصد رہا۔
نئے دستور کی بنیاد پر اس ہفتے عام انتخابات اس شان سے ہوئے کہ سیاسی جماعتوں کو براہِ راست حصہ لینے کی اجازت نہ تھی۔ جماعتی کارکنوں کے امیدوار بننے پر تو کوئی اعتراض نہیں ہوا لیکن مہم کے دوران کسی سیاسی جماعت کے نام، پرچم یا نشان کے استعمال پر پابندی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً 25 فیصد نشستوں پر صرف ایک امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹنگ کی نوبت ہی نہ آئی۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ جسٹس فاروق بوسکار نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 90 لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں میں سے 8 لاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ النہضہ سمیت پانچ جماعتی محاذِ نجات (Salvation Front)نے دعویٰ کیا کہ انتخابی ڈرامے کا بائیکاٹ کرکے صدر قیس سعید، نئے دستور اور پارلیمان کی تحلیل پر عوام نے اپنے ردعمل کا اظہار کردیا ہے۔ محاذ کے سربراہ احمد نجیب الشابی نے کہا کہ تیونسی صدر کے پاس اب استعفیٰ دینے اور دستور و پارلیمان کی بحالی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ النہضہ نے پیشکش کی ہے کہ اگر صدر قیس عوامی امنگوں کے مطابق چلنے پر آمادہ ہوں تو بقیہ مدت کے لیے انھیں صدر برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
تیونسی صدر کے قریبی احباب بھی اُن کے سخت رویّے اور طاقت کے استعمال کی دھمکی پر حیرت زدہ ہیں۔ قیس صاحب قانون کے پروفیسر اور بار ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ ہیں۔ ان کی ساری زندگی قانون پڑھانے اور قانون کی بالادستی پر لیکچر دینے میں گزری ہے۔ موصوف اپنے نرم لہجے اور سیاسی معاملات پر مفاہمانہ رویّے کے لیے مشہور ہیں۔ کچھ ایسی ہی شخصیت راشدالغنوشی کی بھی ہے۔ صدر قیس نے عبوری وزیراعظم کے لیے جس خاتون کا انتخاب کیا وہ بھی ٹھنڈے مزاج کی معاملہ فہم شخصیت ہیں۔ المدرسہ الوطنیہ للمہندسين تیونس (National School of Engineers) میں ارضیات کی پروفیسر محترمہ نجلہ ابومحی الدین رمضان صاحبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ وہ جامعہ کے ساتھ اعلیٰ تعلیم اور سائنسی تحقیق و جستجو کی وزارت میں عالمی بینک کے تعلیم سے متعلق شعبے کی نگرانی فرما رہی ہیں۔ نجلہ رمضان کا کوئی سیاسی و نظریاتی پسِ منظر نہیں لیکن النہضہ نے اپنے دورِ حکومت میں انھیں تعلیمی معیار کمیشن کا سربراہ بنایا تھا اور وہ اس عہدے پر 2011ء سے فائز ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ النہضہ کی جانب سے بڑھائے جانے والے مفاہمت کے ہاتھ کو صدر قیس جس حقارت سے جھٹک رہے ہیں، اس کے پیچھے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور مغرب کا اشارہ بہت واضح ہے۔ پارلیمنٹ کی معطلی پر ”مثبت“ ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے کہا کہ ”برادر ملک تیونس میں استحکام کی ہر کوشش قابلِ تحسین ہے جس کی UAE بھرپور حمایت کرتا ہے“۔ کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار سعودی عرب کی جانب سے ہوا۔ کورونا لہر کے باوجود صدر قیس سے اظہارِ یکجہتی کے لیے سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بنفسِ نفیس تیونس تشریف لائے اور صدر قیس سے تین گھنٹے طویل بات چیت کے دوران انتہاپسندی کو کچل دینے کے اقدامات پر غور کیا گیا۔ سعودی شہزادے کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت، خاص طور سے ولی عہد محمد بن سلمان آزمائش کی اس گھڑی میں صدر قیس کے ساتھ کھڑے ہیں اور تیونس کو غیر مستحکم کرنے کی ہر کوشش کا دونوں ملک مل کر مقابلہ کریں گے۔
اس حوالے سے مصری وزیرخارجہ سامع شُکری اور تیونسی صدر کی ملاقات بہت معنی خیز تھی۔ مذاکرات کے بعد مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر قیس سعید نے کہا کہ تیونس اور مصر کی صورت حال میں ”مماثلت“ پائی جاتی ہے، جس پر جناب شکری ترنت بولے ”تیونس کے استحکام کے لیے صدر قیس جو بھی قدم اٹھائیں گے انھیں جنرل السیسی کی مکمل حمایت حاصل ہوگی“۔ مصری وزیر خارجہ نے کہا کہ صدر قیس کے اقدامات سے نہ صرف تیونس بلکہ سارے شمالی افریقہ اور عرب دنیا پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اس حوالے سے ایک ”خاموش کردار“ کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ حزبِ اختلاف کا خیال ہے کہ اس منصوبے کے مصنف تیونس میں امریکہ کے سابق سفیر ڈونڈ بلوم ہیں۔ جناب بلوم، تیونس سے لیبیا میں امریکہ کے سیاسی و سفارتی مفادات کی نگہبانی بھی کررہے تھے کیونکہ بد امنی کی وجہ سے امریکہ نے لیبیا میں اپنا سفارت خانہ بند کردیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے سیاسی و صحافتی ذرائع کا خیال ہے کہ تیونس میں النہضہ کے خلاف ”صدارتی مارشل لا“ کے نفاذ اور نئے دستور کی تصنیف میں موصوف نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ وہ 2015ء سے 2018ء تک یروشلم کے امریکی قونصل خانے میں تعینات تھے۔ وہ ایک سال کابل اور 2009ء سے 2012ء تک قاہرہ کے امریکی سفارت خانے میں قونصلر برائے سیاسی امور رہ چکے ہیں۔ یہی وہ وقت تھا جب مصر کی تاریخ کے پہلے آزادانہ انتخابات ہوئے جس میں اخوان المسلمون نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی، لیکن سی آئی اے اور اسرائیلی موساد کی مدد سے جنرل السیسی نے منتخب صدر کا تختہ الٹ دیا۔ جناب بلوم عراق اور کویت کے امریکی سفارت خانوں میں بھی اہم ذمے داریاں انجام دے چکے ہیں۔ انھیں عرب اسرائیلی امور کا ماہر سمجھا جاتا ہے، اسی کے ساتھ وہ امریکہ کی بدنام زمانہ Regime Change حکمتِ عملی کے ماہر بھی ہیں اور عالمی تحریکِ اسلامی کے سیاسی و سفارتی استیصال کے باب میں انھوں نے ”گراں قدر خدمات“ سرانجام دی ہیں۔ جناب بلوم امریکہ کی سینئر فارن سروس (SFC) سے وابستہ اور منسٹر کونسلر (Minister Counselor) کے منصب پر فائز ہیں، یعنی سفارتی بیوروکریسی میں اُن کا مرتبہ نائب وزیرخارجہ سے ایک درجہ نیچے ہے۔ آج کل جناب بلوم اسلام آباد میں امریکہ کے سفیر ہیں۔
زمینی حقائق کے سرسری جائزے سے تیونس کا حالیہ تنازع اُس مصری ڈرامے کی شرطیہ نئی کاپی نظر آرہا ہے جو 2013ء میں کھیلا گیا۔ اُس وقت مصر کے سیکولر و ”جمہوریت“ پسند عناصر نے صدر مرسی کی ”انتہاپسندی“ اور ”کرپشن“ کے خلاف تحریک چلائی۔ تحریک کے روحِ رواں مایہ ناز جوہری سائنس دان اور دانشور ڈاکٹر محمد البرادعی تھے۔ مصر کے سلفی مُلّا بھی اُن کے ساتھ مل گئے۔ مظاہروں کے دوران اخوان کے دفاتر پر حملے کیے گئے اور جناب البرادعی نے فوج سے درخواست کی کہ ملک کو بچانے کے لیے سجیلے جوان آگے آئیں۔ ستم ظریفی کہ گوشہ نشیں البرادعی کو اب بہت دکھ ہے کہ انھوں نے جنرل السیسی پر اعتماد کرلیا جنھوں نے وعدہ کیا تھا کہ صدر مرسی کو معزول کرتے ہی نئے انتخابات کا اعلان کردیا جائے گا۔ آئین پر ریفرنڈم اور اس کے بعد عام انتخابات میں عوام کی عدم شرکت سے جناب قیس سعید اپنے ”لانے والوں“ کا اعتماد کھوتے نظر آرہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جناب قیس سعید تیونس کے ڈاکٹر البرادعی ہیں جو اپنے لیے تو کچھ نہ حاصل کرسکے لیکن ایک ہنستے بستے جمہوری معاشرے کو انتشار کا شکار کرکے طالع آزمائوں کے لیے نرم چارہ بنادیا۔ الجزائر، مصر اور فلسطین کے بعد تیونس میں عوامی امنگوں پر شب خون سے یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہوگئی کہ مغرب کے لیے وہی جمہوریت قابلِ قبول ہے جس کا قبلہ واشنگٹن یا برسلز ہو۔
……………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔