غریب لوگ ہمارے دور میں جس طرح تنہا ہوئے ہیں اُس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
کراچی کے علاقے ملیر کی شمسی سوسائٹی میں قتل اور خودکشی کی کوشش کی ہولناک اور لرزہ خیز واردات ہوئی ہے۔ خبر کے مطابق ملزم فواد نے بیوی اور تین بیٹیوں کو قتل کرکے خودکشی کی کوشش کے دوران خود کو زخمی کرلیا۔ پولیس نے فواد کو زخمی حالت میں تحویل میں لے کر جناح اسپتال منتقل کیا۔ ملزم فواد نے اعترافی بیان میں بتایا کہ اسے گزشتہ چار ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تھی جس کی وجہ سے گھر میں میاں بیوی کا جھگڑا رہتا تھا۔ ملزم کے بقول وہ پیسوں کی تنگی کی وجہ سے ڈپریشن میں تھا۔ وہ بیوی کو سمجھا بجھا کر تھک چکا تھا۔ واردات کے روز بیوی واش روم گئی تو فواد نے پہلے 16، 12 اور 10 سالہ بیٹیوں کو قتل کیا، بیوی آئی تو اُسے بھی قتل کردیا، اور پھر ملزم فواد نے خودکشی کی کوشش کی۔ تحقیقات کے مطابق ملزم مسالحے کی ایک کمپنی میں منیجر تھا مگر اسے گزشتہ چار ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تھی جس کی وجہ سے گھر میں تصادم کی صورتِ حال تھی۔ واردات کے روز بھی میاں بیوی کے درمیان شدید جھگڑا ہوا تھا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی غربت اور عسرت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی ہدایت کی ہے جو انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انتہائی شدید غربت انسان کے تعلق باللہ تک کو کھا جاتی ہے۔ انسان کو انتہائی عسرت میں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں نہ کوئی انسانی رشتہ موجود ہے نہ اس کا کوئی خدا ہے۔ ہوتا تو وہ اس کی مدد ضرور کرتا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غربت کو کفر تک لے جانے والی چیز قرار دیااُس وقت غربت کا مسئلہ کئی وجوہ سے زیادہ سنگین نہیں تھا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد تقدیر پر انسان کے کامل یقین کا عہد تھا، چنانچہ غریب انسانوں کی عظیم اکثریت سمجھتی تھی کہ ان کی غربت ایک تقدیری مسئلہ ہے اور ہمیں اپنی تقدیر کو قبول کرنا چاہیے۔ اس زمانے کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ وہ قبائلی زمانہ تھا، چنانچہ کوئی شخص انتہائی غربت میں مبتلا ہوتا تو اس کا پورا قبیلہ اس کی مدد کو آتا تھا۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ ہندوستان میں ان کے محلے میں جو نادار لوگ ہوتے تھے محلے کے کھاتے پیتے گھرانے اُن کی ضروریات پوری کرتے تھے، انہیں تین وقت کا کھانا مہیا کرتے تھے، پہننے کے لیے کپڑے دیتے تھے اور عام اخراجات کے لیے تھوڑی بہت رقم بھی دے دیتے تھے۔
چنانچہ انتہائی غریب لوگ بھی زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کے قابل رہتے تھے۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے صورت ِحال یہ ہوگئی کہ تقدیر پر انسانوں کی عظیم اکثریت کا ایمان ہی نہیں رہا۔ چنانچہ غریبوں کی اکثریت کو غربت ایک بھیانک جرم کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کی زندگی‘ زندگی ہی نہیں ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ قبائلی نظام کیا، خاندانی نظام بھی ٹوٹ پھوٹ چکا ہے، چنانچہ غریب افراد معاشرے میں بے یارومددگار ہوگئے ہیں۔
اب محلہ داروں کو کیا، عزیزوں اور خون کے رشتوں تک کو اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ ان کا کوئی عزیز کس حال میں ہے۔ چنانچہ غریب لوگ ہمارے دور میں جس طرح تنہا ہوئے ہیں اُس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ایک زمانہ تھا کہ انسانوں کا مسئلہ صرف غربت تھی اور انسان ’’معاشی دبائو‘‘ نام کی چیز سے آگاہ نہیں تھے۔ لیکن ہمارے زمانے میں معاشی دبائو غربت کی طرح ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
ایک وقت تھا کہ چیزوں کی قیمتیں چالیس چالیس اور پچاس پچاس سال تک مستحکم رہتی تھیں اور کرنسی کی بے قدری کا کوئی وجود نہیں تھا۔ چنانچہ متوسط طبقہ غربت کے احساس اور معاشی دبائو سے آزاد ہوتا تھا، لیکن ہمارے زمانے میں صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ مہنگائی ایک طوفان بن چکی ہے اور ڈالر کے مقابلے پر پاکستانی کرنسی کی بے قدری نے متوسط طبقے کے بڑے حصے کو معاشی دبائو کا شکار کردیا ہے۔ اس معاشی دبائو کو ہم ذاتی مثال سے عیاں کرتے ہیں۔
ابھی چھے سات ماہ پہلے تک ہمارا بجلی کا بل 6 ہزار روپے تھا، جو اب بڑھ کر 18,500 روپے ہوچکا ہے۔ ہماری اہلیہ گھریلو استعمال کی چند بڑی اشیاء اسٹور سے خرید کر لاتی تھیں اور ان کا بل 10 ہزار روپے ہوتا تھا، مگر اب مہنگائی کے طوفان کی وجہ سے یہ بل 20 ہزار روپے سے بڑھ گیا ہے۔ دودھ، دہی، چکن اور مٹن کے نرخوں میں ہوش ربا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس صورتِ حال نے ہمارے گھر کے ماہانہ اخراجات میں 30 سے 40 ہزار روپے کا اضافہ کردیا ہے، جب کہ ہماری تنخواہ میں ایک روپے کا اضافہ بھی نہیں ہوا۔
اس کے نتیجے میں ہماری ’’مناسب آمدنی‘‘ اچانک ’’قلیل‘‘ ہوگئی ہے اور ایک معاشی دبائو ہمارے سر پر سایہ فگن ہوگیا ہے۔ یہ معاشی دبائو صرف ہمارا نہیں کروڑوں افراد کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ اتنا سنگین ہے کہ اگر کسی شخص کو دفتر سے چار ماہ تنخواہ نہ ملے تو اُس کی خانگی زندگی تباہ ہوسکتی ہے، اور گھر میں موجود فتنے و فساد کی صورتِ حال کسی شخص کو اس بات پر مائل یا مجبور کرسکتی ہے کہ وہ اپنی تین بیٹیوں اور بیوی کو قتل کرکے خودکشی کی کوشش کرے۔
غربت اور معاشی دبائو صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی صورتِ حال ہے۔ مغرب نے گزشتہ دو صدیوں میں جو دنیا تخلیق کی ہے وہ جبر اور استحصال کا بدترین نمونہ ہے۔ اس دنیا میں صرف سیاسی جبر نہیں ہے بلکہ معاشی جبر بھی موجود ہے۔ کہنے کو ہم اکیسویں صدی میں ’’واک‘‘ کررہے ہیں اور ستاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں مگر کروڑوں انسان معاشی جبر کی چکی میں پس رہے ہیں۔
2021ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا میں 69 کروڑ 80 لاکھ لوگ ایسے ہیں جن کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے کم ہے، 69 کروڑ افراد آبادی کے اعتبار سے تین پاکستانوں کے برابر ہیں۔ آپ بتایئے جن لوگوں کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے کم ہے کیا وہ انسانوں کے شایانِ شان غذا کھا سکتے ہیں؟ وہ بیمار پڑیں تو کیا ان کا مناسب علاج ہوسکتا ہے؟ کیا ایسے لوگوں کے بچے اچھی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں؟ کیا ایسے انسانوں کے بچوں کو تعلیم کے بغیر اچھا روزگار میسر آسکتا ہے؟ کیا ایسے انسانوں کے پاس رہنے کے لیے مناسب مکان ہوسکتا ہے؟ کیا ایسے لوگ خود کو کبھی باوقار انسان محسوس کرسکتے ہیں؟ کیا ایسے افراد کی دوسروں اور خود اُن کی اپنی نظر میں کوئی ’’عزت‘‘ ہوسکتی ہے؟
2021ء ہی کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے ایک ارب 80 کروڑ انسانوں کی یومیہ آمدنی 3.20 ڈالر ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ ایک ارب 80 کروڑ افراد بھی معاشی جبر اور غربت ہی کا شکار ہیں۔ 2021ء ہی کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 3 ارب 29 کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کی یومیہ آمدنی ساڑھے پانچ ڈالر ہے۔ یہ لوگ ’’غریب‘‘ تو نہیں ہیں مگر مستقل ’’معاشی دبائو‘‘ کا شکار رہتے ہیں۔ یہ لوگ صرف اپنی بنیادی ضروریات پوری کرپاتے ہیں۔
یہ لوگ کچھ بھی پس انداز کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ مہنگائی کی ذرا سی بلند لہر اِن کی ’’مناسب آمدنی‘‘ کو اچانک ’’قلیل‘‘ بنا کر رکھ دیتی ہے۔ جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بھارت چند ماہ پیشتر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے مگر اس کے باوجود بھارت میں معاشی جبر کا یہ عالم ہے کہ ایک ارب 40 کروڑ افراد میں سے ایک ارب افراد اتنے غریب ہیں کہ وہ روزانہ صرف 123 روپے خرچ کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ بھارت کی غربت اور پسماندگی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ بھارت میں 60 کروڑ افراد کے گھروں میں بیت الخلا یا ’’ٹوائیلٹ‘‘ نہیں ہے۔ چنانچہ ہم نے بھارت کے دوروں میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ صبح کے وقت ہزاروں ہندو عورتیں سڑکوں کے کنارے بیٹھی رفع حاجت کررہی ہیں۔ اب سنا ہے کہ مودی نے اس مسئلے پر توجہ دی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں بیت الخلا بنوائے ہیں۔
غربت اور معاشی دبائو کے حوالے سے پاکستان کی حالت بھی خستہ ہے۔ پاکستان کے 23 کروڑ لوگوں میں 10 کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے کھڑے ہوئے ہیں، یعنی ان لوگوں کی یومیہ آمدنی ایک ڈالر اور دو ڈالر کے درمیان ہے۔ مزید پانچ کروڑ افراد خطِ غربت سے ذرا سا اوپر بیٹھے ہوئے ہیں اور مہنگائی کی کوئی بلند لہر انہیں کسی بھی وقت خطِ غربت سے نیچے دھکیل سکتی ہے۔
امریکہ کہنے کو دنیا کی واحد سپر پاور اور سب سے بڑی معیشت ہے، مگر اس کے باوجود امریکہ میں غریب لوگوں کی تعداد چار کروڑ سے زیادہ ہے۔ 2017ء کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں غربت اور معاشی دبائو کے باعث 60 کروڑ 63 لاکھ افراد غذائی قلت کا شکار ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا میں دو ارب انسانوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، اس لیے ہر سال 8 لاکھ لوگ ڈائریا سے مر جاتے ہیں۔ مغرب کی تخلیق کی ہوئی اس جنت میں 15 کروڑ افراد ایسے ہیں جن کے پاس سرے سے گھر ہی نہیں ہے۔ تعلیم کے دائرے میں پاکستان کا یہ حال ہے کہ ہمارے ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر کھڑے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس حوالے سے عالمی صورتِ حال کیا ہوگی۔ ظاہر ہے کہ یہ پورا منظرنامہ غربت اور معاشی دبائو کا شاخسانہ ہے۔
آج سے بیس، پچیس سال پہلے کا زمانہ غربت اور معاشی دبائو کے اعتبار سے ’’بہتر زمانہ‘‘ تھا، مگر اس بہتر زمانے میں بھی لوگوں پر جو گزر رہی تھی اس کا ادراک عام نہیں تھا۔ آج سے بیس سال پہلے روزنامہ جنگ میں ایک ہفتہ وار کالم شائع ہوتا تھا۔ کالم نگار غریب بستیوں میں چلا جاتا تھا اور لوگوں سے پوچھتا تھا کہ ان کی آمدنی کیا ہے؟ ان کے مسائل کیا ہیں؟ وہ کیا کھاتے ہیں؟ کیا پیتے ہیں؟ ان کالموں میں اکثر لوگ کہتے تھے کہ ان کے گھر میں سال میں ایک بار گوشت پکتا ہے اور یہ گوشت بھی بقرعید پر کہیں سے آجاتا ہے۔
ایک خاتون نے بتایا کہ وہ سبزیاں شام کو اُس وقت خریدنے جاتی ہے جب سبزیوں کی تلچھٹ باقی رہ جاتی ہے، یہ تلچھٹ اسے سستے داموں مل جاتی ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ ان کی بیٹی کی شادی محلے داروں نے مل کر کرائی ہے اور شادی میں باراتیوں کو سموسے کھلائے گئے تھے اور روح افزا پلایا گیا تھا۔ ایک بوڑھی عورت نے بتایا کہ اس کے پوتے پوتیاں تین ماہ سے چڑیا گھر جانے کی ضد کررہے ہیں مگر وہ انہیں چڑیا گھر نہیں لے جا پارہی، کیوں کہ چڑیا گھر آنے اور جانے پر سو روپے خرچ ہوں گے۔
آج سے بیس سال پہلے ہمارے دو دوستوں نے ہم سے پوچھا کہ گھر میں آپ کے شائع شدہ کالم کس حال میں ہیں؟ ہم نے کہا وہ جوں کے توں رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح تو کالم ضائع ہوجائیں گے۔ انہوں نے ہمارے کالموں کو رجسٹروں میں چسپاں کرانے کے لیے دو نوجوانوںکا بندوبست کیا۔ انہوں نے کہا یہ نوجوان روز صبح نو بجے آپ کے گھر آجائیں گے اور آپ کے کالموں کو تاریخ وار جمع کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو بس آپ دوپہر کا کھانا کھلا دیا کیجیے گا۔
دونوں نوجوانوں نے ہمارے گھر پر آکر کام شروع کیا تو ہم دوپہر کو انہیں وہی کچھ کھلا دیتے جو ہمارے گھر میں پکا ہوتا تھا۔ چند روز بعد ان نوجوانوں نے ہمارے دوستوں سے شکایت کی کہ ہم کھانے میں ان کا خصوصی خیال رکھ رہے ہیں۔ ہمارے دوستوں نے کہا کہ آپ نوجوانوں کے کھانے کا خصوصی اہتمام نہ کریں۔ ہم نے عرض کیا کہ ایسا کچھ نہیں ہورہا۔ بہرحال ہم نے نوجوانوں سے کہا کہ آپ نے تو ہماری شکایت کردی حالانکہ ہم آپ کو وہی کچھ کھلا رہے ہیں جو ہم خود کھاتے ہیں۔ یہ سن کر اُن میں سے ایک نوجوان بولا کہ سر مسئلہ یہ ہے کہ آپ کا کھانا ہمیں ’’فائیو اسٹار‘‘ محسوس ہورہا ہے۔ اس نوجوان نے دورانِ گفتگو انکشاف کیا کہ ’’گزشتہ چھے ماہ سے ہمارے گھر میں ایک وقت کھانا کھایا جارہا ہے، ہم روزانہ طے کرتے ہیں کہ کھانا دوپہر کو کھانا ہے یا رات کو کھانا ہے۔‘‘ اس نے بتایا کہ چند روز پیشتر اس کی دو بہنوں کو ایک جننگ فیکٹری میں کام ملا ہے جس کے بعد انہوں نے دو وقت کھانا شروع کیا ہے۔ اس نوجوان کے چہرے بشرے اور لباس سے کوئی اندازہ بھی نہیں کرسکتا تھا کہ وہ کیسی غربت میں مبتلا ہے۔
یہ واقعہ بھی آج سے پچیس سال پہلے کا ہے۔ ہمارا ایک بھتیجا اپنی خالہ کے گھر جانے کا شوقین تھا۔ وہ صبح، دوپہر، شام ہر وقت اپنی خالہ کے یہاں پایا جاتا۔ پھر ہم نے نوٹ کیا کہ ہمارے بھتیجے نے اچانک خالہ کے یہاں جانا تقریباً بند کردیا ہے۔ ہم نے اس کی وجہ پوچھی تو اُس نے عجیب بات کہی۔ کہنے لگا کہ چاچا میں اب خالہ کے یہاں نہیں جاتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مجھ سے کھانا کھانے کے لیے کہتی ہیں۔ ہم نے کہا: خالہ کھانے کو نہیں کہیں گی تو کون کہے گا؟ کہنے لگا: مسئلہ یہ ہے کہ اُن کے گھر روز مونگ کی دال پکتی ہے، اب میں روز تو مونگ کی دال نہیں کھا سکتا۔
یہ ایک ایسے متوسط درجے کے خاندان کی ’’اندرونی کہانی‘‘ تھی جو محض اتفاق سے سامنے آگئی تھی۔ جیساکہ عرض کیا گیا ہے کہ غربت اور معاشی دبائو کی وجہ سے بیس پچیس سال پہلے کا زمانہ بہت بہتر تھا۔ چنانچہ سوچا جا سکتا ہے کہ اُس وقت لوگوں کا حال ابتر تھا تو آج مہنگائی کے طوفان میں گھرے ہوئے کروڑوں غریب اور متوسط درجے کے خاندانوں کا حال کیا ہوگا؟ آج سے بیس پچیس سال پہلے بیس پچیس ہزار روپے میں گھر چل جاتا تھا، مگر مہنگائی کے اس طوفان اور روپے کی بے قدری نے یہ صورتِ حال پیدا کردی ہے کہ ماہانہ پچاس،ساٹھ ہزار روپے کمانے والے بھی رو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم نے ماہانہ ایک لاکھ روپے کمانے والوں کو بھی شدید معاشی دبائو میں دیکھا ہے۔