بدعنوانی…’’ہائے اس زود پشماں کا پشماں ہونا‘‘

انسداد بدعنوانی کے عالمی دن کے موقع پر وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے ارشاد فرمایا ہے کہ بدعنوانی کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے یہ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے اس کی معاشی و انتظامی تباہی کا باعث بنتی ہے، معاشرتی اقدار کے زوال سے معاشرے میں بدعنوانی کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے، اس ناسور کے خاتمہ کے عزم کی تجدید کرتے ہوئے وزیر اعظم نے مزید کہا کہ بدعنوانی کا ملک کی سلامتی، امن اور ترقی سے براہ راست تعلق ہے اس سے ملک و قوم کا سرمایا شر پسند عناصر کے ہاتھوں میں جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جس سے معاشرے کا امن تباہ ہوتا ہے، ادارے کمزور ہوتے اور عوام کا طرز حکمرانی سے اعتماد اٹھ جاتا ہے، وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے بدعنوانی کے حوالے سے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس سے اختلاف کی کسی کو مجال نہیں تاہم بہتر ہوتا کہ وہ یہ وضاحت بھی فرما دیتے کہ وطن عزیز میں ان کے خاندان کے طویل عرصہ حکمرانی کے دوران ملک کے معاشی و معاشرتی مسائل میں جو زبردست اضافہ ہوا ہے، ملک پر بھاری بین الاقوامی قرضوں کا بوجھ جس تیزی سے بڑھا ہے اور جس کے سبب آج ملک کے کسی بھی وقت دیوالیہ ہو جانے کے خدشات سامنے آ رہے ہیں دوسری جانب قوم کی معاشرتی اقدار جس قدر سرعت سے روبہ زوال ہیں، ادارے کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور عوام کا اعتماد حکومت سے اٹھتا چلا جا رہا ہے کہیں اس کا سبب ان کے خاندان کے عرصہ حکمرانی میں بدعنوانی کا فروغ ہی تو نہیں جس نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نے ان بنیادی امور سے متعلق تو وضاحت نہیں فرمائی تاہم اس بات پر زور ضرور دیا ہے کہ ملکی سیاست میں بدعنوانی کو انتقام کا ذریعہ بنانے کے رواج کو ختم کرنا ہو گا۔ تحریک انصاف کی پونے چار برس کی حکومت کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے دکھ کا اظہار کیا کہ جس طریقے سے جھوٹے الزامات لگا کر سیاسی حریفوں کو جیلوں میں بند کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی، بدعنوانی کو مخالفوں کو انتقام کی بھینٹ چڑھانے کے لیے آلہ کے طور پر استعمال کیا گیا، اس روایت کو ختم ہونا چاہیے تاکہ اداروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میں بدعنوانی کے خاتمہ کے لیے مضبوط اور با اختیار بنا جا سکے …!

وزیر اعظم کے یہ ارشادات سو فیصد درست ہیں لیکن ہمارے مقتدر سیاستدانوں خصوصاً حکمرانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی تقریروں میں خوبصورت لفاظی تو ضرور کرتے ہیں مگر بات کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں خصوصاً اپنے کردار کو ہمیشہ بھول جاتے ہیں، حالانکہ قرآن حکیم، فرقان حمید کا بڑا واضح حکم ہے کہ ’’وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔‘‘ یا تو ان کا اپنا حافظہ کام نہیں کرتا یا انہیں یقین ہے کہ پاکستانی عوام شدید ضعف حافظہ کے شکار ہیں، انہیں جیسے چاہیں بے وقوف بنائیں، یہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا حق ہے۔ جہاں تک وزیر اعظم کی اس خواہش کا تعلق ہے کہ بدعنوانی کے الزامات کو سیاسی حریفوں سے انتقام کے لیے استعمال کی روایت کا خاتمہ کیا جانا چاہیے، اس سے اختلاف تو نہیں کیا جا سکتا البتہ یہ ضرور عرض کیا جا سکتا ہے کہ ’’ہائے اس زود پشماں کا پشماں ہونا۔‘‘ جی ہاں! ’’دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا۔‘‘ ورنہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ورق الٹ کر دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ مخالفین کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت انتقام کا نشانہ بنانے کی روایت کو استحکام بخشنے میں جو کردار شریف خاندان نے اپنے ادوار حکمرانی میں ادا کیا ہے اس کی کوئی دوسری مثال تلاش کرنا مشکل ہے، وزیر اعظم نے یہی الزام تحریک انصاف کی حکومت پر عائد کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس دور میں جس طرح سیاسی حریفوں کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت انتقام کی بھینٹ چڑھایا گیا اور جیلوں میں بند کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ وزیر اعظم شاید بھول رہے ہیں اس لیے مثال ہم پیش کیے دیتے ہیں کہ ان کی موجودہ کابینہ کے وزیر خارجہ کے والد بزرگوار کو نواز لیگ ہی کی حکومت کے دوران بدعنوانی کے الزامات کے تحت پس دیوار زنداں ڈالا گیا تھا، انہی کے دور میں ان کی زبان کاٹنے اور دیگر اذیتوں سے گزارنے کے واقعات سامنے آئے تھے، ان کی جماعت ہی نے جناب آصف زرداری کو ’’مسٹر 10% ‘‘اور ’’مسٹر ایک سو دس فیصد‘‘ کے القابات سے نوازا تھا جب کہ خود وزیر اعظم نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ زرداری کے کے گلے میں کپڑا ڈال کر گلیوں میں گھسیٹیں گے اور ان کا پیٹ پھاڑ کو لوٹا ہوا مال نکال کر قومی خزانے میں جمع کرائیں گے بلکہ انہوں نے تو یہاں تک پیشکش کی تھی کہ اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو ان کا نام محمد شہباز شریف کی بجائے کچھ اور رکھ دیا جائے۔ سرے محل بھٹو خاندان کی ملکیت ہونے اور سوئس بنکوں میں اس خاندان کے اربوں ڈالر جمع ہونے سے متعلق اطلاع بھی نواز حکومت ہی نے عوام کو دی تھی۔ اسے انقلاب زمانہ کے علاوہ کیا نام دیا جائے کہ آج وہی زرداری صاحب، بھٹو خاندان اور ان کی پیپلز پارٹی نواز لیگ کی اتحادی اور شریک اقتدار ہے۔ یوں دونوں باہم شیر و شکر ہیں ہم اس صورت حال پہ کچھ عرض کریں گے تو شاید شکایت ہو گی اس لیے اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران فرمودہ معرکۃ الآرا جملہ یاد دلانے ہی پر اکتفا کافی ہو گا کہ ’’کچھ شرم ہوتی ہے۔ کچھ حیا ہوتی ہے…!!!‘‘

جہاں تک وزیر اعظم کے بدعنوانی کے خاتمہ کے عزم کا تعلق ہے اس ضمن میں سب سے اہم ضرورت سنجیدگی اور اخلاص ہے۔ محض سیاسی بیان بازی سے بدعنوانی پر قابو پایا جا سکتا ہے نہ پایا جا سکا ہے۔ اگر ہم اس سے نجات پانے میں واقع سنجیدہ ہیں تو مملکت خداداد پاکستان میں اس کا واحد راستہ اسلامی نظام کا نفاذ، ملک کی باگ ڈور امانت و دیانت کے پیکر، خدمت کے جذبہ سے سرشار مخلص لوگوں کے سپرد کرنا اور دین متین کے سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہے۔ گر یہ نہیں تو بابا سب کہانیاں ہیں…!!!

(حامد ریاض ڈوگر)