معاشی زنجیروں میں جکڑا پاکستان

کسی سیاسی جماعت کے پاس ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کا کوئی واضح اور قابلِ عمل حل اور پروگرام نہیں ہے

کسی بھی نیم جمہوری، ترقی پذیر، مقروض اور وہ بھی حد سے زیادہ مقروض، غیر مستحکم اداروں پر بھروسا کرکے ترقی کرنے، جمہوریت، خوشحالی اور محفوظ دفاع کا خواب دیکھنے والے ملک کی ’تھالی میں پارے‘ جیسی سیاست پر رائے دینا اور تجزیہ کرنا ایک نہایت مشکل کام ہے۔ پھر اگر سیاست دانوں کی کثیر تعداد دوربینی کی فطری صلاحیت سے بھی عاری ہو اور اُن کو صرف اپنے اقتدار کے حصول کی فکر لاحق ہو جس کے لیے کسی بھی اخلاقی تقاضے کو پورا کرنا تو درکنار… آئینی اور قانونی تقاضوں کا بھی لحاظ رکھنے کو تیار نہ ہوں تو پھر کیا کیا جائے؟ پھر سیاست دان وہ، جو بات کریں تو جھوٹ بولیں، عوام کو ایسی توقعات کے ساتھ وابستہ کریں جن کا حقیقت سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہ ہو، عوام کو ایک ایسی امید سے وابستہ کریں جس کے بارے میں نظر آرہا ہو کہ یہ پوری نہیں ہوگی اور آس ٹوٹ جائے گی اور مایوسی خون خوار جانور کی طرح سب کچھ چیر پھاڑ کر رکھ دے گی۔ سیاست دان اور راہنما میں فرق ہوتا ہے، اور جب یہ دونوں باہم مل جائیں تو ملک و قوم کی تقدیر بدل جاتی ہے، بصورتِ دیگر قوموں کی تباہی مفاد پرست سیاست دانوں کے ہاتھوں ہی آتی ہے۔ ملک میں طویل مدت سے سیاسی واردات کا تماشا جادو منتر دکھا رہا ہے۔ معلوم نہیں سیاست دان کیوں آئین پر جمہوری ایمان نہیں لا رہے اور عوام کے ووٹ کے لیے اپنے مقررہ وقت کا انتظار نہیں کرتے۔ وہ جس جمہوریت کا رونا روتے ہیں، اس پر ڈاکا ڈالے جانے کا شور مچاتے ہیں، اس کی حفاظت کے بجائے یہی سیاست دان اس کی بنیادوں کو توڑنے یا کمزور کرنے کے کیوں درپے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ اسمبلیاں توڑنا آئینی اقدام ہے، تو کیا عدم اعتماد غیر آئینی اقدام ہے؟

یہ بھی ممکن ہے کہ صوبائی اسمبلی ٹوٹ جائے اور عمران خان کو قومی اسمبلی سے محروم ہی رہنا پڑے۔ نااہلی کی تلوار بھی ہے اور ایک نہیں کئی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو قومی اسمبلی اپنی مدت میں ایک سال اضافہ کردے اور پھر ایک کے بجائے دو سال قوم کو بے وقوف بنایا جائے۔

حکومت کے پاس بزرگ ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن دینے کے پیسے نہیں، قرض اتارنے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہیں ہو رہیں، اسٹیٹ بینک نوٹ چھاپ کر دینے کو تیار نہیں، صوبے مالی معاملات کے لیے وفاق پر نظر جمائے بیٹھے ہیں، خزانہ اس حد تک خالی ہے کہ پارلیمنٹ بھی اخراجات میں کمی کرنے پر مجبورہے، ملک میں سرمایہ کاری رُک چکی ہے اور توانائی کا سنگین بحران ہے، قومی خسارہ کم نہیں ہورہا، ایسے میں عمران خان کی خواہش کی تکمیل کے لیے کئی سو ارب روپے خرچ کردیے جائیں تاکہ ملک میں ان کے دورِ حکومت کے تاریخی ترقیاتی پروجیکٹ جن کو چار وزرائے خزانہ نے سنہری حروف کے ساتھ ملکی معاشی کتاب میں تحریر فرمایا، آگے بڑھایا جاسکے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرے اور جو بھی سماعت رہتی ہے اس کو جلد مکمل کرکے فیصلہ صادر کرے۔

بہرحال رواں ہفتے ملک میں ہر روز کئی سیاسی و غیر سیاسی شو دیکھنے کو ملیں گے مگر ’’حافظ صاحب‘‘ خاموش ہیں اور خاموش ہی رہیں گے، البتہ سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ پاکستان اس وقت جن معاشی اور سیاسی بحرانوں سے دوچار ہے، ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے ملک میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ سیاسی استحکام اس صورت میں آ سکتا ہے کہ فوری طور پر نئے عام انتخابات ہوجائیں اور نئی منتخب حکومت قائم ہو۔ حکومت بھی یہی چاہتی ہے، کہ سیاسی استحکام اور میثاقِ معیشت ہی پاکستان کی قومی سلامتی کو مضبوط کرسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت بھی سیاسی عدم استحکام سے پریشان ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سیاسی استحکام کیسے آئے گا؟ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت سابق وزیراعظم کو عدم استحکام کا ذمے دار قرار دے رہی ہے کہ عمران خان اسمبلیاں توڑ کر ملک کو مزید سیاسی عدم استحکام میں دھکیل رہے ہیں۔ تحریک انصاف پی ڈی ایم پر سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کا الزام لگا رہی ہے، دونوں الزامات در الزامات کی سیاست کررہے ہیں، ایسی صورتِ حال میں سیاسی استحکام کیسے آسکتا ہے! اگر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں کسی میثاقِ معیشت پر اتفاق کرلیتی ہیں تو بھی اس پر عمل درآمد کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے، کیونکہ عالمی معاہدے ملک میں سیاسی حالات کو دیکھ کر کیے جاتے ہیں، سیاسی عدم استحکام میں میثاقِ معیشت کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

اس وقت کسی سیاسی جماعت کے پاس ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کا کوئی واضح اور قابلِ عمل حل اور پروگرام نہیں ہے۔ پی ڈی ایم، تحریک انصاف اور ملک کی دیگر قابلِ ذکر جماعتوں نے اب تک کوئی ایسا معاشی پلان نہیں دیا، جس کو میثاقِ معیشت کی بنیاد بنایا جا سکے۔ الزام در الزام کے بعد صورتِ حال یہ ہے کہ معاشی بحران ختم ہونے کے بجائے مزید گہرا ہوگیا ہے اور بات ڈیفالٹ ہونے کے خطرے تک جاپہنچی ہے۔ بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ معاشی بحران کی وجہ سے ملک عام انتخابات کے فوری انعقاد کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ عام انتخابات پر اخراجات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ معذرت خواہانہ اور انتخابات سے فرار کی سوچ ہے۔ محض اخراجات کی وجہ سے انتخابات کو کب تک روکا جا سکے گا؟ انتخابات فروری یا مارچ میں نہ ہوئے تو اکتوبر میں بہرحال کرانا پڑیں گے کہ آئین سے انحراف ممکن نہیں۔ بعض وزرا یہ اشارے بھی دے رہے ہیں کہ ملک میں معاشی ایمرجنسی لگا کر عام انتخابات چھے ماہ تک مؤخر کیے جا سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے سیاسی عدم استحکام کم نہیں ہوگا بلکہ بڑھے گا، جس کے بعد ملک کے سیاسی حالات اور معیشت کو سنبھالنا مزید دشوار ہوجائے گا۔

ملکی معیشت سے جڑے ہوئے مسائل کے حوالے سے ایک تازہ سروے رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے مطابق پاکستان کے مجموعی کاروباری اعتمادمیں اپریل سے اب تک 17فیصد کمی آئی ہے، اس کی وجہ ملک میں سیاسی اور معاشی غیر یقینی صورت حال، روپے کی قدر میں کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے، روپے کی قدر میں مسلسل کمی، اگست میں ریکارڈ بارشوں اور سیلاب نے کاروباری سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کاروباری اعتماد میں سب سے زیادہ کمی 24 فیصد سروس سیکٹر، 22 فیصد ہول سیل سیکٹر اور 20 فیصد مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ہوئی ہے۔ یہ سروے کراچی، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور فیصل آباد میں کاروباری طبقے کی رائے کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ ادویہ کی قیمتوں میں اضافہ اور ان کے واجبات کی ادائیگیوں میں تاخیر غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے باعثِ تشویش ہے اور حکومت نے بیرونی ایئر لائنز کے 225ملین ڈالر کے واجبات کی ادائیگی روکی ہوئی ہے جس کی وجہ سے IATA نے ہمیں واچ لسٹ پر ڈال دیا ہے، جبکہ کار مینوفیکچرر کمپنیوں کے پارٹس کی امپورٹ میں رکاوٹوں کی وجہ سے بھی یہاں ان کا کاروبار بند ہونے کی اطلاع مل رہی ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ بزنس کمیونٹی انتہائی حد تک مایوسی کا شکار ہے جس کی اہم وجہ سیاسی بے یقینی اور معاشی عدم استحکام ہے۔ FATF کے بعد بھی ملک میں سرمایہ کاری کی راہ ہموار نہیں ہوئی بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں کمی ہورہی ہے۔ 30فیصد افراط زر، بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے۔ دنیا میں ہر سال ایک کھرب ڈالر سے زائد بیرونی سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 5سال میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کا جائزہ لیں تو اوسطاً 2 ارب ڈالر سالانہ رہی ہے۔ 22۔2021ء میں پاکستان میں 1.9 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کی گئی جس میں چین (532 ملین ڈالر)، امریکہ (250 ملین ڈالر)، ہانگ کانگ (138 ملین ڈالر)، سوئٹزرلینڈ (146 ملین ڈالر) اور متحدہ عرب امارات (144 ملین ڈالر) کی آئل اینڈ گیس، پاور سیکٹر، فنانشل سروسز اور ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹرز میں سرمایہ کاری شامل ہے۔ کاروباری اعتماد اور سرمایہ کاری کا دارومدار معاشی پالیسیوں میں تسلسل، سیاسی اور معاشی استحکام، افراطِ زر اور مارک اپ میں کمی، ملک میں امن و امان کی بہتر صورت حال اور مستحکم کرنسی پر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اِس وقت یہ تمام معاشی اشاریے منفی ہیں، جس کی وجہ سے موڈیز اور فٹچ سے پاکستان کی رینکنگ منفی اور پاکستانی بانڈز کے کریڈٹ ڈیفالٹ رسک میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ سیاسی بے یقینی کے باعث آج ملک اس سنگین معاشی صورتِ حال تک پہنچا ہے۔ ملک کو معاشی بدحالی سے بچانے اور سیاسی استحکام کے لیے پارلیمنٹ اور قومی سیاسی جماعتیں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گی تو ملکی معیشت تنزلی سے بچ سکے گی۔ سب سے اہم بات ملکی معیشت کی ہے، اس کی فکر کس کو ہے؟ ملک کا تازہ ترین سیاسی منظرنامہ کچھ یوں بنا ہوا ہے کہ ملک کی معیشت آئی ایم ایف اور ملکی سیاست سول ملٹری اشرافیہ کے سچ جھوٹ کی گرفت میں ہے۔ نوازشریف، آصف علی زرداری، وزیراعظم شہبازشریف اور عمران خان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو پورا سچ بول رہا ہو۔

اس وقت تحریک انصاف کی توپوں کا رخ جنرل باجوہ کی جانب ہے، لیکن یہ بھی پورا سچ نہیں ہے۔ آج کا سچ یہی ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے یہ بات طے کرلی ہے اور خاص طور پر پاکستان کے لیے یہی فیصلہ ہے کہ سیاست دانوں کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ باہم دست و گریباں کیے رکھنا ہے، لہٰذا ملکی سیاست میں ہمارے یہی سیاست دان عالمی اسٹیبلشمنٹ کے اس ایجنڈے کو اچھی طرح سمجھ کر مقامی نعروں اور مسائل کو بنیاد بناکر آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس کا حتمی نقصان یہی ہوگا کہ ملک معاشی طور پر کمزور سے کمزور ہوتا چلا جائے گا، پھر کہا جائے گا کہ آپ کو سنبھال سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ لائو وہ مال اور اسے ہمارے حوالے کرو جس پر تمہیں بہت فخر ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ انتخابات ہی مسئلے کا حل ہیں، یہ ایک سراب ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

بلاشبہ پاکستان معاشی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے جن کو کاٹنے کے لیے ملک کے اندر سیاسی استحکام، اور زمینی حقائق کے مطابق معاشی پالیسیاں اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔