مابعد از تصور۔۔۔ مابعد جدیدیت کی جانب۔۔۔

تہذیب تصور سے تصویروں کی تہذیب تک۔۔۔ مغربی فکر ی تاریخ
الف لیلہ کی داستانیں سنی گئیں، سنائی گئیں، سب ایک سی۔۔۔
مگر یہ جہاں، یہ ذہن ہمیشہ اپنی ہی کہانیاں لکھتا رہا، لکھتا رہے گا۔۔۔
آدمی ہر معاملے میں بعید از عقل احساسات کا تابع رہا۔۔۔
(James Joyce, Finnegans Wake)
میں زمیں پر وہ پیکر قدسی ہوں۔۔۔
کہ جس کی نظر سے، تم کارِ جہاں دیکھتے ہو۔۔۔
(Wallace Stevens—on imagination)

رچرڈ کئیرنی آئرش فلسفی اور دانشور ہیں۔ اُن کی زیر نظر کتاب
THE WAKE OF IMAGINATION

مغربی فکر کی تاریخ میں فلسفہ ”تصور“ کے سفرکابیان ہے۔ مقدمہ اس کتاب کا یہ ہے کہ آدمی کا ”تصور“ آغاز میں آفاقی تھا، جو بتدریج کائناتی وسعتوں سے سمٹ کرٹی وی اور موبائل اسکرینز کی تصویروں میں ڈھل گیا ہے۔ یہ مغربی انسان کے تصور کے انحطاط کی تاریخ ہے جسے مصنف نے عصرِحاضرکی مابعد جدید صورتِ حال میں انتہائی باریک بینی اورتحقیق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس تصنیف کا مقصد مصنف نے یہ بیان کیا ہے کہ کس طرح آدمی کے تصوراور کائناتی اقدار کی اہمیت اور ضرورت کو ازسرِ نو زندہ کیا جائے، اور جدیدیت کے بعد کی صورت ِحال (مابعد جدیدیت) سے انسانوں کونجات دلائی جائے۔ (مترجم)

تعارف: تہذیبِ تصور۔۔۔ آج؟

آج ہم جہاں بھی رخ کرتے ہیں، خود کو تصویروں میں گھرا پاتے ہیں۔ گھر کے ٹی وی سے بل بورڈ کے اشتہاروں تک، انتخابات کے پوسٹرز سے نیون سائن تک، ہماری مغربی تہذیب تیزی سے ’تصویر کی تہذیب‘ بنتی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ ہماری زندگی کے وہ گوشے جن کے بارے میں ہمیں یہ خوش گمانی ہے کہ ”تصویروں“ سے بچے ہوئے ہیں، وہ بھی کسی نہ کسی طور جھلملاتی تصویروں کی زد میں ہیں۔ یہ درحقیقت ممکن ہی نہ رہا کہ کوئی نام نہاد فطری ماحول سازی مکمل طور پر کی جاسکے۔ ہر جگہ صارفیت پسند تصویریں پس منظر سے جھانکتی نظر آجاتی ہیں: ایک پہاڑی مہم جوئی مارلبورو سگریٹ کے بغیر نظر نہیں آتی، سمندر کا تاحدِّ نظر منظر اب سیاحتی کمرشل سے جڑا ہوتا ہے، اور دیگر فطری مناظر کی معصومیت بھی اشتہار زدہ ہوچکی ہے۔ یہاں تک کہ ہمارا داخلی لاشعور بھی اس سے خالی نہیں۔ ہمارے جسم کی مانند، ہماری نفسیات کی دنیا بھی تصویری صنعت کی نوآبادی بن چکی ہے۔ یہاں تک کہ نجی جنسی زندگی بھی لپیٹ میں ہے۔ ٹی وی سوپ اوپرا جیسے کہ ڈلاس اینڈ ڈائناسٹی (Dallas and Dynasty) پر لاکھوں کروڑوں ڈالر صرف کیے گئے ہیں۔ اس بات پر کہیں کوئی تاسف نظر نہیں آتا کہ پندرہ سال عمر سے کم تقریباً پچاس فیصد امریکی بچوں نے شاید ہی کوئی ٹی وی پروگرام شروع سے آخر تک دیکھا ہوگا!

ایسے حالیہ اطوار سے چند مبصرین نے خیال ظاہر کیا، جیسا کہ McLuhanنے کہا ہے کہ پرنٹ میڈیا کی گوٹنبرگ کہکشاں کا ٹیلی کمیونی کیشنز کے عالمی گاؤں میں ڈھل جانا علم اور خواندگی کی روایتی ہم آہنگی خطرے میں ڈال رہا ہے۔ کتاب کی ثقافت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تصویر کی ثقافت میں بدل رہی ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہورہے ہیں جہاں مطالعہ ایک تاریخی مغالطہ بن چکا ہے، بس اک یادِ ماضی سے زیادہ کچھ نہیں۔

دورِحاضر کی آنکھ معصوم نہیں رہی۔ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ تقریباً سوچی سمجھی تصویروں کی معلومات پر مبنی ہوتا ہے۔ یقیناً آج کی تصویر اور گزرے وقتوں کی تصویر میں ایک بنیادی فرق ہے: آج کی تصویر حقیقت کی ترجمانی کے بجائے اُس کی صورت گری کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو حقیقت تصویر کا بے رنگ عکس بن چکی ہے۔ یہ الٹ پھیر بہت سے معیارات میں واضح ہوچکا ہے۔ سیاست میں ہم صدور اور وزرائے اعظم کا انتخاب صرف میڈیا میں اُن کی تصویری ترجمانی پر کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی دنیا میں حالاتِ حاضرہ ہمارے سامنے زیادہ سے زیادہ سنسنی خیز تصویری پیکیج کی صورت لائے جاتے ہیں۔ درحقیقت نیوز میکنگ نیوز رپورٹنگ کی جگہ لے رہی ہے۔ معیشت کی سطح پر یہ بات دستاویزی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے کہ صارف معاشرہ، خاص طور پر موجودہ بعد از صنعتی دور، مادی پیداوار محض ”چھپ کر ترغیب دینے والوں کی مٹھی میں ہے“ کہ جو نئے تصویری برانڈز کی تشہیر کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ معاشرے کی سطح پر ہم دیکھتے ہیں کہ تصویر بڑے کروفر سے حقیقت کی جگہ لے رہی ہے، جیسا کہ روزمرہ کی ڈرامائی اور اشتہاری صورت گری میں نمایاں ہے۔

فنی ثقافت کی سطح پر یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ تصویریں اُن حقیقتوں کی جگہ لے رہی ہیں جو روایتی طور پر ہمیشہ معانی منعکس کرتی رہی ہیں۔ حقیقت اور تخیل میں فرق تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ اس صورت حال نے عصری فنون میں شدید بحران پیدا کردیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ادبی تحریریں اب سوالیہ نشان بن چکی ہیں۔ حقیقت اور فکشن میں روایتی تعلق ٹوٹتا محسوس ہورہا ہے۔ اسی طرح فلمیں بھی ذرائع ابلاغ کی صناعی اور نام نہاد روزمرہ تجربات کا ملغوبہ ”حقیقت“ بناکر پیش کررہی ہیں۔ پلاسٹک فنی نمونے بھی ڈرامائی طور پر ہنر اور ہنرمندی میں فرق مٹارہے ہیں۔ آرٹ ”آرٹ دشمنی“ بن چکا ہے۔ اعلیٰ ثقافت اور عوامی ثقافت میں فاصلہ مٹ چکا ہے۔ ماس میڈیا تصویر نے اصل فن پارے کا مقدس تصور مجروح کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم فن پاروں کو ”کمرشل تصویروں“ میں ڈھلتا دیکھ رہے ہیں۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اصل ہنر مضحکہ خیز نقل میں ڈھل چکا ہے۔

تہذیبِ حاضر کی ایک بہت ہی عجیب بات یہ ہے کہ آدمی کے تخلیقی تصور کی عظمت خطرے میں لگ رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب ہم نہیں جانتے کہ کون یہ تصویری ثقافت تشکیل دے رہا ہے اور اسے فروغ دے رہا ہے، کہ جو ہماری شعور سازی کررہا ہے۔

ہم ایک ایسی بند گلی میں ہیں جہاں حقیقت اور تصور الٹ پلٹ ہوچکے ہیں، بلکہ تہ وبالا ہوچکے ہیں۔ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کون سا، کون سا ہے۔ یہ فیصلہ نہ کرسکنے کی حالت اس شک کو گہرا کرتی ہے کہ شاید ہم ”بعد از تصور تہذیب سازی“ میں معاون بن چکے ہیں۔

”تہذیب تصور“ حالتِ مرگ میں ہے اور یہی وہم واضح طور پر مابعد جدید ذہن پر سوار ہے۔ مابعد جدیدیت جدیدیت کے اس یقین کو کمزور کرتا ہے کہ تصور اظہار کا مستند ذریعہ ہے۔ مابعد جدیدیت کا عام طور پر جو تصور ”تصور“‘ ہے، وہ اپنا مصنوعی پن خود ظاہر کرتا ہے، اپنی بناوٹی ساکھ اور اتھلا پن خود دکھاتا ہے۔ جیسا کہ اینڈی وارہول کی یہ بڑھک کہ اگر پکاسو جیسا مصور ساری زندگی میں چار ہزار فن پارے تخلیق کرسکتا ہے، تو وہ یہی کام ایک دن میں کرکے دکھا سکتا ہے۔ پاپ آرٹ کا پوپ اینڈی وارہول اس خیال کو رد کرتا ہے کہ کسی آرٹ کی اصل تخلیق خاص زمان و مکان سے مخصوص ہوتی ہے، عدیم المثال ہوتی ہے۔ وہ یہ کہہ کر مابعد جدیدتصور ”تصور“ کی وضاحت کرتا ہے کہ ”تصور“ اب میکانیکی طور پر قابلِ نقل شے بن چکا ہے۔ یہ اُس عالمی ابلاغی نظام کا حصہ بن چکا ہے کہ جو بین البراعظمی سطح پر ایک ہی وقت میں ایک ہی طرز پرنقل و اشاعت سے گزر سکتا ہے۔

مابعد جدید فن کار بخوبی جانتے ہیں کہ گرافک انقلاب سے انسانی شعور میں بڑی انقلابی توڑ پھوڑ ہوئی ہے۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ڈرائی پلیٹ فوٹو گرافی کی دریافتیں، الیکٹرانک پرنٹنگ، رول فلم، ٹیلی فون، اور فونو گراف نمایاں مثالیں ہیں۔ چالیس کی دہائی کے بعد ٹیلی وژن کا تیزی سے امریکہ اور دنیا میں پھیلاؤ ایک ایسا ثقافتی مظہر ہے جس نے نصف ارب انسانوں کو1986ء کا ورلڈ کپ بہ یک جنبش بہ یک وقت دکھایا۔ ٹیکنالوجیکل تصویر کی آمد نے یہ اشاہ دیا کہ اب ہم پروڈکشن سے ری پروڈکشن کے دور میں منتقل ہوچکے ہیں۔ مابعد جدید ثقافت میں، صنعتی مصنوعات بعد از صنعتی ابلاغیات کے زیر نگیں آگئیں۔ وڈیو ریکارڈر، کمپیوٹر اسکرین، اور پرنٹ آؤٹ سے لیس مابعد جدید ذہن دن بہ دن آرٹ کی بے مثل اور منفرد حیثیت فراموش کرتا جارہا ہے۔ اب کوئی مخصوص فرد اپنی ہی تصویروں کا بنانے والا یا منفرد فن کار نہیں سمجھا جارہا۔ اب یہ خیال عام حقیقت ہے کہ جو تصویریں ہمارے پاس ہیں، اُن کی نقل ہم سے بھی پہلے کسی کی ملکیت بن چکی ہیں۔ مابعد جدیدیت کی ”تصویر“ قابلِ تبادلہ صنعت بن چکی ہے کہ جو اُس کی بناوٹی حیثیت اور سطحیت کی پذیرائی کرتی ہے۔

بہت سے مابعد جدید کاموں میں مصوری اور مصنوعی تصویر کا فرق مٹادیا گیا ہے۔ مضحکہ خیز نقل اور فنِ لطیفہ کی سرگرمی، جبکہ یہ عصری سرمایہ دار سماج میں ”تہذیب تصور“ تہ و بالا کررہی ہے، قبول کی جارہی ہے یا کم سے کم ایک انتخاب کی صورت اختیار کررہی ہے۔ تصویر کی نقل اور تصور کی مصنوعی ترجمانی ہمارے ”عہدِ صارف“ میں رائج ہے۔ فریڈرک جیمسن (Frederic Jameson) نے ما بعد جدیدیت کی علامات کی صورت میں چار تاریخی نقصانات گنوائے ہیں: موضوعی داخلیت (خودی، خیال کی گہرائی) اور حوالہ جاتی گہرائی بے وقعت کردی، تاریخ ساز ادوار کی عظمت معطل کردی، اوراجتماعی انسانی اظہار بے ساکھ بنادیا۔ مابعد جدید آرٹسٹ کسی بھی اظہار کا کوئی دعویٰ نہیں کرتا کیونکہ وہ یہ دعویٰ ہی نہیں کرتا کہ اُس کے پاس اظہار کے لیے کچھ ہے بھی۔ اینڈی وارہول کہتا ہے کہ ”جب میں آئینے میں دیکھتا ہوں مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔ لوگ مجھے ایک آئینہ کہتے ہیں، اور اگر ایک آئینہ ایک اور آئینے میں خود کو دیکھے تو وہ کیا دیکھے گا؟“ ایک دوسرے پر منعکس ہوتے آئینوں کا یہ لامتناہی سلسلہ ایک استعارہ ہے۔ یہ مابعد جدید تہذیب کا اسلوبِ استدلال ہے۔ اور اس منطق کے اثرات کسی طور بھی کسی تجرباتی خیال کی تصویر یا متن تک محدود نہیں۔ اس کی گونج خواص اور عوامی ثقافت میں برابر سنائی دیتی ہے، دونوں جانب یہ یکساں طور پرحرکت میں رہتی ہے۔

مابعد جدید کے اکثر طور طریقے جدیدیت کے اس نمایاں معیار کی درستی پر انگشت نمائی کریں گے۔ ایک مبصر یہ صورت حال یوں بیان کرتا ہے: بے تکی موسیقی، ہیئتی شاعری، کمپیوٹر مصرع، الیکٹرونک رقص، گوریلا تھیٹر، منفعل بت سازی، خود تلف میڈیا، فطرت کا طے شدہ مظہر، بھیانک نظارہ، خالی کینوس، اور سادہ واقعات.. اینٹی آرٹ کی نئی اقسام کے انداز وغیرہ۔

یہ تحریکیں اس بنیادی جذبے میں ایک ہیں جو اعلیٰ جدیدیت کی بناوٹوں کی تصریح کررہا ہے۔ خودمختار مصنف، بیانیہ کی ترتیب، اور مابعد الطبیعاتی گہرائی کی مبینہ مبالغہ آرائی نشانہ تنقید ہیں۔ مابعد جدید مفکرین انسانی تخیل کے تقدس پر پھٹ پڑتے ہیں اور بڑے فرط و انبساط سے ”آرٹ کے اختتام“ کا اعلان کرتے ہیں۔ مابعد جدید مفکرین جدید مثالیت اور تصوریت کی قبر پر محوِ رقص ہیں۔ مابعد جدید ثقافت تمام اصل تخلیقات کی اہمیت سے یکسر انکاری ہے۔ یہ پُرزور انداز میں کہتے ہیں کہ ہرسو خود تلف تصورات ہیں، جولامحدود آئینوں کی مانند باہم تعامل اور اثرو نفوذ میں رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے نقل کی روایت نہ صرف لوٹ آئی ہو بلکہ جیسے بڑے غضب میں بھی ہو۔ یہ ماورائے ادراک تصوراتی حقیقت پیش نہیں کرتی، جیسا کہ روایت رہی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت کہ طور پر نقاب اٹھاتی ہے جو محض نظر کا دھوکا ہے۔ پہیہ پوری طرح گھوم چکا ہے۔ مگر مابعد جدید کا طریقہِ تحقیق کا یہ آئینہ نہ خارجی دنیا منعکس کرتا ہے اور نہ داخلی موضوعیت کی دنیا کو موضوع بناتا ہے، یہ صرف خود کو منعکس کرتا ہے: آئینہ در آئینہ در آئینہ۔ یہ بے رنگ یکساں پیداوار کا تسلسل ہے، جس کی بظاہر کوئی حد نہیں۔ لایعنی بے معنی سلسلہ غیر مختتم ہے۔ جیسے لاکھوں ٹی وی اسکرینز یا اور کوئی بھی ڈیوائس امیجز کا یکساں منظر در منظر در منظر ہو: مابعد جدید تصور نقل کا ایسا سلسلہ ہے جس کی کوئی ابتدا، کوئی انتہا نہیں۔

تہذیب تصور کی یہ داستان سنائے جانے کی ضرورت ہے۔ جس طرح دیگر ساری انواع فنا کے خطرے سے دوچار ہیں، تاریخ تصور کا شجرہ نسب جاننا ازحد ضروری ہے۔ اس کی اصل اور پھر ٹوٹ پھوٹ ریکارڈ پر لانا ضروری ہے۔ بیشتر معاصرین تہذیب تصور کی ”موت“ کا تذکرہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ چند اسے نئی ثقافت کا مظہر قرار دے رہے ہیں۔ دیگر اس کے کشفی مضمرات سے حظ اٹھاتے ہیں۔ کچھ کا یہ خیال بھی ہے کہ یہ تاریخی مکالمے پر گزرنے والا ناگزیر مرحلہ ہے۔ تاہم اس طرح کے ردعمل مخصوص حلقوں میں یہ یقین پروان چڑھا رہے ہیں کہ تصور کی خلاّقی جہت کا بنیادی خیال جلد ماضی کی بات بننے والا ہے۔ ہم بظاہر مابعد جدید تہذیب کے دور میں داخل ہورہے ہیں، کہ جس میں تصور کسی فردِ واحد کا اظہار کم سے کم اور نامعلوم صارف کی ٹیکنالوجی کا مالِ تجارت زیادہ بن چکا ہے۔ یا یہ کہ یہ رائے رائج ہی ہوچکی ہے۔ ہمارے اس کام کا ہدف اُن اسباب تک پہنچنے کی سعی ہے جو مابعد جدیدیت کا یہ رجحان عام کررہے ہیں، اور یہ جاننا کہ ”تہذیب تصور“ کے باب میں مغربی خیالات کی اصل کیا ہے، اور پھر آخر میں یہ سوال اٹھانا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ آدمی کے خلاّقی ”تصور“ کا تحفظ کیا جاسکتا ہے؟ اور اسے تیزی سے پھیلتے مابعد جدید سماج میں ازسرنو زندہ کیا جاسکتا ہے؟