مَثَل مشہور ہے : ’’اپنے دہی کو کون کھٹا کہتا ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ ہر شخص اپنی چیز کی تعریف ہی کرتا ہے۔ اپنوں میں کوئی نقص نظر آئے تو دوسروں کی نظروں سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔کوئی شخص اپنے گھر یا اپنے خاندان کے عیوب گنوانے لگے تو ایسے موقع پر طعنہ دیا جاتا ہے کہ ’’آپ گھٹنا کھولو، آپ لاجوں مرو‘‘۔
یعنی خود ہی اپنے آپ کو ننگا کرو اور خود ہی شرماؤ۔ مدعا یہ کہ اپنوں کے عیب گنوانا شرم کی بات ہے۔ پَر کیا کریں کہ ہوگئے ناچار جی سے ہم۔ ہفت روزہ ’فرائیڈے اسپیشل‘ ہی نے تو ہمیں ’غلطی ہائے مضامین‘ پکڑتے پھرنے کی لت لگائی ہے۔ اب اس لت کو بُھگت۔
پچھلے شمارے (مطبوعہ 9 دسمبر 2022ء، شمارہ نمبر48) میں صفحہ نمبر 29 پر ڈاکٹر محمد سلیم کا ایک وقیع مضمون شائع ہوا۔ سلیم صاحب نے اس مضمون میں ڈاکٹر اکرم ندوی کی معرکہ آرا کتاب ’’الوفا باسماء النساء‘‘ پر نہایت جامع تبصرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر اکرم ندوی نے علم الحدیث کے ’اسماء الرجال‘ کی طرز پر ابلاغِ حدیث میں علمی و فنی خدمات انجام دینے والی دس ہزار خواتین کے نام و احوال یعنی ’اسماء النسا‘نہایت تفصیل سے طالبانِ علمِ حدیث کے لیے مرتب کردیے ہیں۔ تعارفی مضمون شائع کرتے ہوئے کسی رُکنِ ادارت نے ایک ذیلی سُرخی یوں جما دی:
’’خواتین محدثات کا پہلا مفصل تذکرہ‘‘
سرخی پڑھ کر کسی کو غلط فہمی ہوسکتی ہے کہ شاید مرد بھی ’محدثات‘ ہوتے ہوں گے، تب ہی تو اس وضاحت کی ضرورت محسوس کی گئی کہ یہ ’خواتین محدثات‘کا تذکرہ ہے۔ محض غلط فہمی دور کرنے کی خاطرعرض ہے کہ حدیث بیان کرنے والے یا علمِ حدیث پر عبور رکھنے والے مرد ’محدث‘کہلاتے ہیں۔ محدث کی جمع ’محدثین‘ ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا نام توکم ازکم سب ہی نے پڑھا یا سُنا ہوگا۔ لیکن اگر حدیث بیان کرنے یا علمِ حدیث پر دسترس رکھنے کی سعادت کسی خاتون کو حاصل ہو تو اُن کو ’محدثہ‘ کہا جائے گا۔ محدثہ کی جمع ’محدثات‘ ہے۔ ’خواتین محدثات‘ کہنا ایسا ہی ہے جیسے ’زنانی بیویوں‘ کو ’خواتین بیگمات‘ کہا جائے، اوراُن کے ’مرد شوہروں‘ کو ’مرد حضرات‘ قرار دے ڈالا جائے۔
اس طرح کی دیگر غلطیاں بھی ہمارے ذرائع ابلاغ میں خوب رواج پارہی ہیں۔ مثلاً ’خاتون شاعرہ‘ یا ’خاتون مصنفہ‘ لکھنے والوں کو یقیناً معلوم ہوگا کہ شاعرہ یا مصنفہ خاتون ہی کو قراردیا جاتا ہے۔ اگر معلوم ہے تو بس اتنا ہی لکھ دیا کریں، قارئین کو یقین آجائے گا۔ دو مرتبہ اصرار کرکے ان کو خاتون ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ اُن کی شاعری یا تصنیف خود بھی تصدیقِ مزید کردے گی کہ وہ خاتون ہی ہیں۔
البتہ بعض وہ الفاظ جو انگریزی سے اُردو میں داخل ہوئے ہیں، ضرور ایسے ہیں جن کی تذکیر و تانیث دُبدھا میں پڑجاتی ہے۔ ’دُبدھا‘ تذبذب، پس وپیش، شک اوربے یقینی کو کہتے ہیں۔ مثلاً بعض اوقات اس وضاحت کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ یہ انوکھا حادثہ ایک ’خاتون ڈرائیور‘ سے ہوا ہے۔ اسی طرح اظہارِ وجوہ کرتے ہوئے کبھی کبھی بتانا پڑتاہے کہ سرکاری حکم نامے میں سامانِ آرائش کی فہرست غلطی سے محکمے کی ایک ’خاتون کلرک‘ ٹائپ کر بیٹھی ہیں۔ خاتون ڈرائیور یا خاتون کلرک قسم کی تراکیب کی جمع بھی جائز ہے، کیوں کہ ہمارے ہاں ’خواتین ڈرائیور‘ اور ’خواتین کلرک‘ کا اچھا خاصا مجمع لگ گیا ہے۔ مگر ’خواتین محدثات‘ کی ترکیب پھر بھی جائز نہیں ہوگی۔ یوں بھی دو اسمائے جمع کو ساتھ لانا عیب گردانا جاتا ہے۔
خالص اُردو تراکیب میں بھی بعض اوقات تذکیر و تانیث کی توضیح کرنی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر مردوں کے لیے ’اہلِ قلم‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ مگرآپ کسی خاتون کے لیے ’اہلیۂ قلم‘ کی اصطلاح استعمال کربیٹھیں تو خدشہ ہے کہ خاتون خفا ہوکر ایسی خامہ فرسائی نہ فرمادیں کہ آپ کو (اپنے نواسوں کی) نانی یاد آجائے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ پہلے ہی انھیں ’خاتون اہلِ قلم‘ لکھ دیجیے اور اُن کے مجمع کو ’خواتین اہلِ قلم‘۔ اپنی جان بچائیے کہ جان ہے تو جہان ہے پیارے۔
لفظِ حدیث ہمارے ہاں دو طرح سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک استعمال اصطلاحی معنوں میں ہے، دوسرا لغوی معنوں میں۔ اصطلاحی معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے اقوال، افعال، عادات اور کسی معاملے میں آپؐ کے سکوت کا ماجرا بیان کرنے کو ’حدیث‘ کہتے ہیں۔کوئی ایسی بات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے صیغۂ متکلم میں بیان فرمائی ہو اُسے ’حدیثِ قُدسی‘ کہا جاتا ہے۔ احادیث کی صحت کو جانچنے، پرکھنے اور ان کے درجات متعین کرنے کے لیے جو اصول، قواعد اور ضابطے مقرر کیے گئے ہیں اُن کا مجموعہ ’علم الحدیث‘ کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی سیرتِ طیبہ اور آپؐ کی نبوی زندگی کا ایک ایک لمحہ بالکل ٹھیک ٹھیک، بالکل درست طریقے سے اور جوں کا توں محفوظ رکھنے کے لیے مسلمانوں نے ایک حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا۔ اس کارنامے کی مثال دنیا کی کسی دوسری قوم میں نہیں ملتی۔ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلّم سے ملنے جلنے والوں، آپؐ کو دیکھنے والوں اور آپؐ سے کوئی بات نقل یا روایت کرنے والوں کے بھی حالاتِ زندگی اور اُن کی عادات و اطوار اور ان کی سیرت و کردار کو قلم بند کرلیا گیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ لوگ اپنی عام زندگی میں کیسے تھے،کن صفات کے حامل تھے۔ تیرہ ہزار سے زائد افراد کے حالاتِ زندگی صرف اس خاطر محفوظ کیے گئے کہ ہم جان سکیں کہ سیدِ کونین صلی اللہ علیہ وسلّم کے حالاتِ زندگی کس سیرت و کردار اور کن عادات و اطوار کے لوگوں نے محفوظ کیے۔ علامہ شبلی نعمانی نے ’’سیرت النبیؐ‘‘ میں ایسی بارہ کتب کے نام درج کیے ہیں جن میں صرف انھیں بزرگوں کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ دورِ صحابہ کے بعد کے وہ لوگ جنھوں نے احادیث کا ابلاغ آگے تک کیا، اُن میں سے بھی پانچ لاکھ افراد کے نام اور مختصر حالاتِ زندگی محفوظ کیے جا چکے ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ اس علم کو ’علم الرجال‘ کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے سوا کسی امت کے پاس یہ علم نہیں۔
حدیث کے لغوی معنی بات، بیان، ذکر وغیرہ ہیں۔ حکایت اور داستان کے لیے بھی حدیث کا لفظ استعمال کیا گیا۔ مولانا جلال الدین رومیؔ کا مشہور شعر ہے، جو اقبالؔ نے بھی ’’اسرارِ خودی‘‘ میں استعمال کیا ہے:
خوشتر آں باشد کہ سِرِّ دلبراں
گفتہ آید در حدیثِ دیگراں
اس شعر کا مفہوم ہے ’’کیا ہی اچھا گُر ہے کہ دلبروں کے بھید دوسروں کے ذکر کی آڑ میں بیان کیے جائیں‘‘۔ یہ طریقہ مجروحؔ سلطان پوری کو بھی اچھا لگا۔ اُنھوں نے بھی یہ ترکیب استعمال کرلی۔ مگر اُن کا دلبر بڑا کائیاں تھا، سنبھل کر بیٹھ گیا۔ لہٰذا بات یوں بنانی پڑی:
جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
تمھاری بات نہیں، بات ہے زمانے کی
قصہ، کہانی اورحکایت کے معنوں میں ’حدیث‘ کے استعمال کی مثال اقبالؔ کے اس شعر میں ملاحظہ فرمائیے:
میں نوائے سوختہ در گُلو، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بُو
میں حکایتِ غمِ آرزو، تو حدیثِ ماتمِ دلبری
فارسی اشعار کی طرح اب تو اُردو اشعار کے معنی بھی سمجھانے پڑتے ہیں۔ چلیے،سمجھائے دیتے ہیں۔ اقبالؔ اپنے عہد کے مسلمان سے کہتے ہیں کہ میری (آہوں سے) جلی ہوئی آوازتو حلق ہی میں گُھٹ کر رہ گئی اور( تیرا حال یہ ہے کہ) تیرا رنگ اُڑ گیا اور خوشبو اِدھر اُدھر بکھر کر رہ گئی۔ یوںمیری داستان آرزوؤں کے دُکھ کی داستان بن گئی اورتیری کہانی حسن وخوبی کے زوال کاماتم کرتی ہوئی کہانی۔