پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم صاحب نے رابغ، سعودی عرب میں ہمارا گھڑی والا کالم جس گھڑی پڑھا اُسی گھڑی ایک غلطی پکڑ لی۔ پچھلے کالم کا یہ فقرہ آپ نے بھی پڑھا ہوگا: ’’گھڑی کی اصطلاح نہ جانے کس نے گھڑی؟ مگر صاحب! جس نے بھی گھڑی خوب گھڑی‘‘۔
ڈاکٹر سلیم صاحب کئی زبانوں کے شناور ہیں۔ محقق اور مصنف ہیں۔ اِلٰہ آباد اُن کا وطن ہے۔انھوں نے گرفتہ غلطی یوں درست کی:
’’گھڑی کی اصطلاح کسی نے توگڑھی ہوگی۔ جس نے بھی گڑھی خوب گڑھی‘‘۔
ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں: ’’جس طرح بھارت میں ش ق کا خیال کم ہوتا جارہا ہے، پاکستانی اردو میں کئی ہندی الاصل الفاظ کا غلط املا رائج ہوتا جا رہا ہے۔ اس قدر کہ بڑے بڑے مصنفین کے یہاں بھی غلط املا کا استعمال ہے۔ ساڑی کو ساڑھی، گمبھیر کو گھمبیر، چودھری کو چوہدری، وغیرہ عام ہوتا جا رہا ہے‘‘۔
صاحب! ہماری والدہ محترمہ تو اب بھی ’گھڑنا‘ کا تلفظ ’گڑھنا‘ ہی کرتی ہیں۔ اللہ صحت و عافیت کے ساتھ اُن کا سایہ ہمارے سر پر سلامت رکھے، ماشاء اللہ 88 برس عمر ہوگئی ہے۔ صبح کی باتیں شام تک بھول جاتی ہیں۔ مگر پچھلی باتیں خوب یاد ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے اِس اعتراض پر ہم اُن سے رجوع لائے تو انھوں نے ڈاکٹر صاحب کی تائید کی اور فرمایا:
’’بڑھئی لکڑی گڑھتا ہے۔ لکڑی کاٹ کر ہموار کرنے یا اُسے کوئی شکل دینے کو ’گڑھنا‘ کہتے ہیں۔ جیسے ہم کہیں کہ’’پلنگ کا ’مَچوا‘ کتنا خوب صورت گڑھا ہے‘‘۔ جھوٹی بات بنانے کو بھی ’بات گڑھنا‘کہا جاتا ہے‘‘ (اُنھیں سے معلوم ہوا کہ ’مَچوا‘ پلنگ کے پائے کو کہتے ہیں)
ہم نے توثیقِ مزید کے لیے ’نوراللغات‘ نکالی تو ہماری غلطی کی تائید میں بھی ایک نکتہ نکل آیا۔ مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم لکھتے ہیں:
’’گھڑنا اور گڑھنا دونوں صحیح ہیں۔ شعراکے کلام میں گڑھنا کہیں نہیں ملا۔ لکھنؤ میں زبانوں پر گڑھنا اور دہلی میں گھڑنا ہے‘‘۔
مولوی صاحب نے سند کے طور پر آتش ؔ کا شعر دیا، جس سے معلوم ہوا کہ سنار کا زیور بنانا بھی ’زیور گھڑنا‘ہے۔
بنیں گے کس کا زیور چاند سورج
گھڑا کرتے ہیں زرگر چاند سورج
گڑھنے سے گڑھا ہوا ایک لفظ ’گڑھت‘ بھی ہے، جس کا مطلب ہے ’گڑھنے کا انداز‘۔اس مفہوم کو شعورؔ کے اس شعر میں دیکھیے:
سونے کی گڑھت ہے نہ جواہر کی جڑت کچھ
لفظوں کی تلازم ہے یہ تقریرِ مرصّع
لغات میں ایک لفظ ’اَن گھڑ‘ بھی ملتا ہے، جس کے معنی ہیں بدقطع، بے ڈول، ناموزوں اور ناتراشیدہ۔ بڑھئی ہمیشہ ’اَن گھڑ‘ چیز کو ’گھڑتا‘ ہے۔ مجازاً غیر تربیت یافتہ اور تہذیب و تمیز سے ناواقف شخص کو بھی ’اَن گھڑ‘ کہہ دیا جاتا ہے۔گویا ہم بھی اچھے خاصے ’اَن گھڑ‘ ہیں۔
ہمارے آگے پانی بھرنے کے لیے ’گھڑا‘ کسی کمھار نے’گھڑا‘ ہی ہوگا۔ جب پہلے پہل چاک پر کوئی گھڑا اُس نے ’گھڑا‘ ہوگا توبڑے فخر سے شائقین، صارفین اور اپنے مدّاحین سے کہاہوگا کہ ’’میں نے آج یہ گھڑا‘‘۔ بس شاید اُسی دن سے اس ظرف کا نام ’گھڑا‘ پڑ گیا۔ اب تو ہم پر’گھڑوں پانی‘ پڑ جاتا ہے، فقط یہ جان کر کہ ہم ’گھڑے کی مچھلی‘ بن کر رہ گئے ہیں، سو اپنے گھڑے سے باہر کی ہمیں کچھ خبر ہی نہیں۔ گھڑا رکھنے کے لیے جو اونچی جگہ بنائی گئی وہ ’گھڑونچی‘ کہلائی۔ اسی گھڑونچی سے ایک زمانے میں گھڑے لُنڈھائے جاتے تھے۔
گھڑے لُنڈھانے پر ایک دلچسپ قصہ یاد آگیا… اسرار الحق مجازؔ کی حاضر جوابی کا قصہ۔ شخصی خاکوں کے معرکہ آرا مجموعے ’’گنجینۂ گوہر‘‘میں جوشؔ صاحب کا خاکہ لکھتے ہوئے شاہد احمد دہلوی نے ایک تقریب کا حال تحریر کیا ہے:
’’شیخ صاحب کی کوٹھی کے کشادہ اور سرسبز صحن میں بیضوی حلقے میں کرسیاں لگی ہوئی ہیں۔ مہمان آتے جاتے ہیں اور بیٹھتے جاتے ہیں۔ ہنسی مذاق کی باتیں ہوتی ہیں۔ جوشؔ صاحب کی میز الگ ایک طرف لگی ہوئی ہے۔ شراب کی بوتل ہے، سوڈا ہے، تھرمس میں برف کی ڈلیاں ہیں۔ دو گلاس ہیں۔ ایک ٹائم پیس بھی میز پر دھری ہوئی ہے۔ کیوں کہ جوشؔ صاحب گھڑی دیکھ کر پیا کرتے ہیں۔ وقت ختم ہوا، شراب کا دور ختم ہوا۔ مجازؔ مرحوم کو بھی جوشؔ صاحب نے نصیحت کی تھی کہ میاں گھڑی رکھ کر پیا کرو۔ اُس بلا نوش نے جواب میں کہا تھا کہ میرا بس چلے تو گھڑا رکھ کر پیوں‘‘۔ (’’جوش ملیح آبادی…دیدہ و شنیدہ‘‘)
بلانوشی کا دور تو شاید اب بھی برقرار ہو، مگر گھڑے لُنڈھانے کا دورباقی نہیں رہا۔ رہے بھی کیسے؟ خود گھڑے ہی کا دور دورہ ختم ہوا جارہا ہے۔ مغرب کے گھڑے ہوئے جدید ظروف اب ہمارے گھروں کی زینت بن گئے ہیں۔ گھڑے کونہ جانے کیوں ’مٹکا‘ بھی کہا گیا۔ حالاں کہ مٹی کا یہ مادھو مٹکنے کی صلاحیت رکھتا ہے نہ کوئی مٹکا ہمارے آگے کبھی مٹکا۔ پھر بھی ہم مسکینوں کے صحن، صحنچی یا گھرآنگن سے سارے مٹکے مٹک مٹک کر نکل لیے۔ اگر اقبالؔ کبھی عالمِ ارواح سے اپنے خوابوں کی سرزمین کی سیرکو آئیں تو اپنے شاہینوں کو قصرِ سلطانی جیسے ’گنبدیں‘ محلّات میں مغربی ظروف کے ساتھ مٹکتے دیکھ کر جاتے جاتے شاید اپنا یہ شعر بھی اپنے دیوان سے حذف کرتے جائیں:
ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
واں کنٹر سب بلّوری ہیں، یاں ایک پُرانا مٹکا ہے
کیوں کہ بقول سلیمؔ احمداب:’’مغرب، مشرق کے گھر آنگن میں آپہنچا ہے‘‘۔
’’گھڑیالی بلڈنگ‘‘ کے متعلق ہم نے لکھاتھا:’’ صدر، کراچی کی ’گھڑیالی بلڈنگ‘ اپنے گھنٹہ گھر کی وجہ سے اس نام سے مشہور تھی‘‘۔
عروس البلادکراچی (اور غالباً اُسی بلڈنگ) سے جناب اقبال اے رحمٰن مانڈویا لکھتے ہیں:
’’گھڑیالی‘‘گجراتی و میمن برادری میں گھڑی ساز یا گھڑیوں کے بیوپاری کو کہتے ہیں، اس نسبت سے خاندانوں کی عرفیت بنتی ہے۔ پارسی برادری میں ایک صاحبِ ثروت خاندان’’گھڑیالی‘‘ سے موسوم تھا، گھڑیالی بلڈنگ اسی خاندان کی ملکیت تھی۔یہاں یہ بات ختم ہوئی۔ دوسری بات یہ کہ ملکۂ ترنم نورجہاں کی آواز میں ایک بھولا بسرا نغمہ آپ نے سنا ہوگا:
کیا مل گیا بھگوان مِرے دل کو دُکھا کے
ارمانوں کی نگری میں مِری آگ لگا کے
یہ فلم’’ انمول گھڑی‘‘ کا گانا ہے۔ ہم نے اس مارے پوری فلم دیکھ ڈالی کہ دیکھیں کیسے انمول گھڑیال کا تذکرہ ہوتا ہے۔ فلم کے آخر میں یہ انکشاف ہوا کہ یہ انمول گھڑی ایک قیمتی رسٹ واچ تھی جو ان کے ابا نے بیرونِ ملک سے بھیجی تھی۔سر پیٹنے کے علاوہ کیا ہوسکتا تھا‘‘۔
محترم اقبال اے رحمٰن کراچی کی تاریخ پر سند ہیں۔ان کی معرکہ آرا کتاب’’اس دشت میں اِک شہر تھا‘‘کراچی کے سنہرے دنوں کی داستان ہے۔ اس کتاب کی ضخامت 800 صفحات ہے۔یہ کتاب کراچی کی تاریخ، جغرافیے اور کراچی کے مشاہیر کا ’دائرۂ معارف‘ (انسائیکلو پیڈیا) ہے۔ ان کی بات سے زیادہ مستند بات کس کی ہو سکتی ہے؟ ہمیں خوشی بھی ہے اور فخر بھی کہ جناب اقبال اے رحمٰن مانڈویا جیسی محقق، مصنف اور مصروف کاروباری شخصیت ہمارے اِن کالموں کا مطالعہ دقتِ نظر سے کرتی ہے۔