مشرق پاکستان سے جڑی بے حسی کی کہانی

امریکہ اور سوویت یونین کا رویہ اس قضیے(سقوط مشرقی پاکستان) میں کچھ اس نوعیت کا رہا جیسے وہ اس سے یکسر الگ تھلگ رہنے کا تاثر بھی دینا چاہتے ہوں اور بھارت کی مدد بھی کررہے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ سوویت یونین نے بھارت کو پاکستان توڑنے کی شہہ کیوں دی؟ امریکہ اور چین نے پاکستان کے لیے جس حمایت کا اعلان کیا تھا‘ اس کا کیا ہوا؟ بھارت کا کردار تو سمجھ میں آتا ہے۔ اسے پاکستان سے نفرت تھی جو ظاہر ہوکر رہی۔ شیخ مجیب الرحمن کا کردار سمجھنا بھی دشوار نہیں۔ غداروں نے دشمن کے اشاروں پر وہی کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔ پیچیدگی اس بات کو سوچنے سے پیدا ہوتی ہے کہ مشرقی پاکستان کے باشندوں کو کیا ہوگیا تھا کہ اس قدر آسانی سے شیخ مجیب اور اس کے ساتھیوں کے پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے؟

پندرہ بیس سال کے نوجوانوں کو الزام دینا درست نہیں۔ مگر بڑی عمر کے لوگوں نے پاکستان کے قیام سے قبل کلکتہ کے ہاتھوں اپنا استحصال دیکھا اور بھگتا تھا۔ مشرقی پاکستان بن جانے والے علاقوں سے پٹ سن‘ چائے اور چرمی کھالیں مغربی بنگال جایا کرتی تھیں اور اس کے بدلے میں برائے نام سہولتیں ملتی تھیں۔ مشرقی بنگال مچھلی‘ پولٹری‘ انڈے‘ سبزیاں اور دوسری بہت سی چیزیں بھی فراہم کیا کرتا تھا۔ ترقیاتی کاموں کے فقدان اور رابطوں کی سہولت نہ ہونے کے باعث غیر منقسم بنگال میں مشرقی علاقے پسماندہ رہ گئے تھے (یا رکھے گئے تھے) اور انہیں عملاً مغربی بنگال کی معاشی غلامی اختیار کرنی پڑی تھی۔ ترقیاتی منصوبوں کا مطالبہ یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا جاتا تھا کہ مشرقی بنگال میں کوئی بھی بڑا منصوبہ معاشی اعتبار سے سودمند ثابت نہیں ہوگا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد مشرقی بنگال یعنی مشرقی پاکستان میں جس قدر بھی ترقیاتی کام ہوئے انہیں عوامی لیگ نے پسماندگی کی علامت بناکر پیش کیا۔ حقائق دبا دیے گئے‘ اعداد و شمار مسخ کردیے گئے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کا استحصال کیا جارہا ہے۔ ان علاقوں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے مغربی پاکستان کے کاروباری افراد کو استحصالی عناصر ٹھیرایا گیا۔ جس سرمایہ کاری کی مشرقی پاکستان کو اشد ضرورت تھی اسے مغربی پاکستان کے کاروباری افراد کا استحصالی ہتھکنڈا قرار دیا گیا۔ نئی صنعتوں کے لیے سرمایہ کہاں سے آئے گا اور روزگار کی فراہمی کے لیے نئے اداروں کو کس طرح چلایا جائے گا؟ یہ وہ سوالات تھے جن کا جواب تلاش کرنے یا ان کے بارے میں سوچنے سے گریز کیا گیا۔ پاکستانی حکومت کے شدید ترین ناقدین وہ نئے بنگالی سرمایہ دار تھے جنہیں خود وفاقی یا مرکزی حکومت نے پیدا کیا تھا۔ قیام پاکستان نے ان پر جو احسان کیا تھا‘ اسے فراموش کرکے وہ غیربنگالی سرمایہ کاروں کو نکال کر راتوں رات بے حساب دولت کے مالک بننے کے خواب دیکھنے لگے۔

ایک طرف تو یہ غداری‘ فریب کاری‘ حماقت اور خودفریبی کی داستان ہے اور دوسری طرف دوراندیشی کے فقدان‘ لاعلمی و لاتعلقی اور بے حسی کی کہانی ہے۔ ان تمام عوامل نے مل کر سانحہ مشرقی پاکستان کو جنم دیا۔
(پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین)
(اسلامک ریسرچ اکیڈ می کراچی سے شائع ہونے والی کتاب’’شکستِ آرزو‘‘سے انتخاب)

مجلس اقبال
ضمیر لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو ’’شہید جستجو‘‘ کردے

نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے اس شعر میں علامہ مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ یہ جو مُردہ دل ہوچکے ہیں اور ان کے دل میں کسی قسم کی تمنائیں اور آرزوئیں جنم نہیں لیتیں تُو ان کے دلوں میں امید و آرزو کے چراغ روشن کر، اور انہیں زندگی کا وہ شعور دے کہ یہ مقاصد کے حصول کے لیے جستجو اور جدوجہد کرسکیں، یعنی زندگی تو ہے ہی یہی کہ انسانوں کے دل زندہ ہوں، ان میں امیدیں اور آرزوئیں جنم لیتی ہوں اور ان کے حصول کے لیے بھرپور جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔