حکومت اور حزبِ اختلاف میں بداعتمادی بڑھ رہی ہے
پاکستان کا سیاسی مسئلہ سلجھنے کے بجائے مسلسل الجھتا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں طاقت ور طبقات، فیصلہ کرنے والے بااختیار افراد اور ادارے مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ بنارہے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم مجموعی طور پر مسائل بڑھانے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سیاسی اور معاشی بحران میں جکڑا ہوا ہے۔ ہم مسائل سے باہر تو نکلنا چاہتے ہیں مگر اس خواہش کے پیچھے جذباتیت کا عمل زیادہ ہے، اور ٹھوس بنیادوں پر جو حکمتِ عملی درکار ہے اسے اختیار کرنے کے لیے ہم تیار نہیں۔ نظام کی درستی کے لیے سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں یا کڑوی گولیاں نگلنی پڑتی ہیں جس کے لیے ہم بطور ریاست و حکومت تیار نہیں۔ مسئلہ محض سیاسی بحران کا نہیں بلکہ سیاست اور ریاست کے درمیان موجود ٹکرائو کا بھی ہے جو ایک دوسرے کے درمیان بدگمانیاں پیدا کرتا ہے۔
اس سیاسی بحران میں حکومت اورحزبِ اختلاف کے درمیان جو بداعتمادی ہے وہ ختم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے، کیونکہ کوئی بھی سیاسی فریق دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول کرنے سے انکاری ہے۔ بقول وزیراعظم: جھوٹے اور محسن کُش عمران خان سے ہم کیوں مذاکرات کریں؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عمران خان کی مخالفت میں، اور عمران خان اُن کی مخالفت میں بہت آگے تک چلے گئے ہیں۔ حکومت بضد ہے کہ عام انتخابات اکتوبر 2023 ء سے قبل نہیں ہوں گے، اور نہ ہی عمران خان کی کسی بھی دھمکی کی بنیاد پر فوری انتخابات ممکن ہوں گے۔ جب کہ ایک قدم آگے بڑھ کر حکومت اور اتحادی یہ دھمکیاں بھی دے رہے ہیں کہ انتخابات کو مزید چھے ماہ سے ایک برس تک معاشی ایمرجنسی کی بنیاد پر آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
جبکہ دوسری طرف عمران خان فوری انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں اوراُن کے بقول حالیہ سیاسی بحران کا حل نئے فوری اورشفاف انتخابات ہی ہیں۔ عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں کی تحلیل اور دیگر صوبائی اسمبلیو ں سے استعفیٰ دینے کی بات بھی کی ہے، اور اُن کے بقول ہم یہ سب کچھ دسمبر میں کردیں گے۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنا پی ٹی آئی کے لیے اتنا آسان نہیں ہے جتنا سمجھا جارہا ہے۔ مسئلہ محض مسلم لیگ (ق) کا نہیں، پی ٹی آئی کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو عمران خان کو مشورہ رے رہے ہیں کہ اسمبلیوں کو تحلیل کرنا درست حکمتِ عملی نہیں ہوگی۔
اسی طرح قومی اسمبلی کی سطح پر پی ٹی آئی کے کچھ لوگ عمران خان سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں دوبارہ اسمبلیوں کی طرف واپس جانا ہوگا۔ چودھری برادران کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ڈبل گیم کھیل رہے ہیں، مگر مسئلہ ڈبل گیم کا نہیں ہے، کیونکہ پرویزالٰہی اور مونس الٰہی عمران خان کے ساتھ ہی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم عمران خان کے ساتھ ہی چلیں۔ کیونکہ اُن کو سیاسی فائدہ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں عمران خان سے ہی ہوگا۔ پرویزالٰہی ماضی میں مسلم لیگ (ن) یا شریف خاندان کے ساتھ رفاقت کے تلخ تجربات رکھتے ہیں اور اُن کے بقول شریف خاندان پر اعتبار کرنا خود کو دوبارہ کسی مشکل میں ہی ڈالنا ہے۔
اس لیے اُن کی پہلی ترجیح عمران خان ہی ہیں، اور بالخصوص اُن کے بیٹے مونس الٰہی عمران خان کے ساتھ ہی مل کر مستقبل کی عملی سیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چودھری پرویزالٰہی اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ عمران خان کے کہنے پر اسمبلی تحلیل کردیں گے۔ چودھری پرویزالٰہی نے واضح طور پر عمران خان کو کہا ہے کہ میں آپ کے کہنے پر اسمبلی کی تحلیل کے لیے تیار ہوں مگر ہمیں پہلے اس بات کی ہر سطح سے ضمانت لینی چاہیے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں ملک میں عام انتخابات ہی ہوں نگے، کیونکہ اگر اسمبلیو ں کی تحلیل کے بعد عام انتخابات نہیں ہوتے اور محض صوبائی انتخابات ہوں تو اس کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوگا، کیونکہ مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی موجودگی میں صوبائی انتخابات کے نتائج وہ نہیں ہوں گے جن کی ہم توقع رکھتے ہیں۔
اس لیے اگر اسمبلیوں کو واقعی تحلیل ہونا ہے تو اس کو عام انتخابات سے ہی مشروط رکھا جائے۔ اورکہا جاتا ہے کہ خود عمران خان بھی اس رائے سے متفق نظر آتے ہیں۔ یہ بات بھی گردش میں ہے کہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا جو مصالحتی مشن اِس وقت چل رہا ہے وہ بھی پسِ پردہ طاقتوں کی مدد سے ہی چل رہا ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ کے تنازعے کا ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر حل نکالا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں ہی صدرِ مملکت کے ساتھ بات چیت کے عمل کا حصہ ہیں، اور بات چیت کا نتیجہ ہی حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان نئی سیاست کا تعین کرے گا۔
دوسری جانب یہ خبر عام ہے کہ اسحاق ڈار کی لاہور میں چودھری پرویزالٰہی سے ملاقات ہوئی ہے اور آصف زرداری بھی پنجاب مشن پر ہیں اور اُن کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ چودھری پرویزالٰہی کو عمران خان سے دور کیا جائے۔ آصف زرداری چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) چودھری پرویزالٰہی کے لیے نرم گوشہ پیدا کرلے تو وہ ان کو اپنے ساتھ ملاسکتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ حکومت سمجھتی ہے اگر ہم نے فوری انتخابات کا راستہ اختیار کیا تواس کے دو نقصانات ہوں گے: اوّل، یہ سمجھا جائے گا کہ ہم نے عمران خان کے مطالبے پر خود کو سرنڈر کردیا ہے اور عمران خان اپنا مطالبہ منوانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ دوئم، اِس وقت کے سیاسی حالات میں انتخابات کا راستہ اختیار کرنا حکمران اتحاد کے لیے سیاسی خودکشی ہوگا۔ کیونکہ ایک طرف عمران خان کی مقبولیت اور دوسری طرف حکومت کی بری معاشی کارکردگی اور عوام کو کسی بھی سطح پر معاشی ریلیف کا نہ ملنا ان کی انتخابی ناکامی کو ممکن بنائے گا۔ حکومت کا خیال ہے کہ جب تک عوام کو کچھ معاشی ریلیف نہیں ملتا عام انتخابات کی حکمتِ عملی درست نہیں ہوگی۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) میں اب یہ بات بھی شدت سے محسوس کی جارہی ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے کہ عام انتخابات سے قبل عمران خان کا سیاسی مقابلہ کرنے کے لیے نوازشریف اورمریم نواز کو فوری طور پر پاکستان واپس آکر انتخابی عمل کا حصہ بننا چاہیے۔ ان کے بقول اگر عام انتخابات سے قبل نوازشریف کسی بھی وجہ سے وطن واپس نہیں آتے تو مسلم لیگ (ن) کو انتخابی میدان میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) یہ دعویٰ کررہی ہے کہ دسمبر کے آخر یا جنوری میں نوازشریف اور مریم نواز پاکستان میں ہوں گے۔
سوال یہ ہے کہ نوازشریف کی وطن واپسی کو کیسے ممکن بنایا جائے گا؟ نوازشریف خاصے سمجھ دار ہیں اور وہ خطرات سے کھیلنے کے عادی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مشکل وقت لندن میں بیٹھ کر گزار رہے ہیں۔ نوازشریف کی خواہش ہے کہ اُن کو ہر صورت میں اس بات کی ضمانت دی جائے کہ اُن کو گرفتار نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی مقدمات میں الجھایا جائے گا۔ ان کے خلاف جو بھی فیصلے ہیں انہیں واپس لیا جائے اورانتخابی عمل میں اُن کی شرکت کو یقینی بنایا جائے تو واپس آنے کے لیے تیار ہیں۔ اب یہ بات بھی یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ نوازشریف واپسی کی گارنٹی اپنے بھائی اور وزیراعظم شہبازشریف سے نہیں مانگ رہے بلکہ اُن کا واضح اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے۔
وہ جانتے ہیں کہ گارنٹی کون دیتا ہے اورکس کی گارنٹی کی اہمیت ہوتی ہے۔ اس لیے اگر نوازشریف واپس آتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اُن کو کسی نہ کسی سطح پر گارنٹی دی گئی ہے، اور اگر ایسا ہے تو پھر اس کا الزام بھی اسٹیبلشمنٹ پر ہی لگے گا اور عمران خان اس معاملے میں اپنا مضبوط سیاسی بیانیہ عوامی سطح پر پیش کریں گے کہ ہماری ملکی اسٹیبلشمنٹ کس حد تک غیر جانب دار ہے۔
نئے انتخابات کی صورت میں بڑی جنگ بھی پنجاب میں ہی لڑی جائے گی، اور یہاں اصل مقابلہ عمران خان اور شریف خاندان کے درمیان ہے۔ کیونکہ پنجاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس کے پاس پنجاب کا اقتدار ہو، وہی مرکز پر بھی برتری حاصل کرتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) چاہتی ہے کہ اگلے عام انتخابات میں مرکز سے زیادہ پنجاب میں اس کا اقتدار قائم ہو۔ مگر یہاں اس کو اصل خطرہ عمران خان کی مقبولیت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) چاہتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہی عمران خان کو کمزور کرے یا اُن کا راستہ روکے۔مسلم لیگ (ن) سیاسی میدان کے مقابلے میں انتظامی اور ٹیکنیکل بنیادوں پر عمران خان کو انتخابی عمل سے ہی آئوٹ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔
لیکن اس کے امکانات بہت کم ہیں، اور ایسا کرنے کے نتائج قومی سیاست اور معیشت دونوں پر منفی پڑیں گے۔ یہاں اسٹیبلشمنٹ کا بھی اصل امتحان ہوگا کہ وہ اس تاثر کو قائم کرے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت میں نہیں کھڑی۔ کیونکہ عمران خان تسلسل کے ساتھ یہ بیانیہ پیش کررہے ہیں کہ اُن کے سیاسی مخالفین یا اسٹیبلشمنٹ کا ایک خاص حلقہ اُن کو نااہل کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس کا اظہار خود سابق صدر آصف علی زرداری، رانا ثنا اللہ اور خواجہ آصف کرچکے ہیں کہ عمران خان انتخابات سے قبل نااہل ہوں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا الزام بھی اسٹیبلشمنٹ پر ہی لگے گا جس سے ریاستی بحران مزید نمایاں ہوگا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک حلقہ اسٹیبلشمنٹ کو ہی یہ پیغام دے رہا ہے کہ ہمیں عمران خان سے تعلقاتِ کار درست رکھنے ہوں گے اور بلاوجہ یہ تاثر نہ دیا جائے کہ ہم عمران خان کا راستہ طاقت کے زور پر روکنا چاہتے ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان زیادہ مشکلات میں ہیں۔جبکہ اصل بحران عمران خان کو نہیں بلکہ حکمران طبقے کو درپیش ہے،کیونکہ رجیم چینج کو بنیاد بنا کر جو کھیل کھیلاگیا وہ ابھی تک حکمران جماعت کو کوئی بڑا سیاسی فائدہ نہیں دے سکا۔ البتہ نیب قوانین میں ترامیم کی مدد سے وہ مقدمات سے تو نجات حاصل کرچکے ہیں، مگر سیاسی و معاشی محاذ پر ان کو ناکامی کا سامنا ہے۔عوام کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ حکومت کی تبدیلی کی صورت میں انہیں ہر سطح پر ریلیف ملے گا، مگر کچھ نہیں ہوسکا اوراب تو عملاً اسحاق ڈار نے بھی ہاتھ اٹھادیے ہیں۔مفتاح اسماعیل اوراسحاق ڈار میں یہ جنگ ہے کہ معیشت کا بیڑا کس نے غرق کیا ہے، اور دونوں ایک دوسرے پر الزام عائد کرکے خود کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ عمران خان فوری انتخابات ہی کو مسائل کا حل کہتے ہیں اور اُن کے بقول معیشت تیزی سے نیچے کی طرف جارہی ہے، اور اس کو استحکام نئے انتخابات کی صورت میں ہی مل سکتا ہے۔ ایسے میں حکومت کہاں کھڑی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو خود حکومتی حلقوں میں زیر بحث ہے کہ رجیم چینج کی تبدیلی کے ساتھ ہم نے سیاسی فائدہ اٹھایا ہے یا ہم سیاسی طور پر گھاٹے میں ہیں؟