قرضوں کی ادائیگی سب سے بڑا معاشی چیلنج

بیرونی اور اندرونی قرضوں کی مالیت جی ڈی پی یعنی مجموعی ملکی پیداوار کی 90 فیصد پہنچ گئی ہے

پاکستان کے تمام مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ معاشی بحران ہے۔ گزشتہ 7 برسوں کے دوران میں پاکستان کا بیرونی قرضہ 65 ارب ڈالر سے بڑھ کر 130 ارب ڈالر ہوگیا ہے، حکومت نے واجب الادا ایک ارب ڈالر قرض کی ادائیگی کردی ہے، جب کہ سعودی عرب نے پاکستان کے ذمے واجب الادا 3ارب ڈالر کا قرضہ ری شیڈول کردیا ہے یعنی مہلت دی ہے، جس کے نتیجے میں فوری طور پر پاکستان بڑے معاشی بحران سے نکل آیا ہے، لیکن معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی یہ مسئلہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا بلکہ عارضی طور پر ملکی معیشت پر بیرونی دبائو میں کمی آئی ہے۔ بیرونی قرضوں کی واپسی ملک کے لیے سب سے بڑا معاشی چیلنج ہے جس سے نبرد آزما ہونا موجودہ اور آئندہ سالوں میں بننے والی حکومتوں کے لیے دردِ سر بنا رہے گا۔ ملکی معیشت پر نظر رکھنے والے ایک نجی ادارے نے پاکستان کی معاشی صورتِ حال کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا معاشی مسئلہ تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ نہیں بلکہ آئندہ برسوں میں واجب الادا قرضوں کی واپسی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان ہر 25 سال بعد ایک بڑے معاشی بحران سے دوچار ہوتا ہے۔ 2008ء کے بعد رواں مالی سال 23-2022ء بھی بڑے معاشی بحران کا منظر پیش کررہا ہے۔ رپورٹ میں آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئندہ تین سال یعنی مالی سال 2023ء تا مالی سال 2025ء کے دوران پاکستان کو 73 ارب ڈالر قرض کی واپسی کرنی ہے، جب کہ حال یہ ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 7 سے 8 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کو ان واجب الادا قرضوں کی واپسی کے لیے سعودی عرب کی طرح چین سے بھی قرضوں کی واپسی ری شیڈول کرانی پڑے گی، جب کہ پیرس کلب سمیت دیگر انٹرنیشنل قرضوں کی واپسی میں مہلت کے لیے کوشش کرنی پڑے گی۔

گزشتہ 7 سال میں پاکستان کے بیرونی قرضوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، مالی سال 15-2014ء میں بیرونی قرضوں کی مجموعی مالیت 65 ارب ڈالر تھی جو جی ڈی پی کا 24 فیصد بنتی ہے، رواں مالی سال یہ قرضے 130 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جو جی ڈی پی کا 40 فیصد بنتا ہے۔ ان بیرونی قرضوں کے ساتھ اندرونی قرضے بھی شامل کیے جائیں تو پاکستان کے مجموعی قرضے 60 ہزار ارب روپے بنتے ہیں جو جی ڈی پی یعنی مجموعی ملکی پیداوار کا 90 فیصد بنتا ہے۔ مالی سال 15-2014ء یعنی سات سال پہلے یہ قرضے 20 ہزار ارب روپے کے تھے جو جی ڈی پی کا 72 فیصد بنتے ہیں۔ ہماری مجموعی ملکی پیداوار کے مقابلے میں قرضوں کی مالیت 90 فیصد تک پہنچ چکی ہے، یعنی اگر ہم 100 روپے کماتے ہیں تو اس کے مقابلے میں 90 روپے ہم پر قرض ہے۔ آئندہ برسوں میں واجب الادا قرضوں میں 30 فیصد چینی قرضے ہیں جس کے لیے پاکستان کو چین سے تعاون حاصل کے لیے کوششیں کرنی پڑیں گی، جب کہ ساتھ ہی آئی ایم ایف سے بھی آئندہ تین سے پانچ سال میں 30ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ بیرونی قرضوں کی واپسی کے زیراثر آئندہ سالوں میں بھی پاکستانی روپے پر دبائو برقرار رہے گا، جب کہ موجودہ حکومت ہو یا آئندہ الیکشن کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت… بیرونی قرضوں کا انتظام آئندہ سالوں میں بڑا چیلنج بنا رہے گا۔ عالمی مارکیٹ میں خام تیل سمیت دیگر اجناس کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی اور کساد بازاری میں کمی آنے کی صورت میں صورتِ حال بہتر ہوسکتی ہے۔

رپورٹ میں موجودہ سیاسی عدم استحکام کو بھی خطرناک قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے بروقت معاشی اقدامات تاخیر کا شکار ہورہے ہیں۔ وزیر خزانہ پُرعزم ہیں کہ ملک ’’ڈیفالٹ‘‘ نہیں کرے گا، غیر ملکی ادائیگیاں وقت پر کی جائیں گی، سکوک بانڈز پر ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کا بندوبست کیا جارہا ہے، 22 ارب ڈالرمیں سے8,7 ارب ڈالرکا انتظام باقی رہ گیا، رواں ہفتے یہ بھی ہوجائے گا۔ یہ امر ملکی معیشت کے لیے خوش کن ہے کہ سعودی عرب نے بھی پاکستان کو زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے کے لیے ایک سال قبل جو تین ارب ڈالر دیے تھے اور ان کی مدت 5 دسمبر کو مکمل ہونے والی تھی، اس میں ایک سال کی مزید توسیع کردی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی اس کی تصدیق کرچکا ہے کہ 3 ارب ڈالر ڈپازٹ کی سہولت میں توسیع کردی گئی ہے۔ یہ سب مثبت معاشی اشارے سمجھے جارہے ہیں، لیکن حقیقی معنوں میں پاکستان مشکل ترین معاشی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ صرف اس بات کا جواب چاہیے کہ یہ مستعار رقم ہاتھ سے نکل گئی تو کیا ہم ڈیفالٹ کی جانب نہیں جارہے ہوں گے؟ بہرحال حکومت کے سخت ناقد سابق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے ڈیفالٹ کیے جانے کی غیر ذمہ دارانہ بات نہیں کریں گے۔ کیا اُن کی خاموشی مسائل کا حل ہے؟ مسائل کا حل صرف اسی میں ہے کہ پاکستان کی معیشت کا رکا ہوا پہیہ چل پڑے۔ ملکی معیشت کی بہتری ممکن ہے اگر ہمارے اس خطے کے حالات درست ہوجائیں۔ ہمیں اس وقت علاقائی امن کے حوالے سے خطرہ بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے، ملک میں دہشت گردی کی حالیہ وارداتیں خطرے کے نشان کو عبور کررہی ہیں۔

ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کی حکومتی کوشش سخت آزمائش سے دوچار ہے، سیاست دان ہیں کہ مارنے مرنے پر تیار نظر آرہے ہیں اور ایک ساتھ بیٹھنے پر مائل نہیں ہیں۔ ایک جانب فوری انتخابات کا مطالبہ ہے اور دوسری جانب سے جواب میں کہا جارہا ہے کہ اسمبلی کی مدت میں ایک سال کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ کیا اس کشیدہ سیاسی ماحول میں معیشت بہتر ہونے کی امید کی جاسکتی ہے؟ پی ڈی ایم اس کوشش میں ہے کہ سیاسی حریفوں کی کوئی بات سنی جائے نہ مانی جائے۔ سیاسی اَنا کی اسیری اور سیاسی سرکس کے ماحول سے بحران کیسے ٹالا جاسکے گا؟ المیہ تو یہ ہے کہ کسی کو فکرنہیں۔ سیاسی بحران کے حل کے لیے اَنا کی بلند ترین چوٹی سے نیچے اُترنا ہوگا۔ انتخابات اپنے وقت پر ہوئے تو اگلے سال اکتوبر میں ہوجائیں گے۔ تحریک انصاف کو اپنی کامیابی کا زعم ہے، کیا عمران خان مارچ/اپریل میں انتخابات کرواکر، اِس معیشت کے سہارے اگلا بجٹ پیش کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ جب فریق اپنی اَنا چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر آئیں تو انتخابات پر بھی اتفاق ہوسکتا ہے۔ اصل مسئلہ انتخابات کا نہیں، ان کے نتائج کو تسلیم کرنے کا ہے۔ اگر انتخابی نتائج تسلیم نہ کیے گئے تو معاشی سلامتی اور پائیداری کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ پھر اصلاح کے لیے ہنگامی اقدامات سے بھی کام نہیں چلے گا۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ

قرض کی پیتے تھے مے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

معیشت سے جڑے ہوئے سوال اور چیلنج بہت بڑے ہیں اور حل دشوار اور پیچیدہ تر۔ اس وقت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 7 ارب ڈالر ہیں، ایک گہری کھائی ہمارے آگے بھی ہے اور پیچھے بھی۔ ہمارا تو دفاعی بجٹ بھی رسک پر چل رہا ہے، ملک کے اندر جاری شورشوں کا سیاسی حل تلاش نہ کیا گیا تو پھر بیرونی طاقتوں کے کھل کھیلنے کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ ہائبرڈ سیاسی نظام تو منہدم ہوچکا ہے، اب عوام کی فلاح و بہبود اور پائیدار سیاسی نظام کے لیے سیاسی قیادت اپنے رویوں کی اصلاح کرے تو ملک میں بہتری آسکتی ہے۔ سیاسی رویّے بہتر نہ ہوئے تو ہمارے لیے چیلنج بڑھتے چلے جائیں گے۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم قرض خواہی کی زندگی کو خیرباد کہہ کر پیداواری معیشت کے ڈھانچے کی جانب کب بڑھیں گے جس کے نتیجے میں کرنٹ اکائونٹ اور بجٹ خسارہ کم ہو اور اصل مرکز عوام کی ترقی اور سلامتی ہو، جس کے لیے ریاست کے تمام ستونوں کی اصلاح کی ضرورت ہے، اور بنیادی شرط یہ ہوگی کہ سیاست دان فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کے بجائے اپنے معاملات آپس میں افہام و تفہیم کے ساتھ پارلیمنٹ میں حل کریں، ورنہ شطرنج کی سیاسی بازیاں ہماری ملکی سلامتی کے اقدامات کو بھی شہہ مات دے سکتی ہیں۔

اسمبلیاں توڑنے اور بچانے کا اصل معرکہ پنجاب میں ہونے جارہا ہے۔ یہ صوبہ میدانِ کارزار بننے کو ہے۔ وزیر خزانہ قوم کو اندھیرے میں رکھے ہوئے ہیں اور دعویٰ کر رہےہیں کہ ہم ڈالر کو 200 روپے سے نیچے لے جائیں گے، ڈیفالٹ کا خطرہ ختم ہوگیا ہے، ہم نے آئی ایم ایف سے معاملہ طے کرلیا ہے۔ مگر بھانڈا پھوٹ چکا ہے، تمام بینکوں کو نئی ایل سی کھولنے سے منع کردیا گیا ہے۔ ہماری وہ صنعت جس کا برآمدات میں ایک نمایاں حصہ ہے اُن کے پاس خام مال صرف ایک ماہ کا رہ گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ادویہ تک ناپید ہوتی جارہی ہیں اور برآمدکنندگان نے پیسہ بلاک کردیا ہے، انہیں حکومت کے تجویز کردہ ڈالر ریٹ پر اتفاق نہیں۔

اس معاشی پس منظر میں سیاسی بحران بھی بڑھ رہا ہے۔ اتفاق سے اگلے ہفتے سقوطِ ڈھاکا کو اکیاون سال ہوجائیں گے، کیا پچاس سال قبل سقوطِ مشرقی پاکستان کی وجوہات یہی نہیں تھیں؟ ہمارے پاس ملکی نظام کے لیے آئین بھی ہے، معاشرے کے سدھار اور سماجی انصاف کے لیے قانون اور انتظامی ادارے بھی… مگر اس کے باجود ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں شدید عدم استحکام کا سامنا ہے۔ عدم استحکام پیدا کرنے کا صرف ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے کہ ملک کی باگ ڈور ایسے گروہ کے ہاتھ میں دی جائے جوسیاہ و سفید کے مالک ہوں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو، وہ آئین اور قانون کوموم کی ناک بنائے رکھیں جس سے ادارے کمزور اور ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہوجائے اور حالات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ معاشی بدحالی اور مہنگائی سے تنگ آکر لوگ ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگیں۔

یہ کہانی گزشتہ سات آٹھ ماہ کی نہیں ہے بلکہ ہر حکمران یہی چاہتا رہا کہ قانون اُس کی مرضی کا بنے، آئین جیسی وہ چاہے ویسی راہ دکھائے، اور انتظامی ادارے وہی نتائج دیں جیسے وہ چاہتا ہے۔ گزشتہ سات آٹھ ماہ میں جو کچھ ہوا اس نے تو ماضی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ جانور، میر جعفر، میر صادق جیسے الفاظ تو کم درجے کی حدت رکھتے ہیں، ویڈیوز جاری کی گئیں۔ یہ ہماری سیاست کا انتہا درجے کا شرمناک باب ہے جسے بند ہوجانا چاہیے۔ سیاسی رویّے اس قدر بے رحم دکھائی دیے کہ تین کروڑ سیلاب زدگان کے نام پر اربوں روپے اکٹھے کرنے والوں نے ان لاچاروں کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا۔ملک میں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے آثار ابھی تک نظر نہیں آ رہے ہیںپیدا کرنے کی کوششیں ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں، تحریک انصاف پنجاب اور خیبرپختون خوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے لیے مسلسل مشاورت کررہی ہے، فیصلے کا حتمی اختیار عمران خان کے پاس ہے۔

پی ٹی آئی کے استعفوں سے ملک بھر میں 567 نشستیں خالی ہوں گی، اگر متفقہ فیصلہ ہوگیا تو پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں تحلیل ہوں گی، جبکہ سندھ اور بلوچستان کے اراکین اسمبلی استعفے جمع کرائیں گے، اسپیکر قومی اسمبلی کو بھی پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کرنے کا کہا جائے گا۔ تحریک انصاف چاہتی ہے کہ پورے ملک میں بیک وقت قومی انتخابات ہوں۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب اسمبلی بچانے کے لیے ہر حربہ آزمائے گی، اس کے لیے چاہے کسی بھی حد تک جانا پڑے۔ وفاق کے پاس گورنر راج لگانے کا آپشن ہے، وزیراعظم شہبازشریف کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری بھی دیگر سیاسی راہنمائوں سے رابطے میں ہیں اور تمام آپشنز پر بات چیت ہورہی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں تو انتخابات ہونے کی صورت میں ان دونوں صوبوں میں 60 روز میں انتخابات کرانا ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی بندوبست کرلیا جائے وہ وقتی ہی ثابت ہوگا۔ اِس طرح کے حالات میں آخر کتنے عرصے تک معاملات کو سنبھالا جا سکتا ہے؟ تحریک انصاف صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردیتی ہے تو ضمنی انتخابات کرانا پڑیں گے لیکن مسئلہ حل نہیں ہوگا، سیاسی عدم استحکام معاشی نظام کو مزید کمزور کردے گا۔

معاشی استحکام کی منزل ہمیں کیسے مل سکتی ہے جبکہ اس وقت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بات چیت رواں مالی سال کے لیے نظرثانی شدہ میکرو اکنامک فریم ورک کے حوالے سے کسی وسیع تر معاہدے کے بغیر تعطل کا شکار ہے جس کے نتیجے میں نویں جائزے کی تکمیل اور آئندہ سال 2023ء کے لیے ایک ارب ڈالر کی قسط کے اجراء میں تاخیر کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔