قومی سیاست اور معیشت مزید نئے بحرانوں سے گزریں گی
عمران خان کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں پنجاب اور خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل نہیں کریں گے، کیونکہ ایسا کرنے سے اُن کو سیاسی فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔ ایک دلیل یہ دی جارہی تھی کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ اور مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری پرویز الٰہی ایسا کسی بھی صورت میں نہیں کریں گے۔ اگر اُن پر دبائو بڑھا تو وہ عمران خان کے مقابلے میں متبادل سیاسی راستہ تلاش کریں گے تاکہ اسمبلیوں کو ہر صورت محفوظ رکھا جاسکے۔ یہ خبر بھی دی گئی کہ پرویزالٰہی اور مونس الٰہی نے عمران خان کو راضی کرلیا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل فروری تک ملتوی کردی جائے تاکہ وہ اپنے مقررہ ترقیاتی منصوبے مکمل کرکے انتخابی میدان میں اس کا فائدہ اٹھا سکیں۔ لیکن عمران خان نے لاہور لبرٹی چوک پر اپنے خطاب میں دو اہم کام کیے۔ اوّل، انہوں نے اس بات کی تردید کردی کہ اِس بار بھی اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلے پر وہ یوٹرن لیں گے۔ انہوں نے 23دسمبر کو دونوں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا واضح اعلان کردیا اور ساتھ ہی ایک بار پھر اسپیکر قومی اسمبلی کے سامنے پیش ہوکر قومی اسمبلی سے بھی استعفوں کی تصدیق کا اعلان کیا۔ دوئم، اس اہم خطاب میں عمران خان کے ساتھ دونوں صوبائی وزرائے اعلیٰ چودھری پرویزالٰہی اور محمود خان موجود تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اگر ان کو دل سے یہ فیصلہ قبول نہیں تو بھی عمران خان کے فیصلے کے ساتھ وہ کھڑے ہیں۔
لبرٹی چوک کے جلسے سے ایک دو دن پہلے دیگر کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کے ساتھ ہماری بھی تفصیلی ملاقات ہوئی، اس میں بھی یہی سوال رکھا تھا کہ کیا واقعی آپ موجودہ صورت حال میں اسمبلیوں کو توڑنے کا رسک لیں گے؟ اور کیا چودھری پرویزالٰہی آپ کے ساتھ ہی کھڑے رہیں گے یا کوئی متبادل راستہ اختیار کریں گے؟ اس کے جواب میں عمران خان نے دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ وہ اپنے اس فیصلے پر مسلم لیگ (ق) سمیت تمام پارلیمانی افراد اور قانونی ماہرین سے مشاورت کرچکے ہیں اور یہ فیصلہ اب حتمی ہوگا۔ اسمبلیوں کی تحلیل دسمبر میں ہی ہوگی اور ملک کو ہر صورت نئے عام اور شفاف انتخابات کی طرف ہی لے جایا جائے گا۔ ان کے بقول نئے انتخابات ہی مسائل کا حل ہیں اور یہ ناگزیر ہیں، اور جب تک ہم عام انتخابات کا راستہ اختیار نہیں کریں گے مسائل یا بحران کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔ عمران خان کا منصوبہ یہ ہے کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سمیت قومی اسمبلی کے ارکان کے استعفوں کی تصدیق کرائی جائے گی، اور سندھ اور بلوچستان اسمبلی سے استعفے دے کر 70 فیصد پارلیمان کو خالی کیا جائے گا تاکہ عام انتخابات کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ بچے۔ عمران خان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ جہاں آپ نے عام انتخابات کے لیے اتنا انتظار کیا وہیں اکتوبر تک انتظار کرلیا جائے تاکہ سیاسی نظام چلتا رہے، اس پر عمران خان نے واضح کیا کہ میری اطلاعات یہ ہیں کہ موجودہ حکمران طبقہ اکتوبر میں بھی انتخابات میں سنجیدہ نہیں اور وہ ہر وہ حربہ اختیار کریں گے جو انتخابات میں التوا کا باعث بن سکے، کیونکہ ان کو کسی بھی صورت میں موجودہ حالات میں انتخابات سودمند نہیں لگتے اور اسی بنیاد پر انتخابات میں تاخیر بھی کی جاسکتی ہے۔ عمران خان کی اس بات میں وزن تھا، کیونکہ حکمران طبقہ ..جس میں مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی نمایاں ہیں.. مسلسل انتخابات میں مزید چھے ماہ کی تاخیر کا بیانیہ پیش کررہا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ مسلم لیگ (ق) کسی بھی صورت میں عمران خان کا ساتھ نہیں دے گی، جبکہ میں نے ان ہی صفحات پر عرض کیا تھا کہ مسلم لیگ (ق) کوشش ضرور کرے گی کہ اسمبلیوں کی تحلیل نہ ہو مگر وہ عمران خان کے ساتھ ہی کھڑی رہے گی۔ چودھری پرویزالٰہی نے عملاً عمران خان کو صاف کہہ دیا تھا کہ اگر اسمبلیوں کی تحلیل کے نتیجے میں عام انتخابات ہی ہونے ہیں تو وہ اسمبلی کو تحلیل کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے، لیکن پہلے یہ طے کرلیا جائے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کا حتمی نتیجہ عام انتخابات کی صورت میں ہی نکلے گا۔ مسلم لیگ (ق) یہ بھی چاہتی ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل سے پہلے اُس کے ساتھ انتخابی ایڈجسٹمنٹ کے معاملات بھی طے کرلیے جائیں تاکہ مستقبل کی سیاست کے تناظر میں کوئی ابہام نہ رہے۔ کیونکہ مسلم لیگ (ق) سمجھتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں اس کا عمران خان سے اتحاد زیادہ سودمند ہے، اور یہی اس کے سیاسی مفاد میں بھی ہے۔ عمران خان کی چودھری پرویزالٰہی اور مونس الٰہی سے تواتر سے ہونے والی ملاقاتوں کا مقصد بھی مستقبل کی عملی سیاست کے حوالے سے معاملات کو طے کرنا ہی تھا۔ اس لیے جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی کوئی مہم جوئی کریں گے، وہ غلطی پر ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی بدستور عمران خان کے ساتھ ہی ہیں، البتہ جنرل باجوہ کے خلاف گفتگو پر وہ عمران خان سے سخت نالاں ہیں اور اُن کے بقول عمران خان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن کیا چودھری پرویزالٰہی اس بات کو بنیاد بناکر عمران خان کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں؟ اس کے امکانات کم ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے دس دنوں سے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی خاصے سرگرم رہے ہیں۔ اُن کی حکومت اور حزبِ اختلاف کے اہم ارکان، گورنر اور وزرائے اعلیٰ سے ہونے والی ملاقاتیں بھی ظاہر کرتی ہیں کہ پس پردہ کچھ نہ کچھ ہورہا ہے۔ جو معاملات چل رہے ہیں وہ کسی سیاسی تنہائی میں نہیں چل رہے بلکہ ان معاملات کو کسی نہ کسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ کیونکہ خود اسٹیبلشمنٹ بھی چاہتی ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف میں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے ہوں اور بحران کا خاتمہ ہو، کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بھی جہاں سیاسی بحران بڑا مسئلہ ہے وہیں معاشی صورت حال بھی اُس کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں اگر یہ بحران ختم نہیں ہوتا اوربدستور سیاسی کشیدگی بڑھتی رہتی ہے تو اس کا نتیجہ مزید بحرانوں کی صورت میں ہی نکلے گا۔
عمران خان سے جب ہم نے یہ سوال کیا کہ ان مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ تو اس پر عمران خان کا ایک نکاتی ایجنڈا ہی سامنے آیا کہ وہ انتخابات کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا، مگر ان کے بقول حکومت آسانی سے انتخابات کا راستہ اختیار نہیں کرے گی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان نے 23 دسمبر کی جو تاریخ دی ہے وہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ جو لوگ بھی مفاہمت کے ساتھ انتخابات کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں وہ فیصلہ کرلیں، وگرنہ دوسری صورت میں ان کا فیصلہ وہی ہوگا جو انہوں نے پیش کردیا ہے۔ اگرچہ حکومت بضد ہے کہ اوّل تو عمران خان صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل نہیں کریں گے، لیکن اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ہم ان صوبوں میں فوری طور پر صوبائی انتخابات کا فیصلہ کریں گے۔ لیکن جو لوگ بھی یہ منطق پیش کررہے ہیں کہ عمران خان کے فیصلے کے بعد صوبائی انتخابات کروائے جائیں گے، اُن کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ آئین اورقانون اس کی اجازت دیتا ہے مگر سیاسی حرکیات میں یہ ممکن نہیں ہوگا۔ یہ خبر بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے حلقے بھی حکومت کو یہ پیغام دے چکے ہیں کہ اگر وہ اسمبلیوں کی تحلیل کو سیاسی فیصلوں کے ساتھ روک سکتے ہیں تو پہل کریں، کیونکہ اگر دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل ہوتی ہیں اور دیگر اسمبلیوں سے استعفوں کی بات سامنے آتی ہے تو پھر عام انتخابات کا ہی راستہ باقی بچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل پر خود حکمران طبقے میں پریشانی لاحق ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر واقعی عمران خان ایسا کرتے ہیں تو ایک طرف سیاسی بحران بڑھے گا اور دوسری طرف ان پر بھی فوری انتخابات کے انعقاد کے لیے دبائو بڑھایا جائے گا۔
حکمران اتحاد کے سامنے چار آپشن ہیں:
(1) آصف علی زرداری کی مدد سے پرویز الٰہی کو مختلف سیاسی آپشن کے تحت اسمبلی کی تحلیل سے روکنا۔ اس میں اُن کو وزیراعلیٰ کے طور پر قبول کرنے کا آپشن بھی موجود ہے۔
(2) وزیراعلیٰ اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو پیش کرنا۔
(3) پنجاب میں گورنر راج لگانے کا فیصلہ۔
لیکن ان تینوں آپشن کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں سوائے بحران کے، کچھ نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اپنے لوگ کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا امکان نہیں ہے اور گورنر راج کی صورت میں ہمیں سیاسی نقصان زیادہ ہوگا۔ پنجاب کے حالیہ بحران پر مسلم لیگ (ن) کا بڑا انحصار آصف زرداری پر بھی تھا، اور خود انہوں نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ وہ پنجاب میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ لیکن ان کو بھی کوئی کامیابی نہیں مل سکی، اور ان ہی کم امکانات کی وجہ سے زرداری صاحب نے بھی عملاً خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے سیشن کی موجودگی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہی نہیں ہوسکتی، یہی وجہ ہے کہ رولز کے مطابق ایک خاص حکمت عملی کے تحت پرویز الٰہی نے طویل عرصے سے پنجاب اسمبلی کا اجلاس جاری رکھا ہوا ہے۔ ایک بار پھر زرداری سرگرم ہوئے ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ چودھری شجاعت کی مدد سے پرویز الٰہی کو رام کیا جاسکے۔ پہلے ان کی کوشش حمزہ شہباز کی حکومت کو بچانا اور پرویز الٰہی کی حکومت کو روکنا تھا، اور اب وہ اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانا چاہتے ہیں۔ کیا وہ ایسا کرسکیں گے؟ مونس الٰہی کی موجودگی میں یہ امکان بھی کم ہے۔
دوسری طرف عمران خان نے بھی اسٹیبلشمنٹ سے اپنی توپوں کا رخ موڑ کر اسے محض جنرل(ر) باجوہ تک محدود کردیا ہے۔ کیونکہ ان کو سیاسی اور غیر سیاسی دوستوں کی جانب سے یہی پیغام ملا ہے کہ وہ براہِ راست فوج پر تنقید نہ کریں تاکہ ان کے ساتھ تعلقات میں مزید مسائل پیدا نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اپنے تحفظات کے باوجود نئی فوجی قیادت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ایسے کسی بھی کھیل کا حصہ نہیں بنے گی جس کا مقصد ان کا سیاسی راستہ روکنا ہو۔ کیونکہ عمران خان کو یہ ڈر ہے کہ حکومت اور حکومت سے باہر ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو اُن کو نااہل کروانے کےسیاسی میدان سے نکالنے کا ایجنڈا رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس خدشے کا اظہار تسلسل سے کررہے ہیں۔ اگر کوئی ایسا فیصلہ آتا ہے تو وہ پہلے ہی اس پر اپنا سازشی بیانیہ بنا چکے ہوں۔ عمران خان کو لگتا ہے کہ جب بھی عام انتخابات ہوں گے اس کا سیاسی فائدہ ان ہی کو ہوگا۔ بہت سے سیاسی مبصرین اور انتخابی سروے ابھی سے یہ ظاہر کررہے ہیں کہ عمران خان کا انتخابی سیاست میں پلڑا تمام تر مخالفانہ مہم کے باوجود بدستور بھاری ہے۔ پچھلے دنوں مسلم لیگ (ن) کے کچھ ارکان اسمبلی سے بھی گفتگو کا موقع ملا، وہ واقعی پریشان تھے کہ موجودہ صورت حال میں وہ کیسے انتخابات جیت سکیں گے! ان کے خیال میں دو آپشن موجود ہیں: اوّل، اسٹیبلشمنٹ عمران خان کا راستہ روکے وگرنہ ان کی بڑی کامیابی ممکن نہیں، اور دوسرا، ان کی توجہ کا مرکز نوازشریف اور مریم نواز کی واپسی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ اسمبلی واضح طور پر اپنی قیادت کو کہہ چکے ہیں کہ نوازشریف کی عدم موجودگی میں انتخابات میں جانا سیاسی خودکشی ہوگا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز کی واپسی کسی خاص منصوبہ بندی اور ڈیل کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان یہ بھی بیانیہ تیار کررہے ہیں کہ اگر نوازشریف کی عملی سیاسی واپسی ہوتی ہے تو اس کے پیچھے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات کا طے ہونا شامل ہے۔ نوازشریف بھی چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو سیاسی لگام دے۔ اس کی ایک بڑی وجہ انتخابی سیاست میں پنجاب میں ہونے والی جنگ ہے۔ کیونکہ اصل انتخابی معرکہ پنجاب میں ہی ہوگا جہاں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) مدمقابل ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ سے جو محفوظ راستہ چاہتی ہے اس میں بھی اُس کی توجہ کا اصل نقطہ پنجاب میں اقتدار کی واپسی ہے۔ مسلم لیگ (ن) مرکز سے زیادہ پنجاب میں اپنا اقتدار چاہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اگر ہم کو پنجاب میں بھی اقتدار مل جائے یاکسی مفاہمت کے تحت اس پر اتفاق ہوجائے تو ہم سیاسی فائدے میں رہیں گے۔ کیونکہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ سے پنجاب کا اقتدار حاصل کرنے کی جنگ لڑرہی ہے۔
بہرحال کھیل بڑی تیزی سے تبدیل ہورہا ہے، اور جو لوگ بھی چاہتے تھے کہ عمران خان کو غیر اہم کیا جائے ان کو ناکامی کا سامنا ہے۔ پیپلزپارٹی چھوڑنے والے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ اگر عمران خان کا اقتدار ہائبرڈ تھا تو موجودہ حکومت ہائبرڈ ٹو ہے۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہمیں عمران خان اور اُن کے سیاسی مخالفین سمیت اسٹیبلشمنٹ میں بھی بڑا ٹکرائو دیکھنے کو ملے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ حتمی نتیجہ فوری انتخابات کا آتا ہے کہ نہیں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس پہلو کو نظرانداز نہ کیا جائے کہ قومی سیاست اور معیشت مزید نئے بحرانوں سے گزریں گی اور ہم سب اس صورتِ حال کے ذمے دار ہوں گے۔