سینچانوالہ سے رخصت ہوئے تو بادیہ پیمائیاں بھی ختم ہوگئیں۔ اب زندگی میں حضر کا دور شروع ہوا۔ جنگلوں کی وسعتیں پیچھے رہ گئیں اور ان کی جگہ شہروں کی کوچہ نوردیوں نے لے لی۔ لاہور پہنچے تو دیکھا کہ ایک نئی دنیا میں آنکلے ہیں۔ تنگ و تاریک گلیاں، بازاروں میں ہجوم، بلندو بالا عمارتیں، خوش پوش و خوش خوراک لوگ، گفتگو میں بے باک، عادات میں آزادی و بے فکری۔ ہر سو سیاست کا چرچا.. درس گاہوں، لیکچر ہالوں، مسجدوں، مندروں، بازاروں اور منڈیوں میں۔ ہر شخص جوش کے عالم میں، ہر جماعت فعال و متحرک۔ جب تک ہم دنیا سے کٹے رہے اور قدرت کی رعنائیوں میں گم رہے شہروں کا انسان بڑی تیزی سے بدلتا رہا۔ فاضلکا کی گلیوں میں گائے جانے والے گیت اب لبوں سے رخصت ہوچکے تھے، اور وہ نغمے جن سے کبھی در و دیوار وجد میں آیا کرتے تھے، مدت سے فضا میں تحلیل ہوچکے تھے۔ مشترک نعرے فرقہ وارانہ ہائوہو میں دب چکے تھے۔ اب مودت اور یگانگی کی جگہ عدم اعتمادی آچکی تھی۔ 1920ء کی محبت، خیرسگالی اور دوستی جنسِ نایاب ہوچکی تھی۔ لاہور کی گلیوں میں خوش کی بُو رچی ہوئی تھی۔ مجھے اُس نوحے کی دلدوزی اب تک یاد ہے جو نوحہ میں نے 1928ء کی ایک شام کو پرانی کوتوالی کے چوک میں ایک عمر رسیدہ خاتون کو کرتے سنا۔ اس کا سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ اس کا جواں سال بیٹا جو ہندو مسلم فسادات میں ماخوذ تھا، اگلی صبح پھانسی پانے والا تھا۔
اُن ہی دنوں مسلمانوں میں ایک نیا شعور پیدا ہورہا تھا۔ 1927ء کے فسادات میں ان کی اقتصادی ناکہ بندی نے ان کو مجبور کیا کہ وہ ہر جنس کی دکانیں کھولیں۔ وہ محسوس کرنے لگے کہ بُوئے کباب ہزار کفر شکن سہی، محض اس پر زندہ نہیں رہا جاسکتا۔ نون، تیل، ادرک سے لے کر کپڑے اور اناج تک کی تجارت ہوگی تو قوم ایسی ابتلائوں سے عہدہ برآ ہوسکے گی، ورنہ اقتصادی غلامی فکری غلامی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
چنانچہ لاہور کی گلیوں میں جابہ جا مسلمانوں کی دکانیں کھلنے لگیں، لیکن یہ جوش بھی مسلمانوں کے اکثر جذبوں کی طرح ناپائیدار ثابت ہوا۔ جو طبیعتیں بالآخر اس جانب راغب ہوئیں، وہ بھی بتدریج پلٹ گئیں۔ میدان پھر ہندوئوں کے ہاتھ ہی رہا۔ اس لیے کہ تجارت کا میدان بھی میدانِ جنگ کی طرح پامردی اور نفس کشی کا طالب ہوتا ہے، اور مسلمانوں نے شاید یہ سرمایہ مؤخر الذکر میدان کے لیے ہی وقف کر رکھا ہے۔ بہرکیف جن لوگوں نے تھوڑی بہت پامردی دکھائی اور تجارت کی لذت سے آشنا ہوگئے وہ پھر اسی کے ہوکے رہ گئے۔
تجارت کی اہمیت کا شعور بیدار ہونے کے باوجود تعلیم کا مقصد ِاولیٰ مسلمانوں کے ہاں ہنوز ملازمت ہی تھا، اور وجہِ افتخار کسی سرکاری دفتر سے تعلق تھا، چنانچہ میرے ایک گریجویٹ دوست نے جب کریانے کی دکان بڑے معقول پیمانے پر اور بڑے سلیقے سے شروع کی تو بہت سے خدا ترسوں کو اس پررحم آیا کہ بیچارا تقدیر کامارا پڑھ لکھ کے کہاں پہنچا ہے!
تجارت کی طرف سے مسلمانوں کے اندر یہ بے رغبتی پیدا کرنا بنیے کی اُس مہم کا حصہ تھا جو اس نے منڈیوں پر اپنے قبضے کو قائم رکھنے کے لیے شروع کررکھی تھی۔ ہر مسلمان کے ذہن میں بٹھادیا گیا تھا کہ دکان پر بیٹھنا اس کے شایانِ شان نہیں۔ مسلمان خود بھی کچھ تو اس جز رسی کو جو تجارت کا لازمہ اولین ہے، کمینگی سمجھتا تھا اور کچھ وہ گاہک کے ساتھ تملق سے بات کرنے کو اپنی شان سے فروتر سمجھتا۔ بعض دکانداروں کے طنطنے کا تو یہ عالم دیکھا کہ گاہک اگر سودے سے مطمئن نہ ہوکر پلٹنے لگا تو اس پر آوازے کسے گئے۔ ہندو دکانداروں کی روایات اس سے قطعی مختلف تھیں۔
مسلمانوں کے اس رویّے کو اگر کریدا جائے تو اس کی تہہ میں ایک خوف کارفرما نظر آتا ہے۔ وہ یہ کہ اگر وہ اپنے محدود اندوختے کے ساتھ اس میدان میں آبھی نکلے تو ہندو اپنی کامیاب ناکہ بندی سے اسے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردے گا۔ چنانچہ ہر نئے آنے والے کو اپنے سے پہلے گزر جانے والے کا حشر عبرت دلاتا اور وہ جی ہار کے بیٹھ جاتا۔
(مولوی محمد سعید،”آہنگِ بازگشت“
ایک صحافی کی خودنوشت سے انتخاب)
مجلس اقبال
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
یہ شعر کل کی طرح آج بھی اہلِ مغرب کی حکومتوں کی منافقانہ پالیسی بیان کرتا ہے کہ ان کی حکومتیں علم و حکمت اور فلسفہ کی تعلیم کے دعوے تو بہت کرتی ہیں، جس طرح برصغیر میں برطانوی راج میں ہورہا تھا کہ اصل میں تو وحشی اور ظالم مگر زبان پر حقوق، محبت، انسانیت اور مساوات جیسے دعوے ہوتے تھے۔ آج کے حالات میں عراق، افغانستان، لیبیا اور شام وغیرہ مسلمان ممالک میں مغربی وحشت و دہشت اور درندگی کا منظر دیکھیں اور ان کی زبانوں پر امن و حقوقِ انسانی جیسے دعوے، تو ان کی منافقانہ روش سامنے آجاتی ہے۔ کس قدر غضب کا مقام ہے کہ پورے عالمِ اسلام پر ننگی جارحیت کے ارتکاب اور آگ و بارود کی موسلادھار بارش کے باوجود عالمی سلامتی کونسل کے مالکان بنے ہوئے ہیں۔ یوں ’’پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات‘‘۔ حقیقت میں علامہ کے الفاظ میں گویا مستقبل کی پالیسی ہے۔