الوفاء باسماء النساء: تاریخ علم حد یث کا ایک منفرد کام

خوا تین محدثات کا پہلا مفصل تذکرہ

علمِ حدیث ایک انتہائی عظیم علم ہے۔ قرآن مجید حضور اکرم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم پر نازل ہوا اور اس کی تفسیر و تبیین کا کام بھی آپؐ کو سونپا گیا۔ محققین کے نزدیک حدیث و سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فہم قرآن کا نبیؐ کی اپنی زبان میں بیان ہے۔ یہ علم گرچہ ترتیب میں علوم القرآن کے بعد آتا ہے، لیکن یہ ترتیب فی الواقع محض اعتباری ہے اور ان دونوں چیزوں میں تعلق تکمیلی نوعیت کا ہے۔ قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی تبیین و تشریح کی ذمے داری سونپی اور اللہ کے رسولؐ نے اس ذمے داری کو اپنے اعمال و اقوال سے نبھایا۔ حدیث و سنت اسی تبیین نبوی کا تحریری سرمایہ ہے۔ یہ حضراتِ محدثین و محدثات کی محنتیں ہی ہیں جن کی بدولت آج ہمارے پاس یہ علم انتہائی منظم و مہذب شکل اور قابلِ فخر انداز میں موجود ہے اور صدیوں سے بغیر کسی انقطاع کے یہ امت اس حدیث کے ذخیرے سے فیضیاب ہورہی ہے۔ کسی اور امت یا کسی اور علمی روایت میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

حضرات محدثین کی عظیم محنت کے اعتراف اور ان کی مبارک زندگیوں کی تاریخ کی تدوین میں تو اہلِ علم پہلے ہی سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں۔ ان کے تراجم و طبقات پر بڑی عالمانہ کتابیں ہمارے ممتاز تاریخی ذخیرے کا انتہائی قابلِ فخر سرمایہ ہیں، لیکن علم حدیث سے وابستہ خوش بخت مسلم خواتین کی حدیث کی علمی و فنی خدمات اور ان کے احوال و تراجم کے حوالے سے باقاعدہ کتابیں بہت کم ہیں اور یہ صدیوں سے امت پر فرضِ کفایہ کی حیثیت سے ایک علمی قرض چلا آرہا تھا۔ ہمارے دور کے مشہور عالم دین، علم حدیث کے خادم، مغربی دنیا کی قدیم اور معروف ترین علمی درسگاہ آکسفورڈ میں علوم اسلامی کے نقیب ڈاکٹر محمد اکرم ندوی حفظہ اللہ و رعاہ کو اللہ تعالیٰ نے اس علمی فرضِ کفایہ کی ادائی کے لیے منتخب فرمایا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس فرضِ کفایہ کو کچھ اس شان سے ادا کیا کہ نہ صرف یہ تاریخی قرض اچھی طرح ادا ہوگیا، بلکہ قرض کی ادائی میں صدیوں کی جو تاخیر ہوئی تھی اس کی بہتر انداز میں تلافی بھی ہوگئی۔

بلاشبہ موسوعہ الوفاء باسماء النساء ایک واجب الاعتراف عظیم علمی خدمت ہے۔ کسی بھی کام کے علمی اعتبار اور اس کے فنی مقام کی تعیین و تحدید کے لیے بنیادی طور پر دو ہی اصول ہوسکتے ہیں۔ پہلی چیز نفسِ موضوع کی قدر و قیمت اور علمی و عملی دنیا میں اس کی اہمیت… دوسری چیز یہ کہ کام کس نہج پر کیا گیا ہے، اس کی گہرائی و گیرائی۔ یہ دونوں اصول اپنی جگہ بہت ہی اہم اور کسی بھی علمی خدمت سے براہِ راست متعلق ہیں۔ ان دونوں اصولوں کی روشنی میں اگر ہم الوفاء باسماء النساء کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں تو موضوعیت پسندی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اس موسوعہ کی بلند علمی قدر و قیمت اور فنی عظمت کا کھل کر اعتراف کریں۔ جہاں تک صاحبِ کتاب جناب ڈاکٹر محمد اکرم ندوی کا تعلق ہے تو گزشتہ تین چار عشروں میں مختلف تصانیف کے ذریعے ان کی خداداد غیر معمولی اور واضح طور پر ممتاز علمی صلاحیتوں کا اظہار ہوتا رہا ہے اور یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ اہلِ علم کو ڈاکٹر صاحب کے علمی تفوق کو تحفظات کے بغیر تسلیم کرنا چاہیے۔

یہ تصنیف علمِ حدیث کی خدمت کے ایک ایسے گوشے سے متعلق ہے جو کئی پہلوؤں سے غیر معمولی طور پر اہم ہونے کے باوجود ابھی تک اگر مخفی نہیں تو کم از کم عام نگاہوں، بلکہ حدیث کی خدمت سے وابستہ متخصصین کی نظروں سے بھی اوجھل ضرور رہا ہے۔ حدیث کی بڑی سے بڑی کتاب کی عالمانہ شرح لکھنا بھی اگرچہ بہت بڑا کام ہے، لیکن اس زمانے میں یہ کام علمی طور پر پہلے کی طرح مشکل اور خونِ جگر کا طالب نہیں رہا۔ ہمارے مدرسوں میں علم کے بڑے بڑے ہنگاموں کے باوجود عام طور پر معاملہ درسیات کی شرح نویسی یا لفظی، بے جان اور مُردہ ترجموں اور تلخیص کی روایت بہت تیزی سے مقبول ہوئی ہے، اور بڑے بڑے اہلِ علم اس کام میں احساسِ زیاں کے بغیر عمریں کھپا رہے ہیں۔ ایسی تاریک علمی فضا میں ڈاکٹر اکرم ندوی نے متقدمین اہلِ علم کی سطح کے جس کام کو عربی زبان میں 43 جلدوں میں مکمل کیا ہے وہ علم کی خدمت کے حوالے سے طرحِ نو بھی ہے اور طرحِ اسلاف کا احیاء بھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اسلاف کی اس مرحوم علمی روایت کی تجدید کی ہے اس میں تو کوئی شبہ نہیں، کیونکہ ایسے علمی کارنامے اُن عباقرہ کی یاد دلاتے ہیں جنھوں نے اسلامی علوم کی روایتوں کی بنیادیں ڈالی تھیں۔ اور طرحِ نو اس طرح کہ ہم بھلے طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمة کا ورد کرتے رہیں اور کہتے رہیں کہ اسلام بلا تفریقِ مرد و زن حصولِ علم کا حکم دیتا ہے لیکن ہمارے پاس علمی خدمات انجام دینے والی خواتین کے حوالے کم ہی تھے۔ اسماء الرجال میں محدثات کے جا بہ جا حوالے تو ملتے ہیں لیکن جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ان کا ذکر ضمنی حیثیت کا ہی حامل رہا ہے۔ اس حوالے سے اسلام پر حملے بھی ہوتے ہیں۔ یعنی ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو میدانِ علم سے دور رکھا ہے۔ وہ انھیں گھر کی چہار دیواری میں محبوس رکھتا ہے اور معاشرے میں سرگرم کردار ادا کرنے سے روکتا ہے۔ وہ مردوں اور عورتوں کو اختلاط سے سختی سے منع کرتا ہے، جس کی بنا پرعورتیں علمی میدان میں استفادہ کرنے سے محروم اور علمی فیض پہنچانے سے قاصر رہتی ہیں۔ مسلمانوں کے دورِ زوال میں عورتوں کی حالتِ زار خواہ اس اعتراض کو حق بہ جانب قرار دیتی ہو، لیکن قرونِ اولیٰ کے اسلامی معاشروں میں عورتوں کو جو مقام و مرتبہ حاصل تھا اُس سے اس اعتراض کی تردید ہو سکتی ہے۔ جواب دینے کی کوشش میں دورِ جدید میں بعض تصانیف وجود میں آئیں، مثلاً ”خدمت ِحدیث میں خواتین کا حصہ“ یا ”عورت اور اسلام“ یا ”اسلام میں عورت کا مقام“ جیسی کتابیں۔ درحقیقت یہ ناممکن تھا کہ تاریخی، جغرافیائی، تہذیبی، ثقافتی اور علمی، نیز ہر حوالے سے ایک آفاقی انقلاب بپا کردینے والی تحریک صرف مردوں کی اجارہ داری کی بنیاد پر کامیاب ہوئی ہو۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب دو چار جلدیں تصنیف فرما دیتے تو بھی جواب ہو جاتا، لیکن انھوں نے ایسا تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے جس کا علم حدیث کی تاریخ میں منفرد مقام حاصل کرنا طے ہے۔ یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی ہوگی کہ جہاں اغیار کے ان حملوں کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کی راہیں گم ہوجاتی ہیں، وہیں ان حملوں کا اثر اور فائدہ یہ ہے کہ پختہ اور سنجیدہ علمی شخصیات اس کا نتیجہ خیز مثبت اثر لیتی ہیں۔ ورنہ جب تک فیمینزم والوں کے حملے نہیں ہوئے تھے ہم اسماء الرجال تک محدود رہے، اور کسی کو اسماء النساء کی نہ سوجھی تھی۔

ڈاکٹر صاحب کو اس کتاب کی تالیف کا خیال 1990ء میں اُس وقت آیا جب برطانیہ میں بعض ایسے مضامین شائع ہوئے کہ دینِ اسلام میں خواتین کی تعلیم کے حصول میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں، اور ایک مستشرق نے کہا کہ مسلمان ایسی پانچ تعلیم یافتہ خواتینِ اسلام کے نام بھی نہیں بتا سکتے جن کا اسلامی علوم کی ترویج میں حصّہ رہا ہو۔ ڈاکٹر صاحب کے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ ایک دو جلدوں میں تاریخ اسلام کی نامور تعلیم یافتہ خواتین کی سوانح حیات اور ان کی علمی خدمات لکھی جائیں تاکہ مستشرقین کی اسلام کے تئیں غلط فہمیاں دور ہوں۔ اسلام اور نبیوں کی تعلیم میں خواتین کو کیا درجہ، دائرئہ کار، علم و ادب، تحقیق و تخریج، تدریس و تعلیم کے حقوق دیے گئے ہیں خود تاریخِ اسلام کی نامور خواتین کی علمی و تعلیمی سرگرمیوں اور کارناموں کو لکھ کر خواتین کے مرتبۂ بلند پروازی کو اجاگر کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اس موضوع پر مطالعہ و تحقیق کا کام شروع کیا تو معلوم ہوا کہ خواتینِ اسلام کی ایک طویل فہرست ہے جو تاریخ میں حدیث و تفسیر، فقہ و فتاویٰ کی خدمات کے حوالے سے ممتاز علمی مقام رکھتی ہیں۔ تحقیق و مطالعہ کے بڑھنے کے ساتھ یہ تعداد بڑھتی ہی چلی گئی، یہاں تک کہ فنِ حدیث سے وابستہ تقریباً دس ہزار ممتاز علمی مقام کی حامل نامور محدثات کی سوانح حیات اور کارناموں کا تذکرہ رقم کردیا۔ اس کام میں پندرہ برس لگے اور نادر کتب و مخطوطات سے استفادے کے لیے مختلف ملکوں کا سفر بھی کیا۔ مزید تحقیق و تخریج کے نتیجے میں یہ تعداد ابھی اور بڑھ سکتی تھی لیکن علامہ یوسف القرضاوی نے کہا کہ اب بس کردیں ورنہ یہ سلسلہ تو کبھی ختم نہ ہوگا۔

اب اس تصنیف کو دیکھ کر ایک متجسس طالب علم کے لیے دو باتیں واضح ہوجاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ فنِ حدیث ہرگز ایسا علم نہیں جو بلا شرکت غیرے تنہا مرد محدثین کی مقبوضہ سرزمین ہو۔ اس عظیم القدر اسلامی علم کی ترویج میں عورتوں کی حصہ داری بھی بہت زیادہ قابلِ لحاظ ہے۔ محدثین نے اگر اپنے خونِ جگر سے اس علمِ نبوی کی آبیاری کی ہے تو محدثات نے بھی اس حوالے سے اپنا خون پسینہ بہایا ہے۔ عورت صنفِ نازک ہے۔ فاطرِ فطرت نے اس پر جو فطری ذمے داریاں ڈالی ہیں وہ مرد کی ذمے داریوں کی بہ نسبت زیادہ نازک بھی ہیں، وسیع الابعاد بھی اور بہت دقت طلب بھی.. ان فطری مسائل کے نرغے میں رہتے ہوئے بھی اس قدر بڑی تعداد میں ہماری بزرگ اور سعید خواتین نے اگر حدیث جیسے علم کی ترویج و ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے تو یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ عورت اپنے فطری فرائض کی ادائی کے ساتھ علم کے میدان میں بھی مرد کے ساتھ اور ان کے برابر کارنامے انجام دے سکتی ہے۔ وَفِى ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ ٱلْمُتَنَٰفِسُونَ۔ دوسری بات یہ ہے کہ عورتوں کی زبردست علمی اور حدیثی خدمات سے یہ بات بالکل مبرہن ہوجاتی ہے کہ اسلام کی تعلیمات عورتوں کی تعلیم پر نہ صرف یہ کہ کوئی قدغن نہیں لگاتیں، بلکہ اسلام اس حوالے سے انتہائی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ مثلا ًالوفاء کے مقدمے (جس کا انگریزی ترجمہ المحدثات کے عنوان سے پہلے ہی شائع ہو چکا ہے)کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری کے اساتذہ میں امام مسلم بن ابراہیم الفراہیدی البصری اور امام ابو الولید الطیالسی جیسے محدثین نے ستّر ستّر شیخات و محدثات سے روایتیں نقل کی ہیں۔ امام ابن عساکر الدمشقی نے 80 اور امام سمعانی نے 79 محدثات سے روایتیں لی ہیں۔ مصر میں علم حدیث کا احیاء خواتین کے ہاتھوں ہوا۔ ابن الرشید السقطی نے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ فاطمہ بنتِ ابراہیم بن محمود الدمشقیہ سفر حج کے دوران مدینہ منورہ آئیں تو وہ روضۂ اطہر کے قریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے بیٹھ کر درس دیا کرتی تھیں اور تھک جانے پر روضۂ رسولؐ کی دیوار سے ٹیک لگا لیا کرتی تھیں۔ اسی طرح حطیم کعبہ میں محدثات کا درس ہوتا رہا ہے۔ مسجد اقصیٰ میں دمشقی محدثات کا درس ہوتا تھا جس میں شریک ہونے والوں کی تعداد 396 تک نقل کی گئی ہے۔ ابن حجر العسقلانی نے عائشہ الدمشقیہ سے 70 کتابیں پڑھی ہیں۔ حدیث کی اصح کتاب امام بخاری کی الجامع الصحیح ہے، اس کا جو مستند و معتبر ترین نسخہ ہے وہ بھی ایک خاتون راویہ کا ہے جو ”نسخہ کریمیہ مروزیہ“ کے نام سے معروف ہے۔ امام بخاری کی سب سے اعلیٰ سند عائشہ بنتِ عبدالہادی المقدسیہ کی ہے جو بیت المقدس کے قبّۃ الصخرہ میں درس دیتی تھیں۔ ان کی سند میں صرف 14 واسطے ہیں۔

بدقسمتی سے اخیر کی صدیوں میں جب ہم پر ہمہ گیر زوال مسلط ہوا اور رسمی دینداری کا دور چل پڑا تو پردہ وغیرہ کے معاملات میں غلو پسندی کی روش عام ہوگئی۔ پردے کے عنوان کے تحت صنفِ نازک پر پابندیوں کو راہ ملی اور عورتوں کی تعلیم و تعلم کی روایت پر بھی اوس پڑ گئی۔ لیکن اس کے لیے ہمارے ناقص مذہبی تصورات ذمے دار ہیں، اللہ کا دین اور اس کی معتدل تعلیمات اس صورتِ حال کے لیے بہرحال ذمے دار نہیں۔

ڈاکٹر صاحب اس عظیم علمی کتاب کی تالیف پر دنیا بھر کی اسلامی برادری اور اسلامی علوم کے طلبہ کی جانب سے شکریے کے مستحق ہیں۔ ایک خیالی پرندہ ہے جو تاروں سے عشق کرتا ہے۔ مختلف ثقافتوں کے اپنے خیالی پرندے ہیں۔ جیسے انگریزی میں فینکس ہے، ہندی میں چکور، فارسی میں ہما، وغیرہ۔ اسی طرح یہ پرندہ تاروں سے عشق کرتا ہے۔

اے طائرِ محبت، پرواز تُو بڑھا لے
یہ آسماں کے تارے نیچے نہ آ سکیں گے

یعنی مقصد و ہدف کبھی قریب نہیں آتا، آپ ہی کو وہاں تک جانا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پرواز بڑھائی اور تاروں کو پا لیا۔ ورنہ ایسے موسوعات علماء و محققین کی ایک جماعت تیار کرتی ہے، نہ کہ ایک فرد۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے تن تنہا یہ حیرت انگیز اور بظاہر ناممکن کارنامہ انجام دیا ہے۔ کہتے ہیں اکیلے چلو، لوگ ساتھ آکر کارواں بنادیں گے۔ لیکن یہاں تو اکیلے ہی چلے، اکیلے پہنچے اور معرکہ سر کرلیا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جو چیز میسر ہوتی ہے اُس کی اتنی قدر نہیں کرتے جس کی وہ مستحق ہے۔ اگر یہی کام کسی نے دو چار صدی پہلے کیا ہوتا تو ہمارے دلوں میں بطور اپنے فن کے امام اُس کی کچھ اور عظمت بیٹھی ہوتی۔ یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ کہ ہم اکثر کسی کی خالص علمی خدمات کا اعتراف اُس کی زندگی میں نہیں کرتے، لیکن میں بجا طور پر کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل قریب میں ڈاکٹر صاحب کا شمار کبار عہد ساز شخصیات میں ہوگا۔ صدیوں پر محیط مسلمانوں کے طویل ماضی میں فنِ حدیث سے وابستہ بزرگ خواتین کے تراجم اور فنِ حدیث کی ترقی اور ترویج میں ان کی خدمات کو جناب ڈاکٹر صاحب نے الوفاء باسماء النساء کے علمی عنوان سے ایک بے نظیر تاریخی گلدستہ کچھ ایسے اچھوتے اور علمی انداز و اسلوب میں سجایا ہے کہ ماضی بعید کے محدثین کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ آنے والے وقت میں جب اس کام پر لوگ پی ایچ ڈی کریں گے، مقالے لکھیں گے تو ڈاکٹر صاحب کا شمار ان عباقرہ میں ہوگا جو کسی صدی میں گنے چنے ہی ہوتے ہیں۔

یہ تصنیف اہلِ علم کو ایک دعوت بھی ہے۔ ہم ناسازیِ حالات اور تنگیِ اوقات و وسائل کا رونا روتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے بتا دیا ہے کہ موانع کام کرنے والے کے قدم نہیں روک سکتے۔

سنگ تو کوئی بڑھ کے اٹھاؤ شاخِ ثمر کچھ دور نہیں
جس کو بلندی سمجھے ہو ان ہاتھوں کی کوتاہی ہے

اس لیے چاہیے کہ حالات جیسے بھی ہوں، حوصلہ و ہمت کریں اور اپنی دلچسپی کے میدان میں کام شروع کردیں۔

حوصلہ ہے تو سفینوں کے علَم لہراؤ
بہتے دریا تو چلیں گے اسی رفتار کے ساتھ

ڈاکٹر صاحب نے علَم لہرا دیا ہے۔ اللہ کرے دوسرے اہلِ علم ان سے حوصلہ لیں۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم علمی خدمت کو حسنِ قبولیت سے نوازے، اہلِ علم کو اس سے استفادے کی توفیق بخشے اور مولف کو ہر طرح کے شرور و فتن سے اپنی حفاظت میں رکھے، آمین۔