بلوچستان میں سیاسی سرگرمیاں

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا پشین میں شمولیتی جلسے سے خطاب

جمعیت علمائے اسلام صوبے کی بڑی دینی سیاسی جماعت ہے۔ اس کی پارلیمانی حیثیت قابلِ ذکر ہے۔ صوبے کی حکومتوں میں غالب حصے کے ساتھ شامل رہی ہے۔ بقدرِ جثہ اپنا حصہ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یعنی دنیا دار جماعت ہے اور دنیا داری کے فن سے آشنا بھی ہے۔ افسر شاہی اس کے ساتھ سہولت میں ہوتی ہے۔ رہی بات ہیئتِ حاکمہ کی، تو کم ازکم بلوچستان کی حد تک وہ اس سے بیر اور الجھائوکا مزاج نہیں رکھتی۔ 2018ء میں صوبے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر عدم اعتماد کی تلوار چلانے کی واردات میں جمعیت علمائے اسلام شامل اور وار کرنے والوں کی دست و بازو بنی۔ عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بنانے میں اس نے ہر طرح سے معاونت کی۔ اس چھے ماہ کی حکومت میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کا تماشا، نگران وزارتِ اعلیٰ کے منصب کی فروخت اور طرح طرح کے عجائب صوبے کی پارلیمانی تاریخ کا ناشائستہ حصہ بنے ہیں۔ جے یو آئی حزبِ اختلاف کے لبادے کے ساتھ قدوس بزنجو کی حکومت میں حصے دار رہی۔ چناں چہ جام کمال خان حکومت کے خلاف تحریک انصاف اور جنرل فیض حمید کی بچھائی بساط کے لیے اگر بی این پی اور پشتون خوا میپ مہرہ بنیں تو شانہ بشانہ جے یو آئی بھی تھی، اور اس سب کے بغیر کامیابی ممکن بھی نہ تھی۔ اس طرح عبدالقدوس بزنجو ایک بار پھر وزیراعلیٰ بنائے گئے۔ جے یو آئی یہاں بھی حزبِ اختلاف کا جامہ پہنے حکومت کا حصہ ہے۔

صوبے میں خراب حکمرانی، بدعنوانی اور نظام کے تہس نہس ہونے کا سب رونا روتے ہیں، سب ہی اصلاح کے دعویدار ہوتے ہیں، مگر بدقسمتی سے یہ سب ہی صوبے کی درگت بنانے میں شریک ہیں۔ بلوچستان میں حکومتی مشینری جس طور و انداز سے چلی آرہی ہے اس میں جے یو آئی بھی ایک پرزہ ہے۔ مثالی حکومت اور مثالی گورننس موجودہ اور پچھلے ادوارِ حکمرانی کی مانند جے یو آئی کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جے یو آئی بھی بگاڑ سے بری الذمہ نہیں۔ جے یو آئی اب آئندہ اپنی حکومت کے قیام کی حکمت عملی رکھتی ہے۔ اس کی یہ مشق کامیاب ہو بھی سکتی ہے۔ اس ذیل میں نواب اسلم رئیسانی، میر ظفر اللہ زہری، امان اللہ نوتیزئی اور غلام دستگیر بادینی کی جمعیت میں شمولیت یقینی طور پر ایک بڑی تبدیلی تصور کی جاتی ہے۔ نواب اسلم رئیسانی 2008ء سے 2013ء تک وزیراعلیٰ رہے ہیں۔ جمعیت ف اُن کے ساتھ حکومت میں شامل تھی۔ تب مولانا عبدالواسع سینئر صوبائی وزیر تھے۔ میر ظفر اللہ زہری اس حکومت میں وزیر داخلہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے تھے۔ امان اللہ نوتیزئی بھی کابینہ میں شامل تھے۔ دستگیر بادینی البتہ 2013ء کے عام انتخابات میں نوشکی سے کامیاب ہوئے تھے اور کابینہ میں شامل تھے۔ ان افراد کے اپنے اپنے حلقوں میں سیاسی اثرات ہیں۔ نواب رئیسانی البتہ بڑے قد کاٹھ کی حامل سیاسی و قبائلی شخصیت ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی آئندہ عام انتخابات میں بلوچستان کے اندر حصہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ کئی الیکٹ ایبلزکے پی پی پی میں شامل ہونے کی باتیں ہورہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر فی الوقت سردمہری کی فضا ہے۔ جے یو آئی کو پیش بندی کی تراکیب اختیار کرنا پڑیں گی۔ اس ضمن میں صوبے کی جماعتوں کا اکٹھا ہونا اور مل کر چلنا مشکل نہیں۔ یعنی اگر جے یو آئی، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی واقعی صوبے کی غم گسار ہیں تو حکومت کسی اور کے ہاتھوں لگ نہیں سکتی۔ مولانا فضل الرحمان نے 7 دسمبر 2022ء کو نواب اسلم رئیسانی کی رہائش گاہ ساراوان ہائوس میں اس جانب اشارہ بھی کیا کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں مسائل کے انبار ہیں، صوبہ وسائل رکھتا ہے مگر ان پر اختیار نہیں رکھتا۔ انہوں نے اشارتاً کہا کہ یہاں مصنوعی قیادتیں مسلط کی جاتی ہیںٖ۔ بہرحال ماضی کی یہ ناپسندیدہ مشقیں پیش نظر رکھنا ہوں گی۔ پیپلز پارٹی صوبے میں دوماہ کے لیے گورنر راج نافذ کرچکی ہے۔ یہ آصف علی زرداری کی امن وامان کی خراب صورت حال سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش تھی، حالانکہ امن کے مسئلے سے صرف بلوچستان دوچار نہ تھا، بلکہ تخریب و دہشت گردی کے خطرات ہنوز منڈلا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی صوبے میں نون لیگ، نیشنل پارٹی اور پشتون خوا میپ کی حکومت کے خلاف بغیر پردہ جوڑ توڑ میں شامل تھی۔ چناں چہ صوبے کی سیاسی جماعتوں کو ذات کی ترجیح و منافع سے نکلنا ہوگا۔ گروہی مفادات کو چھوڑ کر صوبے کے حق اور حقِ حکمرانی پر متحد ہونا پڑ ے گا۔ صوبہ اور عوام، وسائل کی نگہبانی اور استحصال کا خاتمہ و تدارک چاہتے ہیں۔ حقیقی ترقی اور معیارِ زندگی بلند دیکھنا چاہتے ہیں۔ معدنیات سیندک کی ہوں یا ریکوڈک کی، ان کے اخراج کے معاہدوں کے باوجود محرومیوں کا دور دورہ ہے، اس لیے ان کی آہ و بکا برحق ہے۔ اس پر مستزاد 10 دسمبر کے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں منظور کی گئی آئینی قرارداد کے ذریعے صوبے کے قانونی اختیارات وفاق کو تفویض کردیے گئے۔ حزبِ اختلاف نے شور ضرور بلند کیا تاہم یہ معروضی حقیقت ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی، جے یو آئی، بی این پی عوامی وغیرہ بند کمروں میں ریکوڈک معاہدے سے متعلق ہمکاری کرچکی ہیں۔ اب اس قراداد پر آنسو بہانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جے یو آئی نے 8دسمبر 2022ء کو کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں ’’ورکرز کنونشن‘‘ کے عنوان سے بڑا جلسہ عام منعقد کیا، جس میں مذکورہ شامل ہونے والے رہنما بھی شریک تھے۔ مولانا فضل الرحمان کوئٹہ میں مزید چند دن مصروف رہے، بلوچستان ہائی کورٹ بار میں وکیلوں کے اجتماع سے خطاب کیا، اس دوران وہ حافظ حسین احمد سے بھی ملے۔ حافظ حسین احمد ناراض تھے، بجائے اُن کی خفگی دور کرنے کے جے یو آئی کے بعض افراد نے اُن کا اخراج کردیا۔ حافظ حسین احمد نے یقیناً مولانا کے آگے ان کرداروں کو نمایاں کیا ہوگا جو مولانا اور ان کے درمیان بدگمانیاں پیدا کرنے کا سبب ہیں۔

8 دسمبر 2022ء کو جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ضلع پشین میں شمولیتی جلسے سے خطاب کیا۔ انہوں نے بلوچستان کا مسئلہ بجا طور پر بدعنوانی کو قرار دیا، لاپتا افراد کے معاملے کو نازک کہا، نیز موجودہ افغان حکومت کو تسلیم نہ کرنے پر وفاقی حکومت پر تنقید بھی کی۔ افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے بارے میں مولانا فضل الرحمان کو بھی چاہیے کہ اپنی حکومت پر دبائو ڈالیں۔ جے یو آئی کے اس جلسہ عام میں اسٹیڈیم میں بچھائے گئے خیمے عوام میں زیر بحث رہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے نام اور مونو گرام والے خیمے گرائونڈ میں بچھے دکھائی دیے۔ عوامی حلقوں میں یہ بات زیر گردش ہے کہ یہ خیمے اقوام متحدہ کی جانب سے سیلاب متاثرین کو فراہم کیے گئے ہیں جو عوامی نمائندوں نے متاثرین میں تقسیم کرنے کے بجائے اینٹھ لیے ہیں۔

بدعنوانی صوبے کے اندر بڑی برائی ہے، آج اگر صوبے میں مالی بحران کی ہاہا کار مچائی گئی ہے تو اس کا سبب بھی یہی لوگ ہیں۔ رکن اسمبلی ظہور بلیدی وقتاً فوقتاً خراب حکمرانی اور مالی بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کے بارے میں خوب نقاط اٹھاتے رہتے ہیں۔گھر کے بھیدی ہیں، بلاشبہ اُن پر اندر کا احوال واضح ہے۔ کہتے ہیں کہ محکمہ پی ڈی ایم اے، بی ڈی اے اور اربن پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ میں بدعنوانیوں کے رجواڑے بنے ہوئے ہیں۔ نوکریوں کی فروخت اور کمیشن خوری برسرِ عام ہے،کوئٹہ کے اندر سڑکوں کے تمام توسیعی منصوبے بند ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے بارے میں آڈٹ رپورٹ سال 2020-21ء چشم کشا اور جھنجھوڑ دینے والی ہے۔ تصور کریں کہ حالیہ بارشوں اور سیلابوں کے دوران بے قاعدگیاں اور غت ربود کس سطح کی ہوگی؟ گویا جملہ صورت حال آلودہ ہے۔ بات محض ایک دو محکموں کی نہیں ہے بلکہ حکومتی نمائندوں تک پوری ایک چین ہے جن تک حصہ جاتا ہے۔

بہرکیف مولانا فضل الرحمان آئندہ بلوچستان میں اپنی جماعت کی حکومت کے حوالے سے پُرامید ہیں۔ اس بنا پر جلسے میں آئندہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں پرچم نبوی یعنی جے یو آئی کا جھنڈا لہرائے گا۔ یاد رہے کہ بلوچستان کے اندر عام انتخابات سے قبل شمولیتیں ایک عمومی رجحان ہے، اور فوراً علیحدگی بھی عام سی بات ہے۔ بہرحال بلوچستان کو قیادت کے فقدان کا سامنا ہے۔ عوام صوبے کی سیاسی جماعتوں سے تضادات اور انحرافات چھوڑ دینے اور حقیقی رہنمائی کی توقع رکھتے ہیں۔