اہلِ سندھ، پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے بے حد حساس واقع ہوئے ہیں۔ زیر نظر کالم کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ کاوش حیدرآباد میں بروز جمعۃ المبارک 9 دسمبر 2022ء کو شائع ہوا ہے، جس میں ممتاز کالم نگار سجاد ظہیر نے اسی حوالے سے خامہ فرسائی کی ہے، جس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیشِ خدمت ہے، تاکہ اہلِ وطن سندھ کے ایک صاحبِ دانش و بینش کی سوچ اور فکر سے آگہی حاصل کرسکیں۔ کالم نگار کی تحریر سے مترجم یا ادارے کا کامل اتفاق ضروری نہیں ہے۔
’’پاکستان اپنے وجود کے 75 سال پورے کرچکا ہے، لیکن آج بھی اس ملک کے حقیقی باشندے خود کو لاوارث سمجھتے ہیں۔ ایک طویل اجنبیت جو اس 75 برس کے عرصے میں گھٹنے کے بجائے بڑھتی رہی ہے۔ اس خطے کی ہزارہا برس قدیم تہذیبوں کی حامل اقوام اور اُن کے افراد آج بھی اپنے آپ کو بچانے میں مصروف ہیں۔ خطے کی قدیم اقوام کو یہ خوف لاحق ہے کہ اُن کا وجود خطرے کی زد میں ہے اور یہ خوف 75 برس میں کوئی بھی حکومت ختم نہیں کرپائی ہے۔ جب بھی کوئی ایسا منصوبہ پیش، یا کمیٹی قائم کی جاتی ہے جس میں اصل علاقوں کو تقسیم کرنے یا بانٹنے کا ایجنڈا شامل ہوتا ہے تو یہاں کے حقیقی باشندوں کو اپنے سارے دکھ اور درد پھر سے یاد آجاتے ہیں۔ اس وقت وفاق کی جانب سے نئے صوبوں کے حوالے سے آئین میں امکانی ترمیم کے بارے میں سید خورشید شاہ کی سربراہی میں 7 رکنی کمیٹی کی تشکیل کے اعلان کے بعد گویا کہ اصلی باشندوں کا کلیجہ حلق میں آگیا ہے۔ دیکھا جائے تو نئے صوبوں کے حوالے سے ایسے خطوں کا حق ضرور ہوتا ہے جو زبان، زمین اور ثقافت کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ جبکہ صرف کسی ایک ہی ثقافت پر یہ اعلان یا ایسی کمیٹی گویا کسی ڈرون حملے کی طرح محسوس ہوتی ہے جس کے خلاف لوگوں کا ردعمل فطری بن جاتا ہے۔ یہ حکومت جو خود اتحادی جماعتوں کی بیساکھی پر کھڑی ہوئی ہے، اِس حکومت میں اس طرح کا ایجنڈا محض چھوٹے صوبوں میں اجنبیت کو ہی بڑھاوا دے گا۔ ہماری سیاست میں سرائیکی خطے کا سوال ایک مضبوط دلیل ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی سندھ میں سندھ کے حوالے سے اس طرح کا کوئی مؤقف عوام دشمن ہونے کے علاوہ اصل باشندوں کے وجود کے خلاف ایک بڑا حملہ ہے۔ آئین میں امکانی ترمیم کے بارے میں قائم کردہ کمیٹی کا اُن لوگوں نے بھی خیرمقدم کیا ہے جن کی دلیل تاریخی طور پر کمزور ہے۔ کیوں کہ محض زبان یا لہجے کی بنیادوں پر کسی بھی خطے کو نہیں توڑا جاسکتا۔ پاکستان میں اصل اقوام کی غیریت اور اجنبیت کے حوالے سے ایک مضبوط قومی سوال موجود ہے جو تاریخی طور پر وسائل سے دور ہونے والی اجنبیت کی ایک بڑی واضح دلیل ہے۔ نئے صوبوں کا شوشا اور اس ملک میں اقوام کا سوال جو اس فیڈریشن میں اپنی قوت کے ساتھ موجود ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تاریخی طور پر جائزہ لیا جائے تو پاکستان ایک کثیرالقومی ملک ہے، اور یہ قراردادِ پاکستان میں بھی واضح طور پر درج ہے۔ پھر یہ سوال ابھرتا ہے کہ جہاں مختلف اقوام صدیوں سے اپنی اپنی دھرتی پر رہتی ہوں، قدیم قوموں کے خطے اور ہزاروں سال پر محیط تہذیب کو75 برس کے مختصر عرصے میں کس طرح سے دبایا جاسکتا ہے؟ کسی بھی قوم کو کہا جائے کہ آپ اپنی قدیم شناخت کو ختم کرکے خود کو حصوں میں منقسم کرلیں، اس بات کو ظاہر ہے کہ ایک انہونی ہی گردانا جائے گا، جس پر سوال اٹھانا قدیم خطے کے افراد کا فطری حق ہے۔ یہ ملک جس میں مختلف اقوام ایک فیڈریشن کے طور پر شامل ہیں، ان سب اقوام کا رہن سہن، زبانیں، ریتیں، رسمیں اور زندگی گزارنے کے طور اطوار بھی اپنے اپنے ہیں۔ یہاں پر عرصہ 75 سال سے ان خطوں کے لوگوں کو اپنی خود مختاری کا حق بھی نہیں مل سکا ہے اور اِس دورِ جدید میں بھی یہ قدیم تہذیبیں مسائل کی ایسی دلدل میں پھنسی ہوئی ہیں کہ ایک چھوٹا قدرتی یا ماحولیاتی جھٹکا بھی انہیں زمین بوس کر ڈالتا ہے جس کی تازہ مثال امسال آنے والے سیلاب کی تباہی ہے۔ یہاں پر ایسے غیر جمہوری افراد کی حکومت رہی ہے جنہوں نے ہمیشہ عوام دوست جمہوری قوتوں کو کمزور بناکر اپنے استحصال سے اصلی باشندوں کے حقوق کو سلب کیا ہے۔ اقوام کے وہ حقوق جو آئین میں تو درج ہوں لیکن پھر بھی انہیں نہ ملیں تو اس صورت میں قوم کے افراد میں اجنبیت یا غیرت کا جنم لینا اور اس پر اپنے خوف اور خدشات کا اظہار کرنا عین فطری امر ہے۔
بنیادی طور پر یہاں سرائیکی سوال کو نظرانداز کرنے کے لیے کچھ حلقے غیر ضروری سوالات کو اہمیت دے کر صوبہ سندھ کے وجود پر حملہ کرتے ہیں، جبکہ ان قوتوں کو بھی محض اپنے سیاسی مفادات کو ہی کیش کرانا مطلوب ہوتا ہے، جس کے لیے وہ ان غیر ضروری سوالات کو بنیاد بناتی ہیں۔ درحقیقت ان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی حکومت میں اصل قومیں بہت زیادہ بھگت رہی ہیں۔ ان کا کوئی بہت بڑا مطالبہ بھی نہیں ہے بلکہ انہیں تو صرف اپنے حصے کے حقوق ہی درکار ہیں۔ ہمارے حکمران تو صوبوں کو توڑنے اور انہیں تقسیم کرنے کے لیے کمیٹیاں کچھ اس طرح سے قائم کررہے ہیں گویا کہ یہ بھی راشن کے بیگ ہیں جن کے دو حصے کرکے حسبِ منشا بانٹنا ہے۔ یہ کام اس قدر سہل نہیں ہے۔ سندھ ایک ایسا صوبہ ہے جہاں قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے آنے والے مہاجرین اور دیگر صوبوں سے آنے والے افراد کی وجہ سے آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک آبادی تو ہجرت کے روپ میں یہاں آئی جسے قبول کرلیا گیا ہے، لیکن دیگر صوبوں سے جو آبادی سندھ میں وارد ہوتی رہتی ہے اس کی بنا پر سندھ کے اصل باشندوں کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل ہونے کا خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ ڈیموگرافیکل تبدیلی نے جس اجنبیت کو جنم دیا ہے اس کے بعد نئے صوبوں کے ایسے بیانات اور تشکیل کردہ کمیٹیوں سے اصل باشندوں کو لگتا ہے کہ انہیں اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل ہونے سے کوئی بھی نہیں بچاسکتا۔ اس لیے اہلِ سندھ کا احتجاج کا راستہ اپنانا درست ہے، جس پر سندھ سے تعلق رکھنے والے صوبائی اور وفاقی اراکین اسمبلی اور وزرا کو ضرور سوچنا چاہیے۔
تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سندھ سیاسی، ثقافتی، سماجی، معاشی اور جغرافیائی طور پر ایک الگ شناخت کا حامل صوبہ ہے۔ برطانیہ کے قبضے کے وقت بھی اہلِ سندھ نے مزاحمت کی تھی جس حد تک ممکن ہوپایا تھا۔ انگریزوں کی جانب سے سندھ کو بمبئی پریذیڈنسی کے تحت چلانے کے خلاف بھی سندھ کے لوگوں نے مزاحمت کی تھی جس کے نتیجے میں سندھ کو مذکورہ قبضے سے نجات حاصل ہوئی تھی۔ اُس وقت سیاسی تنظیموں/ پارٹیوں کا تنظیمی ڈھانچہ بھی خودمختار سندھ کی نہج پر استوار ہوا کرتا تھا۔ سندھ کی مضبوط اسمبلی تھی اور جو قرارداد سندھ اسمبلی سے منظور/ پاس ہوئی تھی وہ بھی خودمختار کنفیڈریشن کے حصے کے نام پر ہوئی تھی، اور یہ امر بھی طے شدہ تھا کہ پاکستان میں شمولیت اختیار کرنے والا قدیم سندھ بھی اپنے وجود اور ڈھانچے میں آزاد ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ کسی ایسی شرط کا پابند نہیں ہوگا جس کے تحت اُس کی شناخت اور انفرادیت کو تبدیل کیا جائے۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ جس خطے میں پہلے ہی قوموں کے حقوق کا سوال اَن سنا ہو وہاں پر نئے صوبوں کے شوشے کھڑے کرنا سوائے سندھ کی سیاست میں اجنبیت کے احساس کو بڑھاوا دینے کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ صوبہ سندھ اس وقت ایک ایسی صورتِ حال سے دوچار ہے کہ وہ کسی بھی حملے کا وار سہنے کی سکت نہیں رکھتا (مراد یہ ہے کہ سندھ میں ایک نئے صوبے کا قیام یا اس حوالے سے کوئی بات کرنا ناقابلِ برداشت ہے، مترجم)۔ سندھ سے وابستہ حکومتی حلقوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ انہیں بالآخر سیاست تو اسی صوبے میں کرنی ہے، لہٰذا وہ فصل بھی ایسی کاشت کریں جسے کاٹنے میں انہیں پھر دشواری محسوس نہ ہو۔
اِس وقت اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں نئے صوبے بنانے کے بارے میں آئین میں تبدیلی کے لیے کمیٹی کے قیام کا مقصد سندھ کی قومی شناخت کے ساتھ زیادتی کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اسی عمل کی وجہ سے سندھ میں عوام دوست قوتیں کمزور ہوتی رہی ہیں جو عوامی حقوق کے حصول کی بات کیا کرتی ہیں۔ اب بھی عوام دشمن قوتوں کی یہ سازش ہے کہ عوام کے حقوق کی بات کرنے والی قوتوں کو کمزور کیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر صوبہ اپنے فیصلے اپنے ہاں کے عوام کے حسبِ منشا کرے۔ وفاق کی جانب سے کوئی بھی رکاوٹ صوبائی نظام میں حائل نہ کی جائے۔ غیر جمہوری رویوں کی وجہ سے عوام دشمن سیاست کی بنیادیں مزید مضبوط ہوجاتی ہیں اور جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی معاشرے پر اجارہ داری قائم ہونے لگتی ہے۔ دوسری جانب ایم کیو ایم جیسی تنظیمیں صوبوں کے اس ایشو کو صرف اپنے اقتدار کے لیے ہی استعمال کیا کرتی ہیں۔ اس نوع کی کشیدگی کی فضا صوبہ سندھ کی پُرامن فضا کے لیے سازگار نہیں ہے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبوں کو اُن کے تمام حقوق پوری طرح سے حاصل ہوں۔ ان کے معدنی وسائل پر ان کی خودمختاری کو تسلیم کیا جائے، جب کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم بھی منظور ہوچکی ہے جس کے تحت جو محکمے اور ادارے صوبوں کے حوالے کیے جانے ہیں تو تاحال وہ وزارتیں کیوں ختم نہیں کی گئی ہیں؟ یہ عمل بھی آئین کی مذکورہ ترمیم کی پامالی ہے جسے اسمبلی بھی منظور کرچکی ہے۔ نئے صوبوں کے حوالے سے تشکیل کردہ کمیٹی کو فوی الفور ختم کرکے براہِ راست سرائیکی قوم کو پارلیمنٹ اپنے فیصلے کے ذریعے ایک الگ قومی شناخت عطا کرے۔ اس کے لیے نئے صوبوں کی کمیٹی بنانے یا آئین میں ترمیم کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ سرائیکی خطہ تاریخ، جغرافیہ، ثقافت اور ایک الگ زبان کا حامل ہے۔ اس کی آڑ میں تاریخی خطے کی تقسیم کو اصلی اقوام کے افراد قبول نہیں کریں گے۔ اس لیے وفاق کو چاہیے کہ اس نوع کے عوام دشمن فیصلے واپس لے تاکہ اس ملک کی حقیقی اقوام بغیر کسی خوف و خطر کے اپنی دھرتی پر خودمختار حیثیت میں زندگی بسر کرسکیں۔‘‘