ملک اور عوام کا معاشی دیوالیہ

کیا پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے؟ یہ سوال حکمرانوں سے لے کر ایک عام آدمی تک کی زبان پر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ معیشت تباہ حال ہے اور کچھ ٹھیک نہیں ہورہا، ہر گزرتے دن کے ساتھ معیشت پر دباؤ بڑھ رہا ہے، ملک میں عدم استحکام کی وجہ سے بے یقینی کی صورتِ حال ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ کسی کی کوشش ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے، تو ایسا نہ ہوگا، نہ کرنے دیں گے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ لوگ مایوس ہوکر پاکستان چھوڑ کر جارہے ہیں، ساڑھے 7 لاکھ پاکستانی 8 ماہ میں ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں، جو تشویش ناک ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بھی پاکستان کی سنگین معاشی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسان، مزدور، دیہاڑی دار، سرکاری ملازم سب پریشان ہیں، حالات کی وجہ سے ملک کا ہر پانچواں شہری ڈپریشن کا شکار ہے، صرف حکمرانوں کی دولت میں اضافہ ہورہا ہے، عوام کے لیے جینا مشکل ہوگیا ہے، توانائی کا بحران منہ کھولے کھڑا ہے، گردشی قرضے 2.6ٹریلین روپے تک پہنچ گئے، خیبر پختون خوا میں امن و امان کی صورت حال بدتر ہے، کراچی اور گوادر کے عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ ان کا یہاں تک کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت حقیقی طور پر دیوالیہ ہونے کی آخری سرحد پر کھڑا ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے پاس سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ وفاقی وزارتِ صحت نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں چند ہفتوں کا خام مال بچا ہے، اور دواؤں کے بحران کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان کئی معاملات پر اختلافات کی تصدیق کردی ہے۔ عائشہ غوث پاشا نے انکشاف کیا کہ گیس اور بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 4 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے،20 ارب ڈالر کا من و سلویٰ نہیں اترے گا، مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ اب اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ کسی بھی ملک کے دیوالیہ ہونے سے قبل جو علامات ظاہر ہوتی ہیں وہ تمام کی تمام ہماری معیشت میں موجود ہیں، ان میں سب سے بڑی علامت زرمبادلہ کے ذخائر کی ہے جو خطرناک حد تک کم ہیں۔ ملک میں درآمدات زیادہ ہیں، اس کے مقابلے میں برآمدات اس رفتار سے نہیں بڑھ پارہی ہیں، جس کی وجہ سے جاری کھاتوں کا خسارہ بڑھ رہا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو خصوصی طور پر معیشت کو ٹھیک کرنے کے دعوے کے ساتھ آئے تھے اور اب اپنی غیر موجودگی کے سارے بقایاجات وصول کرچکے ہیں، انہوں نے وزیر خزانہ بننے کے بعد اکتوبر کے مہینے میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ ڈالر کی قیمت کو 200 روپے سے نیچے لے آئیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا، اس وقت ڈالر کی قیمت225 روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں 236روپے سے اوپر جا چکی ہے۔ اور بات صرف ڈالر کی قیمت کی نہیں ہے، اب تو ڈالر دستیاب ہی نہیں  ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کا درآمدی مال جس میں تیل، خوردنی تیل، ادویہ، برآمدی شعبے کا خام مال، مشینری و پلانٹس اور دوسرے شعبوں کے لیے منگوائے جانے والے درآمدی کارگو شامل ہیں، بینکوں کی جانب سے ایل سی کے لیے ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے بندرگاہ پر پھنسے ہوئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ ڈالر کا ریٹ نیچے کیوں نہیں آرہا؟ اس حوالے سے ماہر اقتصادیات خرم حسین کا کہنا ہے کہ ڈالر کے ریٹ نہ گرنے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ اتنا نہیں کہ وہ ڈالر کے ریٹ کو نیچے لا سکے۔ ڈالر ریٹ کم ہونے کا ایک ہی حل ہے کہ ملک میں ڈالر آئیں جو اِس وقت کہیں سے نہیں آرہے۔ اب سعودی عرب سے یہ ڈالر آتے ہیں یا چین یا آئی ایم ایف سے… اس کا انحصار ان ملکوں اور ادارے کی جانب سے ڈالر کی فراہمی پر ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں اسٹیٹ بینک کے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے پاس 6.7 ارب ڈالر کے زرِمبادلہ ذخائر ہیں جبکہ ملک میں مجموعی طور پر 12.6 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں۔ پاکستان کو اس مالی سال میں 30 ارب ڈالر سے زائد کی بیرونی ادائیگیاں بھی کرنی ہیں۔ دوسری طرف ملک میں ڈالر لانے والے تین اہم ذریعے برآمدات، ترسیلاتِ زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری گزشتہ چند مہینوں میں منفی گروتھ ریکارڈ کررہے ہیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے ڈالر کے ریٹ کو نیچے لانے کے دعوے کے بارے میں ماہرینِ معیشت کہتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی نعرہ تھا جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ حکومت کا سارا دعویٰ جھوٹ اور فریب پر مبنی اور قوم کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں ہے، کیونکہ اس وقت جو سیاسی و معاشی صورتِ حال ہے اُس میں ڈالر کا ریٹ 250 سے350 روپے تک جا سکتا ہے جو ہماری معیشت کے لیے یقیناً خطرناک ہوگا، اور اس کا سارا بوجھ ہمیشہ کی طرح عام آدمی کو ہی اٹھانا ہوگا جو مزید مہنگائی کا شکار ہوگا، اور معیشت بھی مزیدتباہی کا شکار ہوگی۔

ہماری صنعتوں کی پیداواری صلاحیت پہلے ہی محدود ہے، اس وقت صنعتی شعبے میں سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں، گیس کی کمی نے مزید مشکل صورتِ حال پیدا کردی ہے جس کی وجہ سے ملازمین صنعتوں سے فارغ ہورہے ہیں اور بے روزگاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بہت ساری ملٹی نیشنل کمپنیاں اِس وقت ملازمین کو فارغ کرنے اور کچھ پاکستان سے نکلنے کا بھی سوچ رہی ہیں کیونکہ ایک تو ڈالر کی عدم دستیابی کی وجہ سے اُن کی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں، دوسرے اُن کے منافع کو ڈالروں کی صورت میں باہر لے جانا بھی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ملک دیوالیہ ہوچکا ہے یا ہونے والا ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے ؟

ماضی کی حکومت میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق چیئرمین شبر زیدی کا کہنا تھا کہ ”معاشی اصطلاح میں دیوالیہ یا ڈیفالٹ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص یا ملک اپنی موجودہ آمدن کے اندر اپنے قرضے نہ اتار سکے، پاکستان اپنی مقامی اور غیر ملکی کرنسی میں ہونے والی آمدن میں اپنا قرض نہیں اتار سکتا لہٰذا اس حوالے سے ملک ایک طویل عرصے سے دیوالیہ ہے“۔ انہوں نے کہا کہ ”دوسرا ڈیفالٹ ریاستی قرضے کا ہے جو اُس وقت ہوتا ہے جب دیگر ممالک آپ کو قرض دینا بند کردیں یہ دیکھتے ہوئے کہ آپ اپنا قرضہ ادا نہیں کرسکتے۔“ شبر زیدی کا کہنا تھا کہ ”ریاستی قرضوں کے حوالے سے پاکستان دیوالیہ نہیں ہوا کیونکہ دنیا کے دیگر ممالک یہ دیکھنے کے باوجود کہ پاکستان اپنا قرضہ ادا نہیں کرسکتا، ہمیں قرض دے رہے ہیں۔ البتہ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ جس طرح حکمران طبقے کی عیاشیاں جاری ہیں اور غیر دانش مندانہ معاشی فیصلے کیے جارہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے جلد دنیا پاکستان کو قرضے دینے سے اپنا ہاتھ کھینچ لے گی۔ شبر زیدی کا کہنا تھا کہ حکومتی وزرا جھوٹ بولتے رہے کہ پاکستان سری لنکا نہیں بن سکتا، اگر یہی حالات رہے تو صرف اگلے ہی سال پاکستان سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہوجائے گا۔“

پروفیسر صائم علی آئی بی اے میں معیشت کے پروفیسر ہیں، انہوں نے بی بی سی اردو کو دیوالیہ کے سوال کے سلسلے میں بتایا کہ ”تکنیکی طور پر ایک ملک اُس وقت دیوالیہ قرار دیا جاتا ہے جب وہ بیرونی قرضوں کو ادا کرنے کے لیے بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہوجائے“۔ ان کا کہنا تھا کہ ”اس کی ایک مثال لاطینی امریکی ملک ارجنٹائن کی ہے جو گزشتہ دس سالوں میں دو بار دیوالیہ ہوچکا ہے“۔ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس سلسلے میں کہا کہ ”کسی ملک کے لیے داخلی قرضے بھی ایک مسئلہ ہوتے ہیں، تاہم اس کی بنیاد پر ملک کو بین الاقوامی سطح پر دیوالیہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اندرونی قرضے کی مقامی کرنسی چھاپ کر ادائیگی ہوسکتی ہے لیکن بیرونی قرضے کی ادائیگی کے لیے عالمی کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ اس وقت ڈالر کو عالمی کرنسی کا درجہ حاصل ہے۔“

ایسے میں خبر یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے جنوری اور فروری میں ڈیزل پر لیوی بڑھانے کا مطالبہ کردیا ہے، جس کے بعد حکومت نے آئندہ ماہ بھی ڈیزل پر مکمل ریلیف نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب اس بات کا امکان ہے کہ 2 ماہ میں یعنی فروری 2023ء تک 20 روپے مزید پیٹرولیم لیوی بڑھائی جائے گی کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیزل پر فی لیٹر 50 روپے لیوی عائد کرنے کا معاہدہ ہے۔ لیوی بڑھانے سے ٹیکس محصولات کا ہدف حاصل نہ ہوا تو سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کو بڑھایا جائے۔

موجودہ معاشی صورتِ حال کے تناظر میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا بھی کہنا ہے کہ ”حکومت ادھار پر چل رہی ہے“۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کہنا کافی ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ ادھار کے نظام کو چلانے کے لیے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟ کیونکہ جب کوئی ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو اُسے مزید قرضے ملنا بند ہوجاتے ہیں، پھر دیوالیہ ہونے کے منفی اثرات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس سے عالمی منڈی میں ملک کی کریڈٹ ریٹنگ بہت گر جاتی ہے اور عالمی اداروں اور دوسرے ممالک کی جانب سے مزید قرض کی سہولت نہیں ملتی۔ ماہرین کے مطابق دیوالیہ ہونے کی صورت میں نتائج انتہائی سنگین بھی ہوسکتے ہیں، یہاں تک کہ ملک سے جانے والا تجارتی مال ضبط کرلیا جاتا ہے اور آپ کے ملک کے ہوائی جہاز اور بحری جہاز کسی دوسرے ملک کے قبضے میں جاسکتے ہیں۔ ایسے میں دیکھا جائے تو وطنِ عزیز کا معاملہ صرف اتنا نہیں ہے، امریکاہ سمیت پورا مغرب اپنے مقامی ایجنٹوں کے ساتھ اس صورتِ حال کے پس پشت ہے، وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو خدا کے بعد اِس ملک کی بقا کا ضامن ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کو اس شدید بحران اور خطرے کا شعور بھی نہیں ہے۔ امیر جماعت اسلامی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ”اشرافیہ مشکل وقت میں ملک سے بھاگ جاتی ہے، ان کی اولادیں اور جائدادیں بھی یورپ اور امریکہ میں ہیں“۔ کہا یہ جارہا ہے کہ موجودہ معاشی اور سیاسی بحرانوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ملک میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔ یقیناً معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارا سیاسی استحکام بھی طاقت ور طبقوں کے عوام کے خلاف ایک گٹھ جوڑ کے سوا کوئی تاریخ نہیں رکھتا،اور برسوں سے استحکام اور عدم استحکام کا کھیل جاری ہے۔

ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے
انجامِ گلستاں کیا ہوگا

اس پر زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی وہ ماہر اقتصادیات ہیں جو وطنِ عزیز کا درد رکھتے ہیں اور سیاست اور معیشت پر تبصرے میں اصل بات کرتے ہیں۔ ہم اپنے مضمون کا اختتام کسی رائے کے بغیر اُن کے کہے پر کرتے ہیں، ڈاکٹر شاہد حسن کا کہنا ہے اور یہ بات وہ بار بار کہتے ہیں کہ ”پاکستان میں بیشتر معاشی پالیسیاں طاقتور طبقات کے دباؤ میں بنائی جاتی ہیں، اور اس مقصد کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہو تو حکومت اور سرکاری ادارے تمام تر مالی بوجھ عوام پر منتقل کرکے کسی نئی قانون سازی میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ پاکستان کے 22 کروڑ افراد کے معاشی مفادات کے خلاف چند طبقات کا ایک گٹھ جوڑ ہے۔ یہ کلب معیشت کے مختلف شعبوں کے بااثر افراد پر مشتمل ہے جس میں بڑے تاجر، درآمد و برآمد کنندگان، ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ، بعض مذہبی طبقات، اقتصادی ٹیکنوکریٹس اور نجکاری کے نام پر کوڑیوں کے مول قومی اثاثوں پر قبضہ جمانے والے شامل ہیں جنھیں بعض اوقات فیصلوں کی صورت میں اعلیٰ عدالتوں کی کُمک بھی حاصل ہوجاتی ہے۔“