جنرل عاصم منیر کا کنٹرول لائن سے پہلا سندیسہ

نئے فوجی سربراہ بھارت کے دفاعی تجزیہ نگار کے مشورے

آرمی چیف جنرل سید حافظ عاصم منیر نے اپنی پہلی باضابطہ سرگرمی کے لیے کشمیر کی کنٹرول لائن کو چُنا، جہاں انہوں نے اگلے مورچوں کا دورہ کرنے کے بعد جوانوں سے گفتگو بھی کی۔ ان کی باتیں دوٹوک اور کسی لگی لپٹی کے بغیر تھیں۔ جنرل عاصم منیر نے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان حاصل کرنے کے بھارتی جرنیلوں کے بیانات پر بھرپور گرفت کی اور کہا کہ فوج عوام کی مدد سے مادرِ وطن کے ایک ایک انچ کا دفاع کرے گی اور اگر دشمن نے جارحیت کی تو اُس کو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ ان کی گفتگو کا یہ حصہ پاکستان کے زیر انتظام تمام علاقوں کے ہر قیمت پر دفاع کے عزم پر مشتمل تھا۔ مگر بات دفاع تک ہی نہیں رہی، انہوں نے آگے بڑھ کر کشمیر کے اُس حصے کی بات بھی کی جس پر بھارت کا قبضہ ہے، اور کہا کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل ہونا چاہیے۔ گفتگو کے اس حصے سے عیاں تھا کہ پاکستان صرف آزادکشمیر کے دفاع پر اکتفا کیے بیٹھا نہیں رہے گا بلکہ مقبوضہ علاقوں کے حق کی بات بھی کرتا رہے گا۔

افواجِ پاکستان میں قیادت کی حالیہ تبدیلی کے بعد ملک کے اندر اور باہر سب نظریں نئی قیادت پر مرکوز تھیں۔ ابتدائی چند دن ان کی باڈی لینگویج کا مشاہدہ کرکے آنے والے دنوں اور پالیسیوں کا جائزہ لیا گیا اور زائچہ بنایا جاتا رہا، مگر اب ان کی کسی ابہام سے عاری اور دوٹوک لینگویج بھی پوری طرح سامنے آگئی ہے، اور اب مستقبل کی صورت گری زیادہ آسان ہوگئی ہے۔ جنرل عاصم منیر کے دورے کا پہلا انتخاب اور مقام کا تعین اور چند جملوں کا پیغام اپنے اندر گہری معنویت رکھتا ہے۔ کچھ عرصے سے بھارتی جرنیل پاکستان کو پیغام دینے لگے تھے کہ سری نگر کو بھول کر مظفرآباد اور گلگت بلتستان کی فکر کرو۔ یہ پیغام بھی دیا جارہا تھا کہ اگر پاکستان نے کشمیر کا ذکر بند نہ کیا تو بھارت اسے مزید پیچھے دھکیلنے کے لیے آزادکشمیر بھی حاصل کرلے گا۔ بھارتی جرنیل آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو بار بار موضوعِ بحث بناکر ایک نفسیاتی برتری کا ماحول بنا رہے تھے۔ ایسے میں جنرل عاصم منیر نے کنٹرول لائن پر کھڑے ہوکر بھارت کو بھرپور اور معنی خیز پیغام دے کر بتادیا کہ بھارتی جرنیلوں کو ایک بدلے ہوئے ماحول اور منظر کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جنرل عاصم منیر کی تقرری سے پہلے ہی شاید بھارت کا رونا دھونا بے جا نہیں تھا۔ افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کی آمد پر بھارت پر ایک سکتہ طاری ہے۔ انہیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس تبدیلی پر کیا ردعمل ظاہر کریں۔ ایسے میں بھارت کے معروف دفاعی تجزیہ نگار، مصنف اور ”دی فورس“ میگزین کے سابق ایڈیٹر پروین ساہنی نے ٹویٹر کے ذریعے جنرل عاصم منیر کو چھ مشورے دیے ہیں۔ ان میں کچھ مشوروں کا تعلق پاکستان اور بھارت کے تعلقات سے ہے، اور کچھ کا پاکستان اور چین کے تعلقات سے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے تو اُن کا مشورہ قابل فہم ہے کہ ایک بھارتی کے طور پر انہیں اپنے ملک کے لیے بہتر ہی سوچنا ہے، مگر پاکستان اور چین کے حوالے سے مشورے خاصے دلچسپ ہیں۔ بھارتی صحافی نے جنرل عاصم منیر کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں کنٹرول لائن پر سیزفائر کو بحال رکھنا چاہیے، اپنے پیش رو جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرح پرویزمشرف کے چار نکاتی فارمولے کے تحت بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے کی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں، چین کی پیپلزلبریشن آرمی کے ساتھ اپنی مشقوں کے سلسلے کو بڑھانا چاہیے، سائبر ڈومین پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے، سی پیک کو ترجیح دیے رکھنی چاہیے، بھارتی جرنیلوں کی طرح اشتعال انگیز بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔

پروین ساہنی بھارت میں کسی حد تک پرو چائنا سمجھے جاتے ہیں، اس لیے پاکستان کی نئی فوجی قیادت کو چین کے ساتھ معاملات مزید بہتر بنانے کی بات قابلِ فہم ہے۔ جنرل عاصم منیر اپنے ایک تہذیبی اور ثقافتی پس منظر کے حامل ہیں اور یہ ان کے ایجنڈے کا حصہ رہے گا۔ اس کی چھاپ ان کے فیصلوں اور پالیسیوں میں منعکس ہوتی رہنی چاہیے۔ بڑا فیصلہ کرنے کی ہلہ شیری، ایشیا کا مردِ آہن بننے کا جھانسہ، اُردن کے شاہ حسین اور فلسطین کے یاسر عرفات کی طرح نوبیل پیس پرائز کا لالچ دے کر امریکہ نے پاکستان کے کئی سیاسی اور فوجی حکمرانوں کو اپنے حلقہ اثر میں اجنبی اور متنازع بنانے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ بھارت کی قیادت اس مغالطے میں ہے کہ اس خطے میں امن بھارت کی شرائط پر قائم ہونا ہے، اور بھارت کے زاویہ نگاہ میں کشمیر اُس کا اٹوٹ انگ ہے۔ اس طرح بھارت کے ساتھ امن میں کشمیر کی کہانی کو بھول جانا بنیادی تقاضا اور مطالبہ ہے۔ حافظ سید عاصم منیر کشمیر کی ہوائوں کے رخ اور جذبات کے دھارے کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ پوٹھوہار اور کشمیر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لال کڑتی کے علاقے میں جہاں عہدِ ماضی کے فاسٹ بولر کا گھر ہے دائیں بائیں لاتعداد گھر مہاجر کشمیریوں کے ہیں جو تنازع کشمیر کا حصہ ہیں۔ ان کے آبائی قبرستان میں سجے بے شمار کتبوں پر ”مہاجرِ کشمیر“ اور ”مہاجرِ جموں“ کی تحریر ایک تاریخی تنازعے کے بطن سے جنم لینے والی دکھ بھری کہانی کی یادگار ہے۔ اس لیے بھارتی کیا سوچتے اور کیا مشورے دیتے ہیں اس بات کی اہمیت نہیں۔ کشمیر کی ہوائوں کا شناور جس کے سینے میں قرآن روشن ہے، کسی نوبیل پرائز کے سراب کے پیچھے نہیں بھاگے گا بلکہ وہ پورے قد سے اپنی مٹی اور اپنے قدموں پر کھڑا رہے گا۔ امن، آشتی، دوستی، تجارت ہر شے بجا… مگر اپنی شرائط، مفاد اور تاریخ کا ورثہ سنبھالنا اس سے بھی بڑی ضرورت ہے۔