قائد اعظم ایک با اصول اور باوقار رہنما

بانی پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح برصغیر کی ملت اسلامیہ کے مسلمہ اور غیر متنازع رہنما ہیں وہ اس لحاظ سے خاصے خوش نصیب ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں ہی برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے اور جہان فانی سے رخصت ہونے کے بعد بھی آج تک لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت کے جذبات موجزن ہیں جس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے زبردست محنت اور اخلاص سے اپنی قوم کی خدمت کی اور انہیں نہ صرف انگریز سے آزادی لے کر دی بلکہ تنگ نظر اور متعصب ہندوئوں سے محفوظ رکھنے کے لیے پاکستان کی نعمت سے سرفراز کیا جسے مدینہ کے بعد دنیا کی پہلی اسلامی نظریاتی ریاست اور اس وقت کی سب سے بڑی مسلم مملکت ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ قائد اعظم ایک واضح نصب العین اپنے سامنے رکھتے تھے جس کے لیے انہوں نے تن من دھن سے شب و روز ان تھک محنت کی اور آخر انگریز اور ہندو کی مشترکہ چالوں کو ناکام بنا کر اس نصب العین کے حصول میں کامیابی حاصل کی، مرعوبیت نام کی کوئی چیز ان کی شخصیت میں شامل نہیں تھی، وہ جرأت و حمت کے پیکر اور فولادی اعصاب کے مالک تھے، انہیں قدرت نے ہر قسم کے حالات کا عزیمت و استقامت سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی صلاحیت عطا کی تھی، مشکل سے مشکل صورت حال میں بھی ان کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں دیکھی گئی، اپنے وقت کی بڑی طاقت، انگریز جس کے زیر اقتدار سرزمین پر ان دنوں سورج غروب نہ ہونے کا بڑا چرچا تھا، اور برصغیر ہندوستان پر بھی ان کی بلا شرکت غیرے حکمرانی تھی، مگر قائد اعظم نے ان سے ملاقاتوں اور مذاکرات میں کبھی کسی قسم کی مرعوبیت کو قریب نہیں پھٹکنے دیا اور اپنی ذہانت، دیانت اور مضبوط قوت ارادی کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کو ان کا حق لے کر دیا۔

قائد اعظم محمد علی جناح کی شناخت ایک با اصول سیاست دان کی تھی، اصولوں کی خاطر وہ بڑی سے بڑی قربانی سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ ان کی اسی خوبی نے انہیں دنیا کے بڑے لوگوں کی فہرست میں شامل کر دیا تھا، وہ ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہو کر جدوجہد کرتے اور مسلمانان پاکستان کو بھی انہوں نے یہی پیغام دیا کہ: ’’اب مسلمانوں کی نجات اسی میں ہے کہ وہ متحد ہو جائیں، شیعہ، سنی اور وہابی کے تعصبات کو بھی خیر باد کہہ دیں اور صوبائی تعصبات کو بھی بالائے طاق رکھ کر آگے بڑھیں ورنہ ایسا طرز فکر مسلمانوں کے لیے مصیبت کا باعث بنے گا۔ ہم صرف اسلام کے خادم ہیں۔‘‘ کیسا صاف اور شفاف پیغام قائد نے اپنی قوم کو دیا تھا جو ان کی کامیابی، ترقی اور خوش حالی کا ضامن تھا مگر ہم نے اس واضح پیغام کو فراموش کر دیا اور رنگ و نسل، علاقائی و لسانی اور فرقہ ورانہ تعصبات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، نتیجہ ظاہر ہے کہ ہمارے اس طرز عمل کے باعث پاکستان ایک حقیقی اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست بننے کی بجائے طرح طرح کے مسائل سے دو چار ہے، دنیا کی سب سے بڑی مسلم مملکت اپنے قیام کے محض 24 برس بعد دو لخت ہو گئی مگر ہم نے اس سے بھی کوئی سبق حاصل کیا نہ عبرت۔ عنایت علی خاں مرحوم و مغفور کے الفاظ میں:

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

اذیت ناک حقیقت یہی ہے کہ ہم نے سقوط مشرقی پاکستان کے اندوہناک سانحہ کے بعد بھی رک کر یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اس سانحہ کے اسباب کیا تھے، ہم کیوں اس عبرت ناک صورت حال سے دو چار ہوئے اور آئندہ ایسے سانحات سے کیوں کر محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ قائد اعظم اپنے نصب العین پر نظر رکھنے اور اس کے حصول کے لیے سنجیدگی سے جدوجہد میں جس قدر مخلص اور مستقل مزاج تھے ہم ایسے معاملات میں اتنے ہی غیر ذمہ دار ، لاپرواہ اور لا ابالی واقع ہوئے ہیں ہماری سیاست بے اصولیوں اور مفاد پرستی کا مرقع ہے جب کہ قائد اعظم ان سے کوسوں دور تھے، ان کا کوئی سخت سے سخت مخالف بھی ان پر کبھی بے اصولی اور مفاد پرستی کا الزام تک نہیں عائد کر سکا مگر پاکستان کے آج کے سیاست دانوں کا دامن ہر اصول سے تہی اور کسی بڑے نصب العین سے خالی ہے، موجودہ مقتدر قائدین کے پاس مملکت خداداد کی منزل کا کوئی واضح تصور تک موجود نہیں، قوم بے سمت بگٹٹ دوڑی چلی جا رہی ہے اور اس بے سمت سفر کے نتیجہ میں زوال کی پستیوں کی جانب لڑھکتی چلی جا رہی ہے۔ عوام میں ملک کے مستقبل سے متعلق مایوسی اور نا امیدی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کی رفتار میں ہمارے خود ساختہ دانش ور اور ذرائع ابلاغ مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ ملک کے روشن مستقبل کی کوئی کرن کسی سمت سے طلوع ہوتی دکھائی نہیں دے رہی، نوجوان نسل بے مقصدیت اور مادیت کے سمندر میں غوطے کھا رہی ہے۔ عام آدمی مہنگائی، بے روز گاری، غربت اور جہالت کے ہاتھوں پریشان اور خود کشی پر مجبور ہو رہا ہے مگر کوئی انہیں حوصلہ دینے اور ہاتھ تھامنے والا موجود نہیں، سیاست دانوں کی ہوس اقتدار کے سامنے سب بے بس ہیں، ایک ایک اصول کو چن چن کر پامال کیا جا رہا ہے، آئین اور قانون کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جا رہا ہے انصاف اور عدل طاقت اور دولت سے مشروط ہو چکے ہیں عام آدمی کے لیے ان کا حصول تقریباً ناممکن ہے۔

قائد اعظم کی قیادت میں آج سے کہیں برے حالات اور غلامی کے دور میں حصول پاکستان کی جو تحریک چلائی تھی اس کا ایک ایک ورق گواہ ہے کہ قائد نے نوجوانوں کو بے پناہ اعتماد دیا بھی اور جدوجہد آزادی میں ان کی صلاحیتوں پر اعتماد کیا بھی۔ جس سے ایک غلام قوم آزاد اور خود مختار مملکت کے حصول کی جدوجہد میں کامیابی کی منزل سے ہم کنار ہوئی۔ آج بھی ہم اگر مایوسیوں، ناکامیوں اور پریشانیوں سے نجات کے خواہاں ہیں تو ہمیں قائد اعظم کے نقش قدم پر چلنا ہو گا جو ان تھک محنت اور کام، کام اور فقط کام پر یقین رکھتے تھے، آج بھی اگر اسلامی فلاحی مملکت کے نصب العین کی خاطر ان کے اصول ایمان، اتحاد اور تنظیم ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگیوں کا مرکز و محور بن جائیں تو کامیابی ہمارے قدم چوم سکتی ہے، ہم مسائل سے نجات پا سکتے ہیں اور ایک با عزت، باوقار اور خود دار قوم کی حیثیت سے دنیا میں اپنا مقام بنا سکتے ہیں۔ ضرورت عمل اور استقامت کی ہے…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)