خیبر پختون خوا : بدامنی کے بڑھتے ہوئے واقعات

سوات اور بنوں کے عوامی احتجاج عوامی ردعمل کا واضح اظہار ہیں

پاکستان اور افغانستان ڈھائی ہزار کلومیٹر سے زیادہ مشترکہ سرحد کے علاوہ چونکہ مشترکہ تاریخ و ثقافت اور دوستی کے اٹوٹ رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں اس لیے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کے بقول دونوں برادر پڑوسی ممالک ایک دوسر ے سے اتنے قریب ہیں کہ ان کی ہوائیں بھی ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ یہ شاید ان دونوں پڑوسی ممالک کی جغرافیائی اور روحانی وحدت کا نتیجہ ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے حالات سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔

ہمیں یہ تمہید خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے بدامنی کے پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں باندھنی پڑی ہے جن میں سیکورٹی فورسزکے علاوہ پولیس اور دیگر متعلقہ ایجنسیوں کے اہلکار وں پر ہونے والے قاتلانہ حملوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کو اگر افغانستان میں امن و امان کی مثالی صورتِ حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے پاکستان کی تشویش میں ہونے والے اضافے کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی، نیز پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے آئے روز کے ڈرون حملوں اور خاص کر افغانستان میں برسراقتدار پاکستان مخالف سیاسی عناصر کی موجودگی میں تو پاکستان میں بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات سمجھ میں آتے تھے لیکن اب جب سے افغانستان میں طالبان برسراقتدار ہیں اور وہ بغیر لڑے اور کسی بڑی خونریزی کے بغیر افغانستان میں برسر اقتدار آئے ہیں تب سے تو بظاہر افغانستان میں امن اور سکون ہے لیکن جوں جوں پاک افغان طالبان کے تعلقات میں سردمہری دیکھنے کو مل رہی ہے اس کا اثر پاک افغان دوستی پر بھی پڑرہا ہے۔ طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان نے سُکھ کا سانس لیا تھا اور عام تاثر یہ تھا کہ اس تبدیلی سے افغانستان کی جانب سے پاکستان میں مداخلت کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل ہوجائے گا، لیکن سوا سال ہونے کے باوجود طالبان عالمی برادری کو یہ باور کرانے میں ناکام نظر آتے ہیں کہ اُن کی سرزمین غیر ممالک بالخصوص پڑوسیوں کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔

دراصل افغانستان میں برسراقتدار طالبان حکومت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ اگر ایک جانب پاک افغان بارڈر پر کچھ مشکلات درپیش ہیں جس کا اظہار طورخم، کرم اور چمن بارڈر پر مختلف واقعات کی صورت میں ہوچکا ہے جن میں افغان فورسز کی جانب سے ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں جہاں پاکستان کی سیکورٹی فورسز کوبھاری جانی نقصانات اٹھانا پڑے ہیں وہاں جب سے افغانستان میں طالبان برسر اقتدار آئے ہیں تب سے خیبر پختون خوا اور افغان بارڈر پر واقع ضم شدہ قبائلی اضلاع میں امن و امان کی صورتِ حال بھی بہت حد تک مخدوش ہوچکی ہے۔ صوبے کے طول و عرض میں پولیس پر حملے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔

شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہوگا جب صوبے کے کسی نہ کسی حصے سے پولیس فورس پر حملے کی اطلاعات سامنے نہ آتی ہوں۔ اس حوالے سے اب تک زیادہ واقعات شمالی وزیرستان اور اس سے ملحقہ صوبے کے جنوبی اضلاع لکی مروت اور بنوں میں رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں پولیس کی گشتی پارٹیوں کے علاوہ پولیس چوکیوں پر بھی حملوں کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ پولیس فورس پر ہونے والے زیادہ تر حملوں کی ذمے داری کسی بھی جانب سے قبول نہیں کی گئی، نہ ہی اب تک ان حملوں کے ماسٹر مائنڈز اور ان حملوں میں ملوث افراد کی کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے تادمِ تحریر کسی بڑے گروہ یا نیٹ ورک کی نشاندہی ہوئی ہے۔

صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال نے سیکورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں خاص کر تجارت پیشہ افراد کو بھی بڑے پیمانے پر اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی تازہ مثال گزشتہ دنوں شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی میں بنوں سے تعلق رکھنے والے سونے کے تین تاجروں کی بہیمانہ ہلاکت ہے، جس پر بنوں قومی جرگے کے پلیٹ فارم سے شدید احتجاج بھی کیا گیا ہے۔ بنوں قومی جرگے نے ان تینوں تاجروں کی ہلاکت کے خلاف بنوں شہر میں مسلسل آٹھ روز تک شٹر ڈائون ہڑتال اور احتجاج کے ذریعے اس واقعے میں جاں بحق ہونے والے افراد کی مالی امداد اور واقعے میں ملوث کرداروں کو بے نقاب کرکے قرار واقعی سزا کے مطالبات پیش کیے ہیں۔

گو بنوں قومی جرگے کا یہ پُرامن احتجاج صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ملک محمدشاہ خان اور مقامی سول انتظامیہ کی کاوشوں کے نتیجے میں ختم کردیا گیا ہے لیکن جرگے کے مشران نے دھمکی دی ہے کہ اگر مذاکرات میں طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوا یا اس سلسلے میں لیت و لعل سے کام لیا گیا تو یہ احتجاج کسی بھی وقت دوبارہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ شروع کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ اس معاہدے میں نہ صرف جاں بحق تینوں افراد کے خاندانوں کو25 لاکھ روپے فی خاندان مالی امداد دینے کا وعدہ کیا گیا ہے بلکہ ان خاندانوں سے ایک ایک فرد کو سرکاری ملازمت دینے اور احتجاج کے دوران حرکتِ قلب بند ہونے سے جاں بحق ہونے والے فرد کے خاندان کو بھی پانچ لاکھ روپے امداد دینے پر اتفاق کیا گیا ہے، جبکہ اس معاہدے کے تحت قاتلوں کی جلد از جلد گرفتاری کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔

یہاں صوبے میں بدامنی کے جاری واقعات کے حوالے سے عوامی بیداری اور عوام میں اس حوالے سے پائے جانے والے اشتعال اور ردعمل کا اظہار چند ہفتے قبل سوات میں طالبان کے ازسرنو منظم ہونے اور اُن کے ظہور پذیر ہونے کی اطلاعات کے خلاف اہلِ سوات کی جانب سے پُرامن اور منظم انداز میں بھرپور احتجاج کی صورت میں ہوا تھا، اب جس طرح بنوں میں یہی جوش و جذبہ دیکھنے کو ملا اُس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ صوبے میں اِس مرتبہ طالبان کے ظہور پذیر ہونے اور اُن کی جانب سے منظم ہونے کی اطلاعات اور کوششوں کو عوامی سطح پر نہ تو کسی قسم کی پذیرائی ملنے کا امکان ہے اور نہ ہی اس حوالے سے عوام کسی قسم کا دبائو قبول کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔

اس ضمن میں سوات اور بنوں کے عوامی احتجاج عوامی ردعمل کا واضح اظہار ہیں۔ صوبے میں بدامنی میں ہونے والے اضافے کا ایک اور خطرناک پہلو مختلف دہشت گرد گروہوں کی جانب سے مخیر لوگوں بالخصوص تجارت پیشہ افراد کو بھتے کی وصولی کے لیے مختلف گمنام نمبروں سے کالوں کا کیا جانا ہے، جن میں سے بعض کالوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ سرحد پار سے کی گئی ہیں، جبکہ اس حوالے سے بعض مخیر لوگوں کے گھروں پر دستی بموں کے حملوں کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں جس میں ایک تازہ واقعہ سابق صوبائی وزیر اور مسلم لیگ کے راہنما حاجی جاوید کے پشاور گلبہار میں واقع مکان پر دستی بم پھینکنے کی صورت میں سامنے آیا ہے، جبکہ اس کے علاوہ بھی پشاور، مردان اور سوات سمیت مختلف شہروں سے اس طرح کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔