برطانوی معیشت شدید مشکلات کا شکار

ہڑتالوں کے باعث صرف لندن کو کرسمس سیزن میں دو ارب پاؤنڈ کا نقصان ہوگا

برطانیہ میں ہڑتالوں کا ایک نیا دور شروع ہوچکا ہے، اور یہ اُس وقت ہورہا ہے جب برطانوی معیشت کے لیے بہتر دن آنے والے تھے۔ کورونا کی صورتِ حال کے بعد سے بتدریج برطانوی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور اب خود برطانوی حکومت اور مرکزی بینک نے اعلان کردیا ہے کہ برطانوی معیشت اس وقت Recession کا شکار ہوچکی ہے۔ دو سال کورونا کی وبا کے بعد اِس سال توقع تھی کہ برطانوی سیاحت اور معیشت کرسمس کے سیزن میں کچھ اچھا وقت دیکھے گی، لیکن اب ان ارمانوں پر اوس پڑتی نظر آتی ہے۔ برطانوی ٹرین ملازمین، پوسٹ آفس اور بارڈر سیکورٹی فورس کے ملازمین نے عین کرسمس کے موقع پر ہڑتالوں کا اعلان کیا ہے جس کے باعث برطانیہ میں کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ ان ہڑتالوں کا اعلان بھی کرسمس کے سیزن کے عین موقع پر کیا گیا ہے جس کا مقصد حکومت کو دباؤ میں لاکر اپنے مطالبات منوانا ہے۔ یہ تین شعبے اس لیے بھی اہم ترین ہیں کہ برطانیہ کی بہت سی کاروباری سرگرمیوں کا دارومدار ان تین شعبوں پر بہت زیادہ ہے۔ ریلوے کی ہڑتال کے باعث بڑے پیمانے پر لوگوں کی آمد و رفت متاثر ہوگی اور کرسمس جو کہ خود ریلوے کے لیے انتہائی مصروف وقت ہوتا ہے اس پر ٹرین نہ چلنے کے باعث لوگ اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے نہیں جاپائیں گے، اور اس سے منسلک یعنی تحائف کی دکانوں اور ریستورانوں وغیرہ پر بھی سناٹا ہوگا۔ آن لائن شاپنگ کے بعد سے برطانوی پوسٹل سروسز رائل میل کی اہمیت دوچند ہوچکی ہے، گوکہ اس کے ساتھ دیگر پوسٹل و پارسل سروسز بھی یہی کام کررہی ہیں لیکن اِس وقت بھی پوسٹل سروسز کا بہت بڑا کاروباری حجم رائل میل کے ساتھ ہے۔ رائل میل کی ہڑتال کا مطلب بڑے پیمانے پر آن لائن شاپنگ سے لے کر تمام قسم کی ڈاک کے نظام کا عملاً معطل ہونا ہے۔ اسی طرح کرسمس کے موقع پر اندرون و بیرونِ ملک فضائی سفر سے ایک کثیر زرمبادلہ برطانوی معیشت میں آتا ہے، اس میں ایک بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے جو اپنے عزیز و اقارب سے ملنے برطانیہ آتے ہیں یا پھر کرسمس کے سیزن میں شاپنگ کے لیے برطانیہ اور خاص طور پر لندن کا رخ کرتے ہیں۔ اب جبکہ بارڈر سیکورٹی فورس نے بھی اس موقع پر ہڑتال کا اعلان کیا ہے تو بہت بڑی تعداد میں پروازیں عملے کے نہ ہونے کی وجہ سے اڑان نہ بھر سکیں گی۔ اس طرح ہوٹلوں اور ریستورانوں سمیت وہ تمام شعبے جو مہمان نوازی سے متعلق ہیں، متاثر ہوں گے۔ بارڈر سیکورٹی فورس کی ہڑتال کے باعث 7 ہزار پروازیں اور 15 لاکھ مسافر متاثر ہوں گے۔ ریلوے ملازمین کی ہڑتال کے باعث کرسمس کے موقع پر ٹرین سروس بند ہونے سے بار، ریستورانوں اور شراب خانوں کو 750 برطانوی پائونڈ کا نقصان اٹھانا پڑے گا، جبکہ ریٹیل بزنس اور مہمان نوازی کے شعبوں کو کُل ملاکر 1.75 ارب برطانوی پائونڈ کا نقصان ہوگا۔ جبکہ ان ہڑتالوں کے باعث برطانیہ کے معاشی حب لندن میں کاروبار کے نقصانات کا تخمینہ تقریباً 2 ارب برطانوی پائونڈ ہے۔ یہ سب نقصانات اس کے علاوہ ہیں جو کہ ریلوے، رائل میل اور بارڈر سیکورٹی فورس کو ازخود اُن کے عملے کے کام نہ کرنے کے باعث ہوگا۔

برطانوی معیشت اس وقت بدترین معاشی بحران کا شکار ہے، اس پر مستزاد مختلف شعبوں کے ملازمین کی ہڑتالیں برطانوی معیشت کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہورہی ہیں۔ شعبہ صحت میں ڈاکٹروں اور عملے کی کمی کے بعد اب نرسوں اور ایمبولینس عملے کی ہڑتالیں جاری ہیں۔ شعبہ صحت ابھی تک کورونا کی وبا کا مقابلہ مکمل طور پر نہیں کرپایا تھا کہ اب ہڑتالوں کا دباؤ اس پر ہے۔ شعبہ صحت میں صورتِ حال اس قدر ابتر ہے کہ مریض آپریشن کے لیے 6 ماہ سے انتظار کررہے ہیں اور حکومت کے بار بار اعلانات کے باوجود کہ وہ اس طویل انتظار کو ختم کردے گی، عملاً کوئی پیش رفت نہ ہوسکی، اور اب اس تاخیر سے نمٹنے کے لیے حکومت نے اعلان کیا ہے کہ شعبہ صحت ان مریضوں کا علاج نجی اسپتالوں میں حکومتی خرچ پر کروائے گا۔ گوکہ اس پر تنقید کی جارہی ہے اور چند حلقوں کی جانب سے اس کو حکومت کی جانب سے محکمہ صحت کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا پہلا قدم بھی کہا جارہا ہے، کیونکہ حکومت ہر بجٹ میں اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ صحت کے بڑھتے اخراجات کو کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کا وقت آچکا ہے، لیکن نہ تو محکمہ صحت کی کارکردگی بہتر ہوئی اور نہ ہی کوئی حکومتی پالیسی ایسی نظر آئی کہ اس شعبے کو کم خرچ پر مزید فعال کیا جائے۔

حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کی حکومت کا یہ 12 واں سال ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومتی دعووں کی قلعی کھلتی جارہی ہے، اس کے ساتھ ہی دوسری جانب برطانوی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کی مقبولیت میں واضح اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان ہڑتالوں کے پیچھے لیبر پارٹی کی بھی آشیرباد شامل ہے، اور اس کے ساتھ ہی کنزرویٹو پارٹی کی حکومت کی غلط پالیسیاں اور وقت پر مسائل کو حل نہ کرنا نہ صرف معیشت پر مزید برا وقت لارہا ہے بلکہ حکمران جماعت کی رہی سہی مقبولیت بھی تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ نومنتخب برطانوی وزیراعظم جوکہ بلند بانگ دعوے کے ساتھ مسندِ اقتدار پر آئے تھے کہ وہ برطانوی معیشت کو بحال کردیں گے، لیکن ان کے دورِ حکومت میں معاشی ترقی کی رفتار تاحال منفی ہے، اور اس پر مزید یہ کہ مہنگی ترین توانائی اور ہڑتالیں برطانیہ کو گہری معاشی کھائی میں دھکیل رہی ہیں۔ مہنگائی کی شرح 11 فیصد سے زائد ہے، توانائی کی قیمت 300 گنا تک بڑھ چکی ہے، بہت سی ملازمتیں تاحال خالی ہیں اور ان پر کام کرنے والا کوئی نہیں، جس کے باعث معاشی ترقی کی رفتار تاحال انتہائی کم ہے۔

انگلینڈ اور ویلز کے سوا باقی برطانیہ یعنی اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کے ساتھ حکمرانوں کی ایک طویل خلیج حائل ہے۔ اسکاٹ لینڈ تو باقاعدہ طور پر آزادی کے ریفرنڈم کی طرف جارہا تھا لیکن اب برطانوی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد رک گیا ہے، لیکن آئندہ آنے والے انتخابات میں اگر دوبارہ برطانیہ سے علیحدگی پسندوں کو حقِ حکمرانی ملا تو وہ شاید اب برطانیہ سے علیحدگی کے لیے باقاعدہ طور پر تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔ اسکاٹ لینڈ کی اکثریت نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا، اور آج بھی اس کے عوام و حکمرانوں کا یہی موقف ہے کہ ان کو یورپی یونین کے ساتھ رہنا ہے اور اس کے لیے واحد راستہ برطانیہ سے آزادی ہے۔ اگر اسکاٹ لینڈ کے اندر جاری کوششیں کامیاب ہوئیں تو برطانیہ کو تیل کے ایک بڑے خزانے سے محروم ہونا پڑے گا، کیونکہ برطانوی توانائی کا ایک بہت بڑا منبع اسکاٹ لینڈ میں ہے۔

برطانیہ معاشی طور پر پے در پے بہت سے چیلنجز سے نبردآزما ہے، اگر حکومتی پالیسیوں سے خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی تو برطانوی ریاست کا شیرازہ بکھرنے سے شاید کوئی نہ بچا پائے۔