مجھے اپنی پوری زندگی میں کسی چیز کا پچھتاوا اور شکایت نہیں ہوئی جدید اردو غزل کے ممتاز شاعر ،نقاد و ادیب سحر انصاری کی کہانی
فرائیڈے اسپیشل: کیا شاعری انسان کو بہتر انسان بنانے میں مدد دیتی ہے؟
پروفیسر سحرانصاری: جی ہاں! بالکل دیتی ہے۔ اگر کوئی انسان اپنے محسوسات کی سطح پر شاعری پڑھے تو یقیناً اس سے تبدیلی آتی ہے۔ میں خود اپنی بات بتائوں کہ ایک زمانہ یہ تھا کہ مجھے بہت ہی زیادہ ڈپریشن ہوتا تھا، پھر یہ کہ میری والدہ کی طبیعت بہت زیادہ ناساز رہتی تھی اور یہ لگتا تھا کہ اب رخصت ہوئیں تب رخصت ہوئیں۔ اس وقت میں اقبال کا یہ شعر اپنے ذہن میں پڑھتا رہتا تھا کہ
اگر کج رو ہے انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
اور اس سے مجھے بڑا سکون ملتا تھا۔ تو میں اپنی مثال دے سکتا ہوں کہ ہاں! انسان شاعری سے بہت کچھ اپنی زندگی میں سیکھ سکتا ہے۔ جہاں مایوسی ہو وہاں رجائیت پیدا کرسکتا ہے۔ جیسے میر تقی میر کہتا ہے کہ
میرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
تو یہ کتنی بڑی بات کہہ دی ہے کہ کامیابیوں سے تو سبھی کام لیتے ہیں لیکن ناکامیوں سے کام لے کر دکھائو۔ یہ چیزیں آدمی کے لیے چیلنج بنتی ہیں اور پھر وہ سوچتا ہے کہ جب ایک شخص نے ایسا کیا ہے تو میں کیوں نہیں کرسکتا؟
فرائیڈے اسپیشل: یہ بات تواتر کے ساتھ دہرائی جانے لگی ہے کہ ہمارا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے اور اب شعر و ادب کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اس فکر کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
پروفیسر سحرانصاری: نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ انسان نے مشین ایجاد کی ہے لیکن وہ مشین بننے سے گریز کرتا ہے۔ اس کی کبھی یہ خواہش نہیں ہوگی کہ اسے مشین کی طرح استعمال کیا جائے۔ حالانکہ کمپیوٹر، موبائل، انٹرنیٹ اور دوسری سائبر ٹیکنالوجی، یہ ساری کی ساری انسانوں کی ذہانت کی بدل بنتی جا رہی ہے، لیکن اس کے باوجود انسانی ذہانت ان سے برتر ہے کیونکہ اگر ذہانت ان کو ایجاد نہ کرے تو یہ خود کچھ بھی نہیں ہیں۔ ایسے روبوٹ ایجاد کیے جارہے ہیں جو دفاتر میں کام کریں گے، ہوٹلوں میں ویٹر کا کام کریں یا اسپتالوں میں نرسوں کا کام کریں گے۔ ٹھیک ہے، مگر نرس کے دل میں انسانیت کی جو ایک رمق ہے اور انسانیت کے لیے جس طرح اس کا دل دھڑکتا ہے، پسیجتا ہے وہ جذبہ روبوٹ تو نہیں رکھتا۔ جیسا کہ اقبال نے کہا ہے کہ
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
فرائیڈے اسپیشل: مجنوں گورکھ پوری نے کہا تھا کہ ادب زندگی کا ترجمان ہوتا ہے، اور نقاد بھی زندگی کے ساتھ سائے کی طرح وابستہ ہے، اس لیے زندگی کی تبدیلی کے ساتھ ادب بھی بدلتا ہے۔ آپ اسے کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟
پروفیسر سحرانصاری: ہاں! بالکل، اس زمانے میں آپ دیکھیے وہ نظمیں جو لکھی گئیں مثلاً عزیز حامد مدنی کی شاعری میں آپ کو سائنس جمالیاتی سطح پر ملے گی۔ انہوں نے آپریشن تھیٹر پر نظم لکھی ہے۔ انہوں نے ایئرپورٹ کی ایک رات پر نظم لکھی ہے۔ ٹرام پر انہوں نے نظم لکھی ہے۔ اسی طرح شہزاد احمد نے بھی کائنات کے بعض سائنسی پہلوئوں پر لکھا ہے۔ تو جو لوگ وسیع المطالعہ ہیں یا یہ سوچتے ہیں کہ اب ہمیں اپنی روش کو تھوڑا تبدیل کرنا چاہیے تو وہ کام کررہے ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے اور ان کی پذیرائی بھی اس لیے نہیں ہوتی کہ بڑی سطح پر ان کا جو کام ہے وہ سمجھنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تر عام سے الفاظ میں عام سی باتیں کہہ دی جاتی ہے اور جنہیں سہل ممتنع کے نام پر قبول کرکے واہ واہ ہوجاتی ہے۔ لیکن فکریاتی شاعری کا ہونا بہت ضروری ہے اور جتنی بھی بڑی شاعری ہوئی ہے وہ فکریاتی شاعری ہوئی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: سلیم احمد نے ایک زمانے میں کہا تھا کہ ادب مرگیا ہے، یعنی وہ آدمی غائب ہوگیا ہے جس کے لیے ادب ایک سنجیدہ مسئلہ اور مشغلہ تھا۔ آپ اس خیال سے کتنے متفق ہیں؟
پروفیسر سحرانصاری: یہ بات سب سے پہلے حسن عسکری صاحب نے کہی تھی غالباً 50کی دہائی میں کہ ادب کی موت واقع ہوگئی ہے، سلیم احمد چونکہ اُن کے شاگرد تھے اس لیے اکثر اُن کے کلمات اور اقوال دہرایا کرتے تھے۔ بہرحال عسکری صاحب نے اُس زمانے میں محسوس کیا اور اب بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ ادب مررہا ہے کیونکہ کتابیں نہیں پڑھی جارہی ہیں جو کہ بالکل مفروضہ ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جب کتابوں کے میلے لگتے ہیں تو کتابیں لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہوجاتی ہیں۔ تمام ٹیکنالوجی کے باوجود یہ چیزیں اپنی اہمیت آج بھی رکھتی ہیں، اور پھر ٹیکنالوجی تو سائنس کو ایک مجسم شکل دینے کا نام ہے، یعنی اگر کوئی فارمولا پہلے سے تیار نہ کیا ہو سائنس دانوں نے، تو چاہے ایٹم بم ہو یا ہوائی جہاز یا کوئی دوسری مشین… آپ اسے ایجاد نہیں کرسکتے جب تک اس کے پیچھے کوئی نظریہ یا فارمولا نہ ہو۔ اور وہ فارمولا ایسی چیز ہے کہ آئن اسٹائن جیسے سائنس دان نے کہا ہے کہ بڑی سطح پر جاکر شاعری اور فزکس ایک ہوجاتے ہیں کیونکہ دونوں کے ہاں امیجی نیشن کی سطح اتنی ہی بلند ہوجاتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ادب کا سب سے بڑا انعام نوبیل سمجھا جاتا ہے لیکن لوگ کہتے ہیں کہ نوبیل انعام میں بھی سیاست کا عمل دخل ہے جس کی مثال یہ ہے کہ رابندرناتھ ٹیگور کو ادب کا نوبیل پرائز دے دیا گیا لیکن اقبال کو نہیں دیا گیا، حالانکہ اقبال ٹیگور سے بڑے شاعر تھے۔ اسی طرح ہمارے زمانے میں مصر کے نجیب محفوظ کو ادب کا نوبیل انعام دیا گیا لیکن قرۃ العین حیدر کو نہیں دیا گیا حالانکہ قرۃالعین حیدر نجیب محفوظ سے بڑی ناول نگار تھیں۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
پروفیسر سحرانصاری: بات یہ ہے کہ نوبیل پرائز کے لیے بنیاد شرط یہ ہے کہ انہوں نے جو تین چار زبانیں مقرر کر رکھی ہیں ان میں کتابوں کا ترجمہ ہوچکا ہو۔ تو اتفاق کی بات یہ ہے کہ فیض نے بھی ترجمہ کرنا شروع کیا، فراق گورکھ پوری نے بھی اور قرۃ العین حیدر نے بھی، اور انہیں نوبیل پرائز کے لیے شارٹ لسٹ بھی کیا گیا، لیکن چونکہ ان کا کام پورا نہیں ہوسکا اس لیے انہیں نوبیل پرائز نہیں ملا۔ ٹیگور کو آسانی یہ ہوئی کہWilliam Butler Yeatsجوانگلستان کا سب سے بڑا شاعر تھا، اس نے ان کی کتاب گیتا نجلی کا ترجمہ کیا اور اس پر ایک ایسا مقدمہ لکھ دیا کہ لوگوں نے کہا کہ یہ تو بالکل نئی چیز ہے، کیونکہ اُس وقت پہلی جنگِ عظیم کے بعد یورپ کی نفسیاتی اور روحانی کیفیت میں جو ایک بے کیفی پیدا ہوچکی تھی اور ان کے لیے ایک مسئلہ بن گیا تھا کہ اب زندہ کیسے رہا جائے گا، اور اسی زمانے میں جیسے سی جی یونگ نے ایک کتاب لکھی ”ماڈرن مین اِن سرچ آف اے سول“۔ اُس وقت پورا یورپ روحانیت کی تلاش میں سرگرداں ہوگیا اور آج تک ہے۔ اسی لیے آپ دیکھیے کہ مغرب میں مولانا روم کے جتنے زاویے بنے اور کتابیں اس زمانے میں چھپی ہیں شاید ہی کسی شاعر کی چھپی ہوں۔ تو وہ روحانیت کی تلاش میں تھے اور ٹیگور اس لحاظ سے انہیں پسند آیا کہ یہ ہمارے لیے ایک نسخہ کیمیا ہے۔ اس کے مقابلے میں اقبال نے سیاست اور خلافت کی طرف زیادہ زور دیا، پھر جب ضرب کلیم چھاپی تو اس میں دورِ حاضر کے خلاف اعلانِ جنگ اور مغربی تہذیب کے خلاف مسلسل تنقید تھی، تو ظاہر ہے کہ یہ چیزیں ان کے حق میں نہیں جاتی تھیں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ اقبال اور ٹیگور کے مزاجِ شاعری میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
پروفیسر سحرانصاری: اقبال کے یہاں بہت تنوع ہے، شاعری میں بہت سارے موضوعات ہیں، اور پھر اس کے علاوہ تجربے بھی بہت کیے ہیں انہوں نے۔ اور اگر ان کا فارسی کا کلام رکھ لیا جائے تو ٹیگور بالکل نہیں ٹھیرتے۔ چونکہ ہمارے ہاں فارسی کا رواج ختم ہوگیا اس لیے ہمیں ان کی بڑی اور عظیم شاعری تک رسائی نہیں ہوتی جو کہ جاوید نامہ، اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، ارمغان حجاز اور پیام مشرق میں موجود ہے۔ یہ وجہ بھی ہے کہ اقبال کے ہاں ورائٹی بہت ہے اور انہوں نے بڑی شاعری اِن معنوں میں کی ہے کہ اُن کے ہاں لفظوں کی جو غنائیت ہے وہ بھی بہت کمال کی ہے، مثلاً ان کا یہ مصرع کہ
وہ دانائے سبل ختم الرسل، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
اب یہ دیکھیے سبل، رسل اور کل میں پیش اور لام کی تکرار سے کیسی غنایت پیدا کی ہے۔ ایک اور شعر دیکھیے:
خودی کا نشیمن تیرے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
تو بڑی قوت ہے اقبال کی شاعری میں، اور ورائٹی بھی بہت ہے۔ جبکہ ٹیگور کی شاعری میں یکسانیت ہے جس کو آپ وحدت الوجود کی شاعری کہہ سکتے ہیں، جبکہ اقبال وحدت الوجود کے خلاف تھے۔
فرائیڈے اسپیشل: ممتاز ترقی پسند مصنف اور نقاد مجنوں گورکھ پوری نے آج سے تقریباً بیس سال پہلے کہا تھا کہ ترقی پسند تحریک کی موت واقع ہوگئی ہے، لیکن آج بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ترقی پسند تحریک زندہ ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا تجزیہ ہے؟
پروفیسر سحرانصاری: بات یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک مختلف طریقے سے آج بھی قائم ہے۔ لاہور میں، کراچی میں، سکھر میں، کوئٹہ میں ہے۔ اور تحریک اتنے معنی نہیں رکھتی جتنی یہ ہے، کہ جو ترقی پسند تحریک کا مقصد تھا وہ کیا تھا اس کو دیکھا جائے۔ وہ مقصد یہی تھا کہ غریبوں کو، ناداروں کو احساس دلایا جائے کہ یہ جو تم غریب ہو یہ تمہیں قدرت نے غریب نہیں بنایا ہے بلکہ نظام نے غریب بنایا ہے۔ یہ شعور پیدا کرنا ادب کا کام ہوتا ہے۔ اب اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجنوں گورکھ پوری ہوں یا فیض احمد فیض… ان کے اشعار آپ کو دائیں بازو کے رسالوں میں بھی نظر آئیں گے کیونکہ انہوں نے بات ایسی کہہ دی ہے کہ
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
کہ ٹھیک ہے ہم انقلاب نہیں لاسکے، ہم نہیں دیکھ سکے تو ہماری آنے والی نسل تو دیکھے گی۔ اب چاہے دائیں کے لوگ ہوں یا اس کے مخالف ہوں، ہر ایک کے ذہن میں یہی بات ہوگی کہ بھئی ہم پر جدوجہد ختم نہیں ہوتی، ہمارے بعد بھی جاری رہے گی۔ چونکہ شاعری میں اگر نعرہ نہیں ہے تو اس کے اثرات سب قبول کریں گے۔ اور جب تک دنیا میں طبقاتی کشمکش رہے گی ، جب تک سرمایہ دارانہ نظام رہے گا، ترقی پسند تحریک زندہ رہے گی، آپ دیکھ لیجیے کہ امریکہ ہمارے ساتھ کیا کررہا ہے… افغانستان، شام، عراق اور ایران کے ساتھ وہ کیا کررہا ہے۔ جب فلسطین کے بارے میں کوئی لکھتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ ترقی پسند ہے۔ تو بھئی ترقی پسند اس لیے ہے کہ وہ ان ہلاکتوں اور زیادتیوں کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اس کا دل دُکھتا ہے اس بات پر کہ بچوں کو ٹینکوں سے روندا جارہا ہے۔ وہ چلارہے ہیں توپیں، اور یہ پتھر اور غلیل سے مقابلہ کررہے ہیں۔ کشمیر کے لیے لوگ روتے ہیں۔ تو یہ مسائل ہیں جو ترقی پسندی کی جڑ ہیں۔ باقی جو لوگ نعرے بازی کرتے رہے ان کا کوئی نام بھی نہیں لیتا۔
فرائیڈے اسپیشل: بعض لوگ کہتے ہیں کہ کمیونزم کا خاتمہ امریکی سی آئی اے کی سازش سے ہوا، جبکہ کچھ لوگوں کے نزدیک کمیونزم کا جبر اس کے خاتمے کا سبب بنا، جبکہ ایک خیال یہ ہے کہ کمیونزم کا جو تصورِ انسان تھا وہ بہت ناقص تھا۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
پروفیسر سحرانصاری: پچھتر یا بہتّر سال جتنے بھی ہوئے اس میں امریکہ اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر مسلسل اس کو توڑنے کی کوشش میں لگا رہا۔ تو ظاہر ہے کہ پوری دنیا ایک طرف اور ایک ملک ایک طرف تو کسی نہ کسی طرح تو وہ کامیاب ہوں گے ہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے گوربا چوف کو پلانٹ کیا اور گوربا چوف نے پوپ سے اسپین میں ملاقات کی اور وہاں یہ ساری باتیں طے ہوئیں، میں نے خود بی بی سی سے سنا کہ مارگریٹ تھیچر نے روس کا دورہ کرنے کے بعد کہا کہ میں نے ریگن سے ملاقات کی ہے اور ایک بہت بڑی خبر دنیا کو سننے کو ملے گی۔ تو یہ پوری ایک سازش تھی۔ اور ظاہر ہے جب ایک ہاتھی مسلسل ایک دیوار کو ٹکر مارتا رہے گا تو کبھی تو دیوار ٹوٹے گی، اور پچھتر برس بہت ہوتے ہیں، پھر بھی انہوں نے مقابلہ کرلیا اور اب بھی وہ اپنی جگہ قائم ہیں۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ سوویت یونین باقی نہیں ہے لیکن باقی تمام ریاستوں میں وہ اس نکتہ نظر کو مانتے ہیں کہ انسان کو انسان کی سطح تک لانا اور شرفِ انسانیت تک پہنچانا بہت ضروری ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک زمانہ تھا کہ ہمارے درمیان ایسے ادیب اور شاعر موجود تھے جن کے ہاں ادب ایک طرزِ حیات تھا، لیکن اب ہمارے ہاں ایسے لوگ نظر نہیں آتے، ایسا کیوں ہے؟
پروفیسر سحرانصاری:نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہر ایک کا ظاہر طرزِ حیات ادب ہی سے متعین ہوتا ہے۔ جیسا انسان ہوتا ہے ویسا ہی اس کا اسلوب ہوتا ہے، ویسا ہی اس کا طرزِ سخن ہوتا ہے یہ بات درست ہے۔ بظاہر آپ ان کو بڑے فریم میں رکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کا قد اتنا نہیں ہے۔ اور کچھ ہیں بڑے فریم میں لیکن آپ ان کو گھٹا کر پیش کرنا چاہتے ہیں، تو یہ تو برابر ہماری تنقید کا نکتہ نظر رہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک خیال ہے یا تصور میں آتا ہے کہ ہم ماضی میں دیکھتے رہے ہیں کہ ادیب اور شاعر کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ مفلوک الحال قسم کی آتی ہے، کہ وسائل کم ہوں گے اور اس کے پاس زیادہ آسائش نہیں ہوگی۔ لیکن شاید آج صورت حال مختلف ہے۔ آپ اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
پروفیسر سحرانصاری: ظاہر ہے پہلے ادیب اور شاعر کا کام شعر لکھنا ہوتا تھا، یا داستان گو تھا تو داستان لکھتا اور سناتا تھا۔ لیکن ان کی سرپرستی امرا، مختلف بادشاہ، تعلق دار اور صوبہ دار وغیرہ قسم کے لوگ کرتے تھے۔ تقسیمِ ملک سے پہلے کا دور آپ دیکھ لیجیے کہ ہر شاعر کسی نہ کسی امیر سے، بادشاہ سے وابستہ تھا، کسی نہ کسی سلطنت سے وابستہ تھا چاہے وہ بھوپال ہو، حیدرآباد دکن ہو، بھاولپور ہو یا جونا گڑھ… یعنی ان سے ادیب وابستہ رہتے جس سے انہیں ایک طرح کی خوشحالی نصیب تھی۔ دوسرا یہ کہ فلم انڈسٹری سے وابستگی سے بھی ان کے ہاں خوشحالی آئی۔ بہت سے شاعر فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ پھر اس کے بعد جب ملک تقسیم ہوا اور پاکستان قائم ہوا تو یہ فضا بالکل بدل گئی۔ اب یہ ہوا کہ جوش ملیح آبادی جیسے شاعر سے بھی اسکندر مرزا نے پوچھا تھا کہ شاعری کے علاوہ آپ کیا کرتے ہیں؟ تو یہ ہے کہ شاعری کے علاوہ پیٹ پالنے کے لیے اب کچھ کرنا پڑتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یعنی شاعری پیٹ نہیں پال سکتی؟
پروفیسر سحرانصاری: جی ہاں!
فرائیڈے اسپیشل: ہمارے زمانے کو ترقی اور جمہوریت کا دور کہا جاتا ہے لیکن اِس زمانے میں اتنے بڑے شاعر اور ادیب پیدا نہیں ہورہے جتنے بڑے ملوکیت اور زرعی معاشرت نے پیدا کیے۔ مثلاً عہدِ جدید میں کوئی شیکسپیئر پیدا نہیں ہوتا، کوئی اور بڑا نام ہمیں نہیں ملتا، کوئی رومی پیدا نہیں ہوتا۔ اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
پروفیسر سحرانصاری: اصل میں یہ بات تو ہے کہ اب سے تقریباً پچاس برس پہلے آپ کو ایک پوری کہکشاں نظر آتی ہے۔ تو پچاس یا سو برس کوئی اتنی بڑی مدت نہیں ہے، اور وقت آئے گا کہ کوئی نہ کوئی تخلیق کے ذریعے بڑا نام پیدا کرے گا، کیونکہ لوگ غالب کے بعد سمجھتے تھے کہ اب فارسی میں کوئی بڑا شاعر نہیں آئے گا لیکن اقبال پیدا ہوئے۔ اور شیخ عبدالقادر نے ”بانگ درا“ کے دیباچہ میں لکھا بھی ہے کہ اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو کہتا کہ غالب کی روح اقبال میں حلول کر گئی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آج کا منظر کیا نظر آتا ہے؟
پروفیسر سحرانصاری: ابھی تو زیادہ خوش آئند نہیں ہے۔ بس سمجھیے کام چل رہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ جو قحط الرجال ہے کہ کوئی بڑا ادیب پیدا نہیں ہورہا، کوئی بڑا شاعر پیدا نہیں ہورہا اس جمود سے کیسے نکلا جائے؟
پروفیسر سحرانصاری: اس کے لیے وقت لگے گا۔ مشین تو ہے نہیں کہ جس میں بڑے شاعر ڈھال کر نکال لیے جائیں۔
اقبال کو دیکھیے کتنا وقت گزر گیا ہے اور اس اثنا میں کتنے لوگ پیدا ہوئے۔ بہرحال جوش پیدا ہوئے، فیض پیدا ہوئے، منیر نیازی پیدا ہوئے، احمد ندیم قاسمی پیدا ہوئے، عزیز حامد مدنی پیدا ہوئے، مصطفیٰ زیدی پیدا ہوئے، احمد فراز پیدا ہوئے، ناصر کاظمی پیدا ہوئے۔ یہ کوئی کم درجے کے شاعر نہیں ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: پچھلے دس سال میں اگر ایسے نام گننا چاہیں تو شاید نہ گن پائیں؟
پروفیسر سحرانصاری:نصیر ترابی ہیں، افتخار عارف ہیں، عباس تابش ہیں۔ خواتین میں شاہدہ حسن ہیں، حمیرا رحمٰن ہیں۔ یہ اچھے شاعر ہیں، اچھے شعر کہہ رہے ہیں۔ فراست رضوی نے رباعیات پر بڑا کام کیا ہے، ظفر اقبال موجود ہیں۔ اسی طرح صابر ظفر نے تمام صوبوں کی زبانوں کو الگ الگ اپنے دیوان میں شاعری میں برتا ہے اور اب تک اُن کے پینتالیس مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ انہوں نے تو ہماری مقامی زبانوں کو بھی شاعری میں شامل کیا ہے۔ یہ نام ایسے ہیں جو گنوائے جاسکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: ہندوستان اور پاکستان کے ادب اور ادبی صورت حال کا موازنہ کرتے ہوئے، کیا تبصرہ کریں گے؟
پروفیسر سحرانصاری: جیسے ہمارے ہاں اوسط درجے کی شاعری ہورہی ہے ہندوستان میں اوسط درجے کی بھی نہیں ہورہی۔ وہاں شاعری کا خانہ بہت خالی ہوچکا ہے، البتہ تحقیق، تخلیق اور تنقید میں اُن کے ہاں بڑا کام ہوا ہے۔ ابھی مشرف ذوقی صاحب کا انتقال ہوا۔ انہوں نے تقریباً چالیس ناول لکھے ہیں، اس کے علاوہ ان کے افسانے ہیں، تراجم ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کا انتقال ہوا، انہوں نے داستانوں اور میر تقی میر پر بہت کام کیا ہے۔ خود ناول بہت عمدہ لکھا ہے انہوں نے، اور وہ بہت بڑی شخصیت تھے۔ ہندوستان میں اس حوالے سے پاکستان سے بہتر لوگ موجود ہیں۔ شمیم حنفی کا حال میں انتقال ہوگیا۔ وسیم بریلوی بہت اچھے شاعر ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اردو مذہب اور شاعری کی زبان ہے، اس کا سائنس اور ٹیکنالوجی سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے اردو زبان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
پروفیسر سحرانصاری: یہ تو بالکل غلط بات ہے۔ ایک تو یہ کہ عثمانیہ یونیورسٹی کی مثال سامنے رکھیے کہ اس میں جن لوگوں نے اردو میں تعلیم حاصل کی پاکستان بہت حد تک اُن کا مرہونِ منت ہے۔ یا ڈاکٹر منور علی جن کا پلاسٹک سرجری میں پاکستان میں سب سے بڑا نام ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر رضی الدین صدیقی جن کے بارے میں آئن اسٹائن نے کہا کہ چھے آدمی اضافیت کے نظریے کو جانتے ہیں ان میں سے ایک ڈاکٹر رضی الدین بھی ہیں۔ اس کے علاوہ احمد محی الدین صاحب جو سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے، اور بے شمار ادیب اور شاعر جو یہاں حیدرآباد سے آئے انہوں نے مثالیں قائم کی ہیں۔ کام ہم کرتے نہیں ہیں، آپ دیکھیں کہ مقتدرہ قومی زبان کتنا مشکل لفظ تھا لیکن جب یہ رواج پاگیا تو آپ رکشہ والے سے کہیے وہ پہنچا دیتا ہے۔ اب اس کا نام ادارۂ فروغ اردو رکھ دیا گیا ہے۔ ایسی تو حماقتیں ہمارے ہاں ہورہی ہیں۔ جب آپ کسی چیز کو استعمال ہی نہیں کریں گے تو اس کی حیثیت اور ماہیت کس طرح سے سامنے آئے گی! یہ سب کہنے سننے کی باتیں ہیں، بقول ہمارے چیف جسٹس کو بھی کہنا پڑا ہے کہ: ”میں نے اردو کو بطور سرکاری زبان نافذ کرنے کا قانون پاس کردیا ہے لیکن قوتِ نافذہ نہیں ہے، اور جن کے پاس قوتِ نافذہ ہے وہ بالکل نہیں چاہتے کہ اردو قومی و سرکاری زبان بنے۔“
فرائیڈے اسپیشل: ہمارے ہاں مطالعے کا رجحان کم ہوگیا ہے۔ کتابیں پہلے ہزار چھپتی تھیں، اب پانچ سو، چھ سو پرآگئی ہیں، اور بعض جگہ تو تین سو بھی چھپ رہی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ سو پر آجائیں۔ اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
پروفیسر سحرانصاری: اس کا ایک سبب یہ ہے کہ پہلے اسکولوں، کالجوں میں مطالعے اور لائبریری کا بھی ایک گھنٹہ ہوا کرتا تھا، لیکن اب ایسی تمام چیزیں ختم کردی گئی ہیں۔ برسوں کوئی طالب علم لائبریری کی طرف نہیں جاتا، اور پھر پہلے لائبریری گلی گلی میں ہوا کرتی تھی اس میں لوگ جاتے تھے، جاکر کتابیں لاتے اور پڑھ کر واپس کردیتے تھے۔ اب نہ گھروں میں اتنی جگہ ہے کہ لوگ اپنی ذاتی لائبریریاں بناسکیں اور نہ کتابیں اتنی سستی ہیں۔ ابھی میں نے دیکھا کہ احتشام حسین صاحب کا تنقید کا ایک مجموعہ شائع ہوا ہے جس کی قیمت ہے ڈھائی ہزار روپے، اور میرا خیال یہ ہے کہ احتشام صاحب کو کبھی اپنی ایک کتاب کی رائلٹی بھی ڈھائی ہزار نہیں ملی ہوگی۔ اب آدمی سوچتا ہے کہ ڈھائی ہزار روپے میں راشن لے کرآئوں یا کتاب خریدوں؟ ترجیحات میں فرق پیدا ہوگیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: لوگ کپڑے اور جوتے خریدتے ہوئے یہ نہیں دیکھتے کہ قیمت تین ہزار یا چارہزار ہے، لیکن کتابیں خریدتے ہوئے ضرور سوچتے ہیں۔
پروفیسر سحرانصاری: بالکل درست کہہ رہے ہیں آپ۔ ظاہر ہے کہ ترجیحات میں فرق پیدا ہوگیا ہے۔ ایک طرف پیزا ہزار روپے کا کھا لیں گے لیکن ہزار روپے کی کتاب نہیں خریدیں گے۔ جتنے بڑے بڑے ہوٹل ہیں اُن میں لائن لگانی پڑتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کھانا مفت تقسیم ہورہا ہے۔ ایک ایک خاندان کا ستّر، پچھتر ہزار روپے بل آتا ہے اور وہ ادا کردیتے ہیں، لیکن کتاب پر نہیں کرتے۔
فرائیڈے اسپیشل: اپنی پچھلی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو کیا سوچتے ہیں کہ مجھے یہ نہیں کرنا چاہیے تھا؟ اور دوسرا سوال یہ کہ ایسی کیا چیز ہے جو آپ کرنا چاہتے تھے اور ابھی تک کر نہ پائے؟
پروفیسر سحرانصاری: یہ سوال میں نے بھی کئی بار خود سے کیا، اور بھی لوگوں نے کیا، لیکن میں واقعی پوری دیانت داری سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھے اپنی پوری زندگی میں کسی چیز کا پچھتاوا اور شکایت نہیں ہوئی، جو کچھ میں کرنا چاہتا تھا وہ ہوا اور میرے راستے میں ایسی رکاوٹیں نہیں آئیں کہ میں دوسرے راستے اختیار کرلیتا یا منفی سوچ کی طرف چلا جاتا۔ رجائیت مجھ میں ہمیشہ رہی۔ میں کبھی مایوس نہیں ہوا۔ میں اپنی کتابوں کی لائبریری قائم کرنا چاہتا ہوں، یہ میری سب سے بڑی خواہش ہے۔ اس نسبت سے مجھے امید تو نہیں ہے کہ میری زندگی میں یہ تعمیر ہوسکے گی لیکن یہ ایک چیز ہے جو پوری نہیں ہوپائی۔ باقی اللہ کا شکر ہے۔ اب یہ خواہش میرے لیے خود ایک دردِ سر اس لحاظ سے ہے کہ سوچتا ہوں ان کتابوں کا بھی وہی حشر ہوگا جو اور تمام دوستوں کی کتابوں کا ہوتا رہا ہے۔ تو یہ ملال ہے میرے دل میں۔ لیکن میرے وسائل اتنے نہیں ہیں کہ ہزار گز کے پلاٹ پر لائبریری بناسکوں۔ یہ اطمینان ہے کہ کم سے کم میری بیٹی ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر دیکھ بھال کرلیں گی۔ اولاد کی طرف سے، اپنی فیملی کی طرف سے،دوستوں کی طرف سے، اپنے گھر بار کی طرف سے میں بہت مطمئن ہوں۔ مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔