آسمانی اقبالیات کا ایک اور ستارہ ڈوب گیا
ایوب صابر صاحب سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی؟ اپریل 1977ء میں،تاریخ یاد نہیں۔
اپریل1977ء اس لیے یقینی ہے کہ اسی ماہ اپریل میں اقبالیات پر صابر کلوروی کی پہلی کتاب ”یادِ اقبال“ مکتبہ شاہکار کراچی سے شائع ہوئی۔ جریدی اشاعت تھی۔ قِصّہ یوں ہے کہ صابر کلوروی نے مجھے اپنی کتاب کی تقریبِ رونمائی میں شمولیت کے لیے ایبٹ آباد آنے کی دعوت دی۔ میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں لیکچرر تھا۔ میری اُن کی ملاقات نہ تھی۔ یہ پہلا رابطہ تھا۔ انھوں نے لکھا کہ آپ مقررہ تاریخ کو ایک بجے تک ایبٹ آباد کے ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں پہنچ جائیں، تقریب کی صدارت آپ کریں گے۔ راقم مقررہ تاریخ اور وقت پر پہنچا تو کونسل ہال کے دروازے پر لگا تالا منہ چڑا رہا تھا۔ میں انتظار میں باغ میں گھومنے لگا۔ آدھا گھنٹہ، ایک گھنٹہ۔ صاحبِ کتاب، نہ تقریب۔ وہاں موجود کونسل کا ایک کارندہ بھی لاعلم تھا۔ آخر عصر کے وقت تقریب سے مایوس ہوگیا۔ کلوروی کا خط نکالا، جس میں یہ لکھا تھا: تقریب کے بعد، آپ دیگر مہمانوں کے ساتھ میرے گاؤں کلور چلیں گے اور ولیمے میں شریک ہوں گے۔ شب بسری وہیں ہوگی۔ میں نے دو ایک لوگوں سے معلوم کیا تو پتا چلا کہ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں کلور اڈّے پر پہنچا جا سکتا ہے مگر وہاں سے گاؤں کلور دو تین میل دور ہے، پیدل جانا پڑتا ہے، رات کے وقت سفر مناسب نہیں ہے۔
راقم نے ایک ہوٹل میں شب بسری کے بعد علی الصبح عزمِ سفر باندھا۔ مانسہرہ کی طرف جانے والی بس میں سوار، کلور اڈّے پر اترا اور گاؤں کا رخ کیا۔ خدا بھلا کرے کلور کا ایک شخص مجھے ساتھ لے چلا اور صابر صاحب کے گھر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ ”صابر، باہر نکلو، مہمان آئے ہیں“۔ صابر نکلے تو انھوں نے مجھے اور میں نے انھیں دیکھا۔ گھر کے اندر لے گئے، والد سے تعارف کرایا، وہ بھی بہت خوش ہوئے۔ پتا چلا رات ولیمے میں آئے ہوئے مہمان ناشتا کرکے جا چکے تھے۔ جانے والوں میں ایوب صابر اور رحیم بخش شاہین شامل تھے۔ خود صابر کلوروی سسرال جانے کے لیے تیّار بیٹھے تھے۔ بہرحال انھوں نے ناشتا بنوایا۔ گفتگو ہونے لگی۔ عذر معذرت کرنے لگے کہ تقریبِ رونمائی کا پروگرام منسوخ ہوگیا تھا اور وقت نہ تھا کہ آپ کو اطلاع دی جاتی۔ خیر، ناشتا کرکے ہم گھر سے اکٹھے نکلے۔ کلور کے اڈّے پر پہنچ کر راقم ایبٹ آباد کی بس میں بیٹھا اور صابر صاحب اپنی بیگم کے ساتھ دوسری سمت میں روانہ ہوگئے۔ صابر صاحب نے مجھے ایوب صابر کے مکان کا پتا بخوبی سمجھا دیا تھا۔ پوچھتے پاچھتے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھلا تو نام بتایا۔ میری اُن سے اور اُن کی مجھ سے پہلی ملاقات تھی۔ آخری ملاقات ستمبر 2022ء میں ہوئی۔ 45 برسوں کی کہانی بہت لمبی ہے، فقط چند جھلکیاں پیش کرنا ممکن ہے۔
اقبال پر اُن کے چند مضامین دیکھ چکا تھا۔ اسی پہلی ملاقات میں مَیں نے انھیں اقبالیات کے بعض موضوعات پر لکھنے پر متوجہ کیا بلکہ اُکسایا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ پشاور یونی ورسٹی کی متعلمی کے زمانے میں مضمون نویسی کے مقابلوں میں ایک بار اوّل، دوسری بار دوم انعام جیت کر اپنے استاد اور اقبال شناس پروفیسر محمد طاہر فاروقی سے داد تحسین حاصل کرچکے تھے۔ یونی ورسٹی آنے سے پہلے ایبٹ آباد کالج میں انھیں ایک بڑے قابل استاد پروفیسر صغیر احمد جان دہلوی سے اکتساب کا موقع ملا تھا۔ اس زمانے میں شعر و ادب کے لیے کالج کی فضا بہت سازگار تھی۔
ذکر تھا پہلی ملاقات کا۔
اس پہلی ملاقات کے بعد کچھ وقفہ آیا۔ راقم کا سرگودھا سے لاہور گورنمنٹ کالج تبادلہ ہوگیا۔ پونے دو برس بعد یونی ورسٹی اورینٹل کالج سے بطور لیکچرر شعبۂ اردو سے وابستہ ہوا۔ تعطیلات میں چند دنوں یا ہفتوں کے لیے ایبٹ آباد چلا جاتا۔ ایوب صابر صاحب سے ملاقات رہتی۔ وہ ایبٹ آباد کالج میں پڑھا رہے تھے۔ ملاقات میں قدرتی طور پر اس طرح کی گفتگو ہوتی:
”کیا کررہے ہیں آج کل؟“
”زیادہ تر مطالعہ۔“
”کچھ لکھ بھی رہے ہیں؟“
”جی ہاں۔“
”اقبال کی طرف آئیے۔ ساتھ ہی کچھ لکھیے بھی۔“
نتیجہ: ایوب صاحب نے علاّمہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں ایم فل کی کلاس میں داخلہ لے لیا۔ مقالے کا عنوان تھا: ”اقبال پر بعض معاندانہ کتب کا جائزہ“۔ ایم فل تو1988ء میں مکمل ہوگیا۔ نظرثانی کے بعد اسے ”اقبال دشمنی، ایک مطالعہ“ کے عنوان سے1993ء میں ڈاکٹر جاوید اقبال اور راقم کے دیباچوں کے ساتھ شائع کرادیا۔
ایوب صاحب 5-6 برس متفرق تحریری سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ 1995ء میں 4 برس قبل از وقت، ریٹائرمنٹ لے لی، کیوں کہ وہ پنجاب یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن کرا چکے تھے اور اب بالکل یکسو ہوکر کام کرنا چاہتے تھے۔ مقالے کے لیے باہمی مشورے سے ”علّامہ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات، ایک مطالعہ“ کا عنوان طے ہوا۔ راقم ان کا نگران مقرر ہوا۔ اُس زمانے میں مَیں تعطیلات میں کچھ دنوں کے لیے ایبٹ آباد جایا کرتا تھا۔ ایوب صاحب سے ملاقات ہوتی اور تبادلہ خیال بھی۔ ڈیڑھ دو برس تو وہ صرف کتابوں کی جمع آوری اور ان کے مطالعے میں مصروف رہے۔ میں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر انھیں مشورہ دیا کہ وہ لکھنے کا کام بھی شروع کردیں۔ انھیں خود بھی یہی احساس ہوا کہ مطالعے کو لمبا کرنے سے لکھنے کا کام مشکل ہوجائے گا۔ راقم کے قیام ایبٹ آباد کے زمانے میں روزانہ ہی مقالے کے موضوع پر ان کے ساتھ ایک آدھ گھنٹے کی نشست ہوتی تھی۔ تعطیلات کے بعد باقی ایام میں وہ بذریعہ ٹیلی فون یا خط بعض نکات پر مشورہ کرلیتے۔ ادھر ان کے شاگرد صابر کلوروی صاحب بھی برابر انھیں متوجہ کرتے رہے، تاآنکہ مقالہ جمع کروانے کی آخری تاریخ سے 2دن پہلے وہ مقالے کی فوٹو کاپیاں لے کر میرے پاس پہنچے۔ اتفاق سے اُن دنوں میں صدرِ شعبہ کی ذمے داری راقم پر تھی۔ فوٹو کاپیاں میں نے شعبے کے نائب قاصد محمد اکرم کے سپرد کیں، وہ دوسرے دن جلدیں بنوا کر لے آیا۔
اب مقالہ جمع کرانے کا مرحلہ تھا۔ اور یہ قصہ خاصا دل چسپ ہے۔
میں نے اکرم کو ایوب صاحب کے ساتھ نیو کیمپس بھیجا تاکہ مقالہ جمع ہوجائے۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے کے بعد اکرم نے واپس آکر بتایا کہ مقالہ جمع نہیں ہوا کیوں کہ ایوب صاحب کے پاس ایم اے کی سند کی نقل نہیں تھی اور وہ مجھے یہاں کالج پہنچاکر مایوس ہوکر اپنی قیام گاہ پر چلے گئے ہیں۔ میں بہت پریشان ہوا، ان کی ساری محنت اکارت ہوتی نظر آئی، اچانک مجھے اللہ میاں نے کچھ سُجھایا۔ میں نے اپنی الماری کھولی اور مجھے ایوب صاحب کی فائل مل گئی جس میں دیگر کاغذات کے ساتھ اُن کی ایم اے کی سند کی نقل بھی موجود تھی۔ میں نے رکشا منگوایا اور کہا: جی، او، آر، وَن چلو۔ وہاں پہنچے تو جسٹس نظیر اختر صاحب کا مکان ڈھونڈنے لگے (جن کے ہاں ایوب صابر مقیم تھے)۔ مکان نمبر معلوم نہ تھا اس لیے مکان نہیں مل رہا تھا۔ ادھر یونی ورسٹی کا وقت خاتمے کی طرف جا رہا تھا اور میں دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہا تھا۔ ایوب صاحب اور راقم رکشے میں بیٹھے اور تھیسس ساتھ رکھے۔ رکشا دوڑایا۔ نیو کیمپس پہنچے۔ ابھی آدھا، پون گھنٹہ باقی تھا۔ تھیسس جمع ہوگیا اور ہم شاداں و فرحاں وہاں سے نکلے۔ اب میں نے ایوب صابر صاحب سے کہا: اپنی قیام گاہ پر جانے سے پہلے مجھے منصورہ چھوڑ دیجیے۔ منصورہ آتے ہوئے میں نے اُن سے بڑے شگفتہ انداز میں کہا: دراصل آپ نے مجھے استاد نہیں مانا لیکن آج تو آپ انکار نہیں کرسکتے۔ کہنے لگے: نہیں نہیں، میں مانتا ہوں۔ دراصل جو امیدوار راقم کی نگرانی میں کام کرتے، ازراہِ احتیاط ان کے کاغذات (موضوع کی منظوری، بینک چالان کی رسید، میٹرک اور ایم اے کی اسناد) وغیرہ اپنے پاس رکھ لیتا تھا۔ حالانکہ جملہ کاغذات مہیا کرنا امیدواروں کی ذمے داری تھی۔ سبھی اساتذہ ایسا نہیں کرتے تھے۔ راقم کی یہ عادت ایوب صاحب کے لیے غایت درجہ سودمند ثابت ہوئی اور ان کی ڈگری کو خطرے سے بچا لیا۔
پی ایچ ڈی کی ڈگری مل گئی تو باہمی مشورے سے ایوب صاحب نے موضوع کو آگے بڑھایا، مزید کام کیا، اور جیسا کہ قارئین کو معلوم ہوگا، اقبال مخالف افراد کی تردید میں یکے بعد دیگرے اُن کی تصانیف شائع ہوتی رہیں۔ چند برس بعد انھوں نے سارے کام پر نظرثانی کرکے اسے 3 جلدوں میں مربوط کرکے شائع کرادیا اور وہ بجا طور پر محسوس کرتے تھے کہ:
شادم از زندگی ِخویش کہ کار ے کردم
ایوب صابر بڑے نفیس و نستعلیق شخص تھے۔ ہر کام میں سلیقہ اور باقاعدگی۔ راقم کے ساتھ برادرانہ تعلق رہا۔ بارہا اُن کے ہاں مقیم ہوا۔ خورونوش سے لے کر صبح شام کی سیر تک میں، اُن کا ساتھ رہا۔ مشاہدہ کیا۔ ہر کام کا وقت مقرر تھا۔ صبح اذان فجر کے ساتھ ہی بیدار ہوجاتے۔ قریبی مسجد میں نماز باجماعت ادا کرتے۔ دوپہر کا قیلولہ لازمی (جو سفر میں بھی قضا نہ ہوتا تھا)۔ رات جلد سوجاتے۔ اُوپن یونی ورسٹی میں صدرِ شعبۂ اقبالیات کے منصب پر فائز تھے۔ دوپہر، کھانا گھر سے منگواتے۔ دفتر ہی میں کھانے کے بعد ایزی چیئر پر اونگھ لیتے، قیلولے کی شرط پوری۔
اس قدر باقاعدہ اور نپے تلے اوقات کے ساتھ زندگی گزارنے والے کو جب بلاوا آیا تو وہ سب کچھ چھوڑ کر اٹھا، چل دیا۔ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۔ ان کی رحلت کی خبر بالکل غیر متوقع اور صدمہ انگیز تھی۔ باری تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور ان کے درجات کو بلند کرے، آمین۔