خواتین کی فیاضی کا جب ذکر آئے گا تو مکہ مکرمہ میں ملکہ زبیدہؒ زوجہ ہارون الرشید جن کی کوششوں سے عین زبیدہ جاری و ساری ہوئی۔ دوسری معروف درس گاہ کہ جس سے صولتؒ النساء بیگم کی اعانت سے مسلمانانِ عالم فیضیاب ہوئے۔ صولت النساء بیگم بھسیلہ (کلکتہ) میں 1832ء میں پیدا ہوئیں اور 1874ء/1873ء میں اپنے اعزہ کے ہمراہ حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ پہنچیں۔ ہر نیک انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس مقدس سرزمین یعنی مکہ معظمہ میںکوئی ایسا کام کرجائے جس کا سلسلہ رہتی دنیا تک قائم رہے، یعنی صدقۂ جاریہ رہے۔ یہی آرزو صولت النساء بیگم بھی لے کر آئی تھیں۔ ارادہ تو اُن کا زائرین کے لیے سرائے کی تعمیر کا تھا لیکن ہندوستان سے مکہ معظمہ ہجرت کیے ہوئے مولانا رحمت اللہ کیرانوی سے جب ملاقات ہوئی تو انہوں نے دینی مدرسے کی تعمیر پر زور دیا، اس لیے کہ مکہ مکرمہ میں پہلے ہی کئی سرائے (رباط) موجود تھیں۔
محترمہ، مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے مناظروں اور دینی، ملّی، علمی اور قومی خدمات سے ہندوستان کے لوگوں کی طرح پہلے ہی سے واقف تھیں، لہٰذا محترمہ نے مولانا صاحب کے مشورے کو سراہتے ہوئے اطمینان کا سانس لیا اور مدرسے کے لیے زمین خریدنے کے بارے میں گفتگو کی۔ دریں اثنا پرانے محلہ خندریسہ (حالیہ، الشبیکہ/ حارۃ الباب) میں زمین خرید کر تعمیر شروع کردی گئی۔
تعمیر کے دوران وہ خود بھی آتی رہیں۔ 1291ھ (1874ء) میں مدرسے کی عمارت تعمیر ہوئی۔ مدرسے کا نام صولت النساء بیگم کی مناسبت سے رکھا گیا۔
مدرسے کی تعمیر کے وقت نہر زبیدہ مکہ مکرمہ میں ہر جگہ پھیلی نہ تھی، اس لیے پانی کی قلت تھی۔ مدرسے میں بھی پانی جمع کرنے کے لیے کوئی ٹینک نہیں بن سکا تھا۔ محترمہ نے اپنی روانگی کی شب خواب دیکھا کہ جنت الفردوس میں ان کے لیے بڑا عالی شان مکان ملا ہے لیکن اس میں پانی رکھنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے صبح ہوتے ہی مولانا سے ملاقات کرکے مدرسے میں پانی کے ٹینک بنانے کے لیے مزید رقم عطا کی۔
مدرسہ صولتیہ کی عمارتیں ایسی جگہ واقع ہیں جن کی تاریخ پڑھ کر عبرت حاصل ہوتی ہے کہ اللہ کے نیک بندے مولانا رحمت اللہ عثمانی کیرانوی اور صولت النساء بیگم نے ایسا مخلصانہ قدم اٹھایا کہ ان مقامات کی کایا ہی پلٹ ہوگئی۔
کہا جاتا ہے کہ ایام جاہلیت میں اس جگہ پرانی شراب کی بھٹیاں تھیں۔ اعلیٰ قسم کی تند و تیز شراب کے عادی اور پینے والے تلاش میں یہاں پہنچتے تھے۔ مے خانے آباد تھے اور جھومتے جھامتے مخموروں سے اس جگہ کی رونق تھی۔ عربی میں پرانی شراب کا نام خندریس ہے۔ اسی لیے ایامِ جاہلیت سے اس محلے کو خندریسہ کہا جاتا ہے، جہاں اب علوم و معارف کی دو آتشہ اور سہ آتشہ شراب پلائی جاتی ہے۔ اب ہاتھوں میں بجائے ساغر و مینا کے کتاب ہے اور لوگ اپنی علمی پیاس بجھانے یہاں آتے ہیں۔ جہاں بدمست و بے خود سیاہ کار نظر آتے تھے اب وہاں مہاجرینِ حرم کے معصوم بچے، دنیائے اسلام کے شائقینِ علم درسِ قرآن و حدیث میں مشغول ہیں۔
مدرسہ ان تاریخی یادگاروں کے درمیان واقع ہے جن میں ایک طرف جبل کعبہ، وہ مقدس پہاڑ ہے کہ جس کے پتھروں سے کعبۂ مشرفہ کی دیواریں بنیں (یہ ایک قول ہے)، دوسرا جبل عمرؓ، جس پر خلیفہ ثانی عمر بن خطابؓ نے اسلام لانے کے بعد کفرستان میں علی الاعلان وحدہٗ لاشریک کے نام کی منادی دی۔ مدرسے کے بورڈنگ کی جانب وہ قطعہ زمین ہے جسے رسول مقبولﷺ نے اس وقت مسلمانوں کے لیے اپنے ذاتی سرمائے سے خرید فرماکر قبرستان کے لیے وقف فرما دیا تھا اور اسی قبرستان میں اسلام کی پہلی شہید حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا مدفون ہیں۔
مدرسے میں مختلف قومیتوں پاکستان، ہند، بنگلادیش، انڈونیشیا، سوڈان وغیرہ کے طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ مدرسہ ان بنیادی اصولوں پر کاربند ہے:
1۔ مقامی یا کسی بیرونی حکومت سے کوئی دوامی امداد قبول نہ کی جائے۔
2۔ مدرسے کے لیے کوئی مستقل سرمایہ فراہم نہ کیا جائے اور اس کو عام عطیات سے چلایا جائے۔
3۔ مدرسے کے فارغ التحصیل طلبہ اپنے تعلق کے اظہار کے لیے اپنے نام کے ساتھ کوئی نسبتی لفظ استعمال نہ کریں۔
4۔ مدرسے کے ذمے دار اور علما و مدرسین ہمیشہ مختلف فقیہ مسائل، اختلافات سے دور رہیں، اسی طرح سیاست والے امور سے کلی طور پر احتراز کریں۔
الحمدللہ یہ مدرسہ مستقل ترقی پذیر رہا۔ اس کے قیام کے بعد بہت سے علمِ دین کے پیاسے اس مدرسیہ سے فیضیاب ہوئے۔
1۔ شریفؒ حسین بن علی (سابق امیر مکہ و بانی حکومتِ ہاشمیہ)
2۔ شیخ احمد عبداللہ مروادؒ (شیخ الائمہ و الخطبا مسجد حرم مکی شریف)
3۔ شیخ عبدالرحمن سراجؒ (احناف و شیخ العلما مکہ معظمہ)
آج سے اسّی سال قبل فنِ تجوید و قرأت پر بہت کم توجہ دی جاتی تھی، لیکن مدرسے نے اس ضرورت کا بھی احساس کیا اور یہاں سے قرأت و تجوید کا جو سلسلہ پھیلا، اس کا ذکر متعدد اصحابِ قلم نے بھی کیا ہے کہ قاری عبدالمالک اور قاری عبدالخالق صاحبان نے صولتیہ میں قاری عبداللہ سے علم قرآن حاصل کرکے پاک و ہند میں اس کی جو خدمات ادا کی ہیں، اس کے اکثر و بیشتر حضرات کا سلسلۂ قرأت انھی حضرات سے ملتا ہے۔ معروف ہستیوں میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒنے بھی تقریباً چھ ماہ یہاں قیام فرما کر قرأت و تجوید سیکھی۔ اس مدرسے
کی خصوصیتوں میں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒنے تقریباً آٹھ سال اسی مدرسے میں تدریسی خدمات انجام دیں۔
اس دینی درس گاہ کی 134 سالہ تاریخ میں بانی منتظم شیخ رحمتؒ اللہ عثمانی کیرانوی کے بعد شیخ محمد سعیدؒ، شیخ محمد سلیمؒ، شیخ محمد مسعودؒ مدرسہ کے منتظم اعلیٰ رہے، اورماضیِ قریب میں شیخ ماجدؒ سعید بن مسعود 1992 ء سے 2021ء تک منتظم اعلیٰ رہے۔ اس گھرانے کے دو ہی محور نظر آتے رہے، ایک دینی تعلیم، دوسرے اللہ کے مہمانوں کی خدمت۔
یہ گھرانہ اب تک عربی کے ساتھ بڑی سلیس اور اچھی اردو بولتا ہے۔ ان کو دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوتی ہے کہ سرزمینِ عرب میں رہ کر اپنے آبائی ثقافتی تعلق کو خیرباد نہیں کہا۔ یہ خاندان پُرکشش، پُرخلوص، بااخلاق اور سب لوگوں کے حتی الامکان کام آنے والے خاندان ہے۔ حجاج کرام ہوں، زائرین یا مقیمین ہوں، سب کی حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔ مدرسے کی خدمات میں اضافی خدمات حجاج و زائرین کے دینی مسائل، امانتیں، حج بدل، قربانیاں اور ڈاک کے معاملات کو خوش اسلوبی سے انجام دینا بھی اپنے فرائض سمجھتے رہے۔
مدرسہ صولتیہ حرم مکی شریف سے پیدل کی مسافت پر تھا جس کی وجہ سے برصغیر کے زائرین کو بہت سہولت تھی، لیکن حرم مکی شریف کے علاقے کے لازمی توسیعی منصوبے کے باعث 2008ء میں مدرسہ صولتیہ کی عمارتیں بھی انہدام کا شکار ہوگئیں جس کے بعد انتظامیہ نے مدرسہ صولتیہ کو حرم شریف سے تقریباً دس کلومیٹر پر ایک عمارت میں منتقل کردیا تھا، لیکن بعد ازاں شیخ ماجد کے انتقال اورکچھ مقامی قوانین کے باعث اب مدرسہ حکومتی تحویل میں جاچکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا رحمتؒ اللہ کیرانوی کا مختصر تعارف ٭ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مولانا نے انگریزوں کے مسلمانوں پر لامتناہی ظلم و تشدد کے ماحول کے باعث مکہ مکرمہ سفر کا مصمّّم ارادہ کرلیا۔ مولانا مکہ مکرمہ طویل عرصے (تقریباً 2 سال) کے پُرمشقت سفر کے بعد ہجرت کرکے پہنچ پائے تھے۔ علمائے کرام مولانا رحمتؒ اللہ کیرانوی کی خدمات کے بڑے معترف ہیں۔ انہوں نے مدرسے کی تاسیس کے علاوہ کئی لاثانی کتب ردِّ نصاریٰ کے سلسلے میں تحریر کی تھیں۔ فارسی میں ازالۃ الادھام، اردو میں ازالۃ الشکوک اور عربی میں معرکۃ الآرا کتاب ’’ اظہار الحق‘‘ تحر یر فرمائیں، جن کے انگریزی، فرانسیسی، ترکی، جرمنی اور گجراتی زبانوں میں ترجمے ہوئے۔
بقول مشہو مناظر جناب احمدؒ دیدات کے وہ اس کتاب کو پڑھ کر ہی ساری دنیا میں ردِّ عیسائیت اور اسلامی دفاع کے کام کرنے کے قابل ہوئے۔ اس کے بعد اظہار الحق کا اردو ترجمہ ’’بائبل سے قرآن تک‘‘ کی صورت میں سابق جج وفاقی شریعت کورٹ جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی کے ہاتھوں ہوا اور اس کتاب نے بڑی شہرت پائی۔
مولانا رحمت اللہ جن کا پورا نام مولانا رحمت اللہ بن خلیل الرحمن عثمانی کیرانوی تھا، 2 رمضان 1308ھ کو وفات پاگئے اور اُم المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ بنتِ خویلہ کے جوار میں مدفون ہوئے۔