علاج سے محروم نامور افراد کی رحلت

بیماری امیر غریب سب کیلئے آزمائش اور پریشانی کا باعث ہے

ماضی کے وجیہ، شکیل اور ورسٹائل اداکار، رعب دار شخصیت، دبدبہ اور طنطنہ رکھنے والے لاہور شہر کے سماجی کردار افضال احمد کے چند دن پہلے انتقال کے بعد بدلتے ہوئے سماجی رویوں اور اربابِ بست و کشاد کی بے حسی پر مبنی رعونت پر ایک بحث کا آغاز ہوا ہے جو تاحال جاری ہے۔ اس بحث میں انسان کی بے بسی، حکمرانوں کی بے حسی اور ٹوٹتے ہوئے خاندانی نظام کا نوحہ بھی ہے اور مستقبل میں اس میں پیش بندی کے لیے کچھ اقدامات کرنے کی خواہش بھی۔ اداکار افضال احمد 80,70 اور 90 کی دہائی کے مقبول ترین اداکار تھے۔

ریڈیو، ٹی وی، تھیٹر اور فلم میں ان کی اداکاری کے چرچے تھے۔ اپنی ذاتی حیثیت میں وہ ایک وجیہ و شکیل، خوش لباس اور خوش اطوار شخص تھے جس کی جھلک ان کی اداکاری میں بھی نظر آتی تھی اور ذاتی زندگی میں بھی۔ وہ پورے طنطنے سے گفتگو کرتے، نوابانہ انداز میں چلتے، شاہانہ انداز میں مجلسوں کا حصہ بنتے اور بہت جلد مجالس پر چھا جاتے تھے۔ شہر کے خوش حال لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ اداکاری ان کی ضرورت نہیں، شوق تھا۔

وہ تقریباً تین دہائیوں تک ٹیلی ویژن اسکرین پر چھائے رہے کہ اُس وقت صرف پی ٹی وی ہوتا تھا اور بہت سے اداکاری کے خواہش مند اس ٹی وی کے مین گیٹ کے باہر ہی اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزار کر مایوس لوٹ جاتے تھے۔ وہ فلموں میں آئے تب بھی اپنی شخصیت اور اداکاری کے باعث بڑا نام کمایا۔ انہوں نے تھیٹر پر بھی بہت سے ڈرامے کیے اور پھر خود لاہور کی ایک معروف شاہراہ فیروز پور روڈ پر تماثیل کے نام سے اپنا تھیٹر بنایا جو بہت جلد شائقین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہاں بھی انہوں نے کئی ڈراموں میں کام کیا لیکن زیادہ توجہ انتظامی امور اور اچھے ڈراموں کا انتظام کرنے پر مرکوز رکھی۔

2000ء کے لگ بھگ اُن کے بیوی بچے بیرونِ ملک منتقل ہوگئے لیکن انہوں نے لاہور نہیں چھوڑا۔ خاندان میں کچھ دراڑیں پہلے سے تھیں، بیوی بچوں کے بیرونِ ملک منتقل ہونے کے بعد یہ دراڑیں مزید گہری ہوتی چلی گئیں۔ اس دوران ان پر فالج کا حملہ ہوا جس نے انہیں عملاً اپاہج کردیا۔ وہ بستر کے ہوکر رہ گئے، ملنا ملانا سب کم ہوگیا۔کچھ عزیز اور دوست اُن کے علاج معالجہ میں بھی لگے رہے لیکن انہوں نے اس بیماری اور اپنوں اور غیروں کی سردمہری کو دل پر لگا لیا۔ چنانچہ وہ علاج کے باوجود ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ گئے۔ اس لیے ماضی کے اس وجیہ و شکیل شخص کو اِس حال میں دیکھ کر پہچاننا بھی مشکل تھا۔

گزشتہ ہفتے طبیعت زیادہ خراب ہونے پر انہیں شہر کے سرکاری خیراتی اسپتال ’جنرل اسپتال‘ میں داخل کروا دیا گیا جہاں نہ ڈاکٹروں نے انہیں پہچانا، نہ عملے نے۔ رشتے دار پہلے ہی دور تھے، اربابِ بست و کشاد تک بھی معلوم نہیں یہ خبر پہنچی یا نہیں، انہیں اسپتال میں بستر تک نہ مل سکا اور ایک ایسے بستر پر لٹا دیا گیا جس پر پہلے ہی ایک مریض موجود تھا۔

کسی شوبز رپورٹر تک بھی یہ خبر نہ پہنچ سکی۔ آخری وقت میں کالم نگار توفیق بٹ نے فیس بک پر پوسٹ لگائی تو وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم پر حکام دوڑے، مگر اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ حکام کے پہنچنے تک افضال احمد تمام تکلیفوں سے نجات پاکر اپنے مہربان رب کے حضور پہنچ چکے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد لوگوںنے سوشل میڈیا پر حکومتی بے حسی پر بڑی لعن طعن کی، ان کا کہنا تھا کہ اگر اداکار افضال احمد جیسا نامور شخص اس کسمپرسی کی حالت میں مرنے پر مجبور تھا تو عام آدمی کا اس ملک اور ان اسپتالوں میں کیا حال ہوگا؟

سوشل میڈیا میں ایک نقطہ نظر یہ بھی تھا کہ افضال احمد خوش حال آدمی اور پراپرٹی کے مالک تھے، ان کے بیوی بچے اور خاندان موجود تھا، انہوں نے 22 سال تک جب اپنے پیارے کی خبر گیری نہ کی تو حکومت سے گلہ کیوں؟

بعض لوگوں نے اس رائے کا بھی اظہار کیا کہ شاید افضال احمد کا اپنے بیوی بچوں اور عزیزوں کے ساتھ ایسا رویہ رہا ہو جس کی وجہ سے وہ بھی ان سے لاتعلق ہوگئے۔ اُن کا خیال ہے کہ پہلے اولاد اور قریبی عزیز اپنا فرض ادا کریں پھر حکومت سے گلہ کریں۔ یہ بحث تاحال جاری ہے۔ افضال احمد کے انتقال سے چند روز قبل پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے بیٹے نواب زادہ اکبر علی خان کا بھی تقریباً اسی طرح کے حالات میں کراچی کے ایک اسپتال میں انتقال ہوا۔

اُن کی اہلیہ نے وزیراعلیٰ سندھ سے اُن کے علاج کی اپیل کی تھی، جس کا کیا ہوا؟ شاید کسی کو علم نہیں تھا۔ اُن سے ہفتہ دس دن پہلے ملک کے نامور صحافی، فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر اور پنجاب اسمبلی پریس گیلری کے سابق صدر خواجہ فرخ سعید کا انتقال ہوا تھا، اُن کے تعزیتی ریفرنس میں بھی اسی طرح کے گلے سننے میں آئے۔

خواجہ صاحب نہ صرف ایک قومی اخبار کے چیف رپورٹر اور صحافیوں کے لیڈر تھے بلکہ حکومت اور اپوزیشن کے تمام بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ اُن کے ذاتی مراسم تھے۔ نوازشریف، شہبازشریف اور ان کے خاندان کے لوگ مختلف مواقع پر اُن کے گھر آتے جاتے رہے، وہ بہت سے سرکاری دوروں میں نوازشریف اور دوسرے وزرائے اعظم کے ساتھ اندرون اور بیرون ملک شریکِ سفر رہے، لیکن اُن کی شدید بیماری کے دوران کسی نے اُن کی خبر گیری نہیں کی۔

وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور وفاقی و صوبائی وزرا سب بے حسی کی تصویر بنے رہے۔ ان کے ساتھ ایک ظلم یہ ہوا کہ دو سال قبل ان کے صحافتی ادارے نے انہیں ریٹائر کردیا لیکن تاحال واجبات ادا نہیں کیے۔ ان کی بیماری کے دوران بھی یہ ادارہ بے حسی کی تصویر بنا رہا۔ آخری دنوں میں ان کو معمولی رقم کا ایک چیک بھیجا گیا جو اُن کے واجبات کا پانچواں حصہ بھی نہیں تھا جسے انہوں نے لینے سے انکار کردیا، ساتھ میں ایک تحریر پر دستخط کرنے کے لیے بھی کہا گیا جو انہوں نے نہیں کیے۔

یہ حالات بتا رہے ہیں کہ بیماری امیر غریب سب کے لیے آزمائش اور پریشانی کا باعث ہے۔ اگر اس موقع پر اہلِ خاندان کھڑے ہوجائیں تو یہ وقت بھی کٹ جاتا ہے، لیکن اصل سوال یہی ہے کہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والے اسپتالوں میں علاج کا کیا بندوبست ہے؟ جب حکمران اپنا علاج بیرونِ ملک کرائیں گے تو ان اداروں کا یہی حال ہوں گے۔ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اگر اتنے نامور لوگوں کے لیے بھی حکمران اور حکام حرکت میں نہیں آتے تو عام آدمی کی تکلیف یا موت پر انہیں کیا پریشانی ہوسکتی ہے؟ کاش یہ لوگ کبھی سوچیں کہ یہ وقت خود اُن پر یا اُن کے کسی پیارے پر بھی آسکتا ہے، تب ان کا کرب عام لوگوں سے کہیں زیادہ ہوگا کہ انہوں نے اختیار ہونے کے باوجود بے بس مریضوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ nn