برطانیہ میں مسلمان کُل آبادی کا 6.5 فیصد ہیں
اس صدی کی دوسری دہائی میں ہونے والی برطانوی مردم شماری (انگلینڈ اور ویلز) اس حوالے سے تاریخ ساز ہے کہ برطانوی ریاست کی تاریخ میں پہلی بار پچاس فیصد سے کم افراد اب خود کو عیسائی کہتے ہیں۔ نئی مردم شماری جو کہ سالِ گزشتہ 2021ء میں ہوئی تھی، اس کے نتائج اب عوام کے سامنے پیش کردیے گئے ہیں جس کے مطابق اب صرف 46.2 فیصد افراد جو کہ 27.5 ملین آبادی پر مشتمل ہیں، خود کو عیسائی کہتے ہیں۔
جبکہ گزشتہ مردم شماری 2011ء کے نتائج کے لحاظ سے خود کو عیسائی کہنے والوں میں 13 فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی ہے۔ تاحال برطانیہ کا سب سے بڑا مذہب عیسائیت ہے، لیکن عیسائیت کے بعد نئے اعداد وشمار کے مطابق اب لادینیت ہے۔ مردم شماری میں 37.2 فیصد افراد جوکہ 22.2 ملین آبادی ہیں، اپنے آپ کو لادین کہتے ہیں۔ اس میں دس سالوں میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ برطانیہ میں مسلمان کُل آبادی کا 6.5 فیصد ہیں، اس طرح عیسائیت کے بعد اسلام برطانیہ کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔ ہندو برطانیہ کی آبادی کا 1.7 فیصد ہیں۔
برطانوی دارالحکومت لندن اس حوالے سے منفرد شہر ہے کہ یہاں عیسائی کُل آبادی کا 40.7 فیصد ہیں، جبکہ لادین افراد کی تعداد 27.1 فیصد ہے۔ برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں مسلمانوں کی تعداد 15 فیصد ہے، جبکہ ہندو 5.1 فیصد ہیں۔ لندن میں اب غیر مقامی لوگوں کا راج ہے جہاں برطانوی نسل گورے اب اقلیت میں ہیں اور یہ لندن کی کُل آبادی کا صرف 36.8 فیصد ہیں۔ غیر برطانوی گورے 17 فیصد، افریقی النسل افراد 11.8 فیصد، جبکہ ایشیائی جن میں بھارتی، پاکستانی، سری لنکن اور بنگالی النسل افراد شامل ہیں 14 فیصد ہیں۔
اس مردم شماری میں اِس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ برطانیہ میں گزشتہ دس سالوں میں مسلمانوں کی تعداد میں 44 فیصد اضافہ ہوا ہے جوکہ ایک ریکارڈ ہے۔ اسی طرح ایشیائی نسل افراد اس وقت برطانیہ میں دوسری سب سے بڑی آبادی کے حامل ہیں۔ اسی وجہ سے پنجابی اور اردو برطانیہ کی پانچویں اور چھٹی بڑی زبانیں ہیں۔ 2011ء سے 2021ء تک دس سال میں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد میں 41 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ برطانیہ میں مقیم بھارتی باشندوں کی تعداد میں 32 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
برطانیہ کے دو بڑے شہروں لندن اور برمنگھم سمیت لیسٹر اور لوٹن جیسے شہر بھی اب کثیر النسلی شہروں میں شامل ہیں کہ جہاں ابادی کی اکثریت برطانوی النسل گوروں پر مشتمل نہیں ہے۔ گوکہ اس حوالے سے یہ بات بھی مردم شماری میں واضح کی گئی ہے کہ لندن کے بعد مسلمانوں کی دوسری بڑی آبادی برمنگھم میں ہے کہ جہاں چند علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی کُل آبادی کا 87 فیصد تک بھی ہے۔
برطانیہ میں ہر دس سال بعد پابندی سے مردم شماری کا انعقاد کیا جاتا ہے، اور اس ہزارویں کی ابتدا میں سال 2001ء کی مردم شماری میں پہلی بار مذہب کا خانہ مردم شماری میں داخل کیا گیا۔ سال 2001ء کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں خود کو عیسائی کہنے والے افراد کُل آبادی کا تقریباً 72 فیصد، اور خود کو مسلمان کہنے والے افراد کُل آبادی کا تقریباً 3 فی صد، جبکہ لادین کُل آبادی کا تقریباً 15 فی صد تھے۔
اب ان بیس سالوں میں صورتِ حال یہ ہے کہ عیسائیت سکڑ کر 46 فیصد اور اسلام بڑھ کر تقریباً دو گنا یعنی 6.5 فیصد ہوچکا ہے، لیکن اس ساری صورتِ حال میں اصل بات یہ ہے کہ عیسائیت سے نکل کر جانے والے افراد اب بڑی تعداد میں لادین ہورہے ہیں۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کی اصل وجہ ہجرت اور مسلمانوں کی مقامی آبادی میں اضافہ ہے۔
مسلمان گوکہ اب برطانیہ کے ہر کونے و کوچے میں موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کے پاس متفقہ اجتماعی قیادت ناپید ہے۔ اسی طرح مسلکی اختلاف، مذہبی منافرت اور کج فہمی نے مسلمانوں کو مغرب، خاص طور پر برطانیہ میں محدود کردیا ہے۔ گوکہ اس حوالے سے کم و بیش ہر مسجد میں دعوت کا کام جاری ہے لیکن مسلمان مغرب میں رہ کر کوئی بہت بڑا قابلِ تقلید معاشرتی نمونہ مغرب کو نہ دکھا سکے کہ جس کو دیکھ کر مغرب میں بسنے والے اسلام کے پیغامِ حیات آفریں سے اپنی پیاس بجھاتے۔
برطانیہ کی یہ مردم شماری اس حوالے سے اہم ترین ہے کہ ایک ہزار سال سے عیسائیت پر قائم ریاست کا اب غالب مذہب خود مسیحیت نہیں ہے۔ یہ نہ صرف ایک بڑی خبر ہے بلکہ اس بات کا عندیہ بھی ہے کہ آنے والے دنوں میں برطانوی بادشاہت جوکہ دراصل کلیسا کی نیابت بھی ہے، اس پر زد پڑنے والی ہے۔ تادم تحریر لیبر پارٹی نے آج پھر اپنے نئے انتخابی منشور میں اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ نئی آئینی اصلاحات لانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں سب سے اہم برطانوی ایوانِ بالا یعنی ہاؤس آف لارڈز کا خاتمہ ہے۔
یاد رہے برطانوی ہاؤس آف لارڈز کی تاریخ بھی برطانوی ریاست کی تاریخ جتنی ہی قدیم ہے کہ جہاں تمام تر افراد بادشاہ اور کلیسا کے نامزد کردہ ہوتے ہیں، اور اصل میں بطور چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ کے بادشاہ کے پاس ہی ان کی تقرری کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔ ماضی میں کی گئی کئی اصلاحات کے بعد اب ایک فارمولے کے تحت بادشاہ تمام بڑی پارٹیوں کو ہاؤس آف لارڈز میں نمائندگی دیتا ہے، لیکن بہرحال وہ منتخب نہیں بلکہ نامزد کردہ یا مقرر کردہ ہوتے ہیں۔
برطانیہ میں جس طرح تیزی سے ایک بڑی آبادی اب اپنے آپ کو مسیحیت سے لاتعلق کررہی ہے، اس سے یہ بات واضح ہے کہ جلد ہی ہاؤس آف لارڈز کے ساتھ برطانوی بادشاہت کی رہی سہی عمل داری کا خاتمہ ہوجائے گا، اور تقریباً ایک ہزار سال کے بعد ایک نیا برطانیہ ظہور پذیر ہوگا جوکہ شاید مکمل سیکولر اقدار پر مبنی ہو۔ اس میں نہ صرف مسیحیت بلکہ تمام مذاہب کو ایک زبردست قسم کا چیلنج درپیش ہوگا، اور برطانوی قوانین کو مکمل سیکولر بنانے کی راہ میں کلیسا کی ایک چھوٹی مزاحمت بھی دم توڑ جائے گی۔ سیکولرازم کا عفریت جہاں ریاستوں کو نگل رہا ہے وہاں یہ سیکولرازم کے سوا کسی مذہب کا وجود بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ یہ مستقبل قریب میں برطانوی ریاست کو کہیں سیکولر فاشسٹ ریاست میں تبدیل نہ کردے۔