سندھ میں صحت کے شعبے کا زوال

صوبہ سندھ میں عرصۂ دراز سے دیگر شعبوں کی طرح صحت کا سرکاری شعبہ بھی زوال اور انحطاط کا مسلسل شکار چلا آرہا ہے۔ ایک عام فرد جب کسی سرکاری اسپتال میں اپنے قدم بہ غرضِ علاج رکھے تو وہاں اُس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ کروڑوں روپے سالانہ بجٹ کے سرکاری اسپتالوں کو تمام تر سہولیات سے آراستہ اور پیراستہ ہونا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جب کوئی بیمار شخص سرکاری اسپتال میں پہنچے تو اوّل تو وہاں ڈاکٹر ہی اپنے وقتِ مقررہ پر موجود نہیں ہوتے، اور اگر خوش قسمتی سے موجود ہوں تب بھی مریضوں کی بہت زیادہ تعداد میں موجودگی کی وجہ سے اسے خاصی دیر تک اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اپنی باری آنے پر جب وہ متعلقہ ڈاکٹر کے کمرے میں پہنچتا ہے تو اکثر یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر بڑی بے زاری کے عالم میں مارے باندھے انداز میں مریض کا معائنہ کرتا ہے اور ایک پرچی پردوا یا پھر ٹیسٹ اسے لکھ کر دے دیتا ہے، اور اکثر اوقات مریض کو ٹیسٹ باہر کی کسی لیبارٹری سے کروانے پڑتے ہیں اور دوا بھی بیرونی میڈیکل اسٹور سے خریدنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتہائی مجبوری کے عالم میں ہی بیمار کسی سرکاری اسپتال کا رخ کرتے ہیں، ورنہ ان کی کوشش تو یہی ہوا کرتی ہے کہ کسی نجی اسپتال سے اپنا علاج کروایا جائے۔

سندھ میں محکمۂ صحت کی عدم کارکردگی کی وجہ سے اب سندھ کے زیادہ تر سرکاری اسپتال تباہی سے دوچار ہوچکے ہیں، اور عدم سہولیات کی بنا پر ویران ہوتے جارہے ہیں جس کی ساری ذمے داری ضلعی افسران سے لے کر متعلقہ صوبائی سیکریٹری صحت اور صوبائی وزیر صحت پر بھی براہِ راست عائد ہوتی ہے جنہیں اپنے تفویض کردہ فرائض کی ادائی میں قطعی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ آج سرکاری اسپتالوں میں آنے والے بے چارے بیماروں کو پیناڈول کی گولی تک میسر نہیں ہوتی۔ اکثر ضلعی ہیڈکوارٹر کے بھاری بجٹ کے سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں نے اب یہ معمول بنا رکھا ہے کہ وہ اپنے ہاں آنے والے بیماروں کو چانڈکا میڈیکل اسپتال لاڑکانہ، غلام محمد مہر میڈیکل کالج سکھر، گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز وغیرہ ریفر کردیا کرتے ہیں، اور وہاں جاکر بھی مریض بے چارے خود کو بے سہارا اور بے بس یا لاچار ہی تصور کرتے ہیں، کیوںکہ مذکورہ اسپتالوں میں بھی بیماروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ سرکاری اسپتالوں کو عدم سہولیات اور کٹھور دل بے حس ڈاکٹروں اور طبی عملے کی وجہ سے بیماروں کا ’’مقتل‘‘ قرار دیا جائے تو شاید اس میں قطعی کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ اسپتالوں کو تباہی سے دوچار کرنے والوں سے ہر کوئی واقف ہے لیکن ذمے داران کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بیشتر ڈاکٹر اور طبی عملہ اپنے سرکاری اوقاتِ کار میں بجائے سرکاری اسپتالوں میں اپنے فرائض ادا کرنے کے، نجی کلینکس اور نجی اسپتالوں میں مصروفِ کار دکھائی دیتے ہیں، جن کا احتساب کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ نجی اسپتالوں میں بیماروں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور ان سے خوب پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک تلخ حقیقت اور امر واقع ہے۔ ماضی میں ڈاکٹروں کا کردار ایک مسیحا کی طرح کا ہوا کرتا تھا۔ وہ کم قیمت لیکن مؤثر دوائیں لکھا کرتے تھے جن سے مریض جلدی شفایاب ہوجایا کرتے تھے۔ اب صورتِ حال اس کے یکسر برعکس ہے۔ ڈاکٹر اپنا کمیشن کھرا کرنے کے لیے مریضوں کو ڈھیروں دوائیں غیر ضروری طور پر لکھ کر دے دیتے ہیں، بے جا قسم کے ٹیسٹ اس پر مستزاد ہوتے ہیں، تاہم خوش قسمت مریض ہی کلی شفایابی سے ہم کنار ہوپاتے ہیں۔ مریضوں کی بڑی تعداد ڈاکٹروں کے کلینکس اور اسپتالوں کے چکر لگاتے لگاتے اپنی زندگی گزار دیتی ہے۔

آج کل سندھ بھر میں بکثرت وبائی امراض ازقسم ملیریا، دست، اُلٹی، ڈینگی، یرقان، ہیپاٹائٹس بی، سی وغیرہ پھیلے ہوئے ہیں۔ بہت بڑی تعداد جِلدی امراض میں بھی مبتلا ہے۔ سندھ اور اس سے ملحق بلوچستان کے علاقے میں بہت بڑی تعداد میں لوگ وبائی امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ کالی کھانسی کی بیماری نے معصوم بچوں کو جکڑ رکھا ہے۔ ہر روز ہی سندھی میڈیا کے ذریعے بیمار معصوم بچوں اور بیمار مرد و خواتین کے ملیریا، ڈینگی اور گیسٹرو کے ہاتھوں جاں بحق ہونے کی افسوس ناک اطلاعات سامنے آتی ہیں لیکن حکومتِ سندھ اس حوالے سے متحرک ہونے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں۔ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں سیاست کرنے میں اُلجھی ہوئی ہیں اور بے چارے بیمار لوگ بڑی بے بسی اور لاچاری سے دوچار ہیں۔ وہ ایسی بیماریوں کی وجہ سے آئے دن دم توڑتے چلے جارہے ہیں جو صد فیصد قابلِ علاج ہیں لیکن صرف مناسب علاج کی عدم دستیابی کی وجہ سے قیمتی جانوں کا مسلسل اور متواتر بکثرت اتلاف ہوتا چلا جارہا ہے۔

سندھ کے سرکاری ڈاکٹر اور طبی عملہ ہمہ وقت اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے لیے تو سرگرم عمل رہتے ہیں لیکن انہیں اپنے فرائض کی ادائی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں حکومتِ سندھ نے جب کورونا کی وبا میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کے لیے جاری کردہ ’’رسک الائونس‘‘ کو وبا کے خاتمے کے بعد ختم کرنے کا اعلان کیا تو سندھ بھر کے ڈاکٹروں اور طبی عملے نے زوردار احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا تھا جس کی وجہ سے سارا نزلہ بے چارے اُن مریضوں پر آن گرا تھا جو سرکاری اسپتالوں میں بغرضِ علاج عدم وسائل کی بنا پر دور دراز مقامات سے آیا کرتے تھے، لیکن ڈاکٹروں نے اپنے ختم کردہ الائونس کی دوبارہ بحالی تک مریضوں کے علاج اور معائنے سے انکار کردیا تھا اور بیمار افراد کئی روز تک اس دوران پریشان اور خوار ہوتے رہے۔ حکومتِ سندھ کے ذمے داران کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کے ہاں دیر تو ہے مگر اندھیر بالکل بھی نہیں ہے۔ اس لیے وہ یہ بات نہ بھولیں کہ آج وہ جو کچھ کررہے ہیں ایک دن انہیں اس کا حساب بھی بہرحال ضرور دینا پڑے گا۔ انسان جو کچھ بوتا ہے وہی اسے خود اپنے ہاتھوں سے کاٹنا بھی پڑتا ہے۔ یہ عہدے اور مناصب اللہ نے بطور امتحان اور آزمائش انہیں عطا کیے ہیں، اس لیے وہ اپنے فرائض سرانجام دینے کے لیے اخلاصِ نیت اور سنجیدگی سے کام کریں، وگرنہ تب کیا ہوگا جب لاد چلے گا بنجارہ!