آج ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کے انتقال سے اسلامی نظام معاشیات کے ایک عظیم داعی اور راہ رو سے دنیائے اسلام محروم ہوگئی۔ 1967ء میں جب کہ اسلامی بینکنگ کا واضح تصور فقہاء و دانشوروں کے ذہن میں نہیں تھا کہ سودی بینکاری کے متبادل کے طور پر اسلامی بینکنگ کے نظام کو کیسے پیش کیا جائے اور سودی بینکوں میں مسلم کے نام کا اضافہ عام سی بات تھی، آپ نے اپنی کتاب ”غیر سودی بینکاری“ کے ذریعے سودی بینکاری بند ہونے کی شکل میں اسلامی بینکنگ کا نظام کس طرح چلایا جائے، اس موضوع پر ”زندگی“ رامپور، اور ”چراغِ راہ“ کراچی میں سلسلہ وار مضامین شروع کیے تھے، جو بعد میں ”غیر سودی بینکاری“ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ اس طرح ڈاکٹر صاحب کا پیش کردہ ابتدائی خاکہ آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے اسلامی بینکنگ کے مستقل نظام کی شکل میں سامنے آیا۔ اسلامی معاشیات آپ کی تحقیقات کا محور رہا اور آپ کے قلم سے اس موضوع پر بڑی قیمتی کتابیں سامنے آئیں، جنہوں نے سود کی لعنت سے دنیا کو پاک کرنے کے لیے ایک نعم البدل کا واضح تصور پیش کیا۔
ڈاکٹر صاحب کے قلم سے بیسیوں کتابیں اور مقالات نکلے، جن کا زیادہ تر موضوع اسلامی نظام اقتصادیات اور معاشیات ہی تھا، انگریزی میں آپ کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع ہوئیں:
1۔ Banking Without Interest
2۔Economic Enterprise in Islam
3۔Riba,Bank Interest
4۔Some Aspects of Islamic Economy
5۔ Recent Theories of Profit: A Critical Examination
6۔ Muslim Economic Thinking
7۔ Issues in Islamic banking : selected papers
8۔ Partnership and profit sharing in Islamic law
9۔ Insurance in an Islamic Economy
10۔ Teaching Economics in Islamic Perspective
11۔ Role of State in Islamic Economy
12۔ Dialogue in Islamic Economics
13۔ Islam’s View on Property
اور اردو میں ”تحریکِ اسلامی عصر حاضر میں“، ”اکیسویں صدی میں اسلام، مسلمان اور تحریک اسلامی“، ”مقاصد شریعت“، ”اسلام کا معاشی نظام“، مالیات میں اسلامی ہدایات کی تطبیق“، “معاش، اسلام اور مسلمان“، ”اسلام کا نظریۂ ملکیت“، غیر سودی بینکاری“، ”انشورنس اسلامی معیشت میں“ مشہور ہوئیں۔
آپ کی پیدائش 1931ء میں گورکھپور میں ہوئی تھی۔ وطن میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں 1966ء میں معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اور پھر وہیں معاشیات اور اسلامی اسٹڈیز کے لیکچرر مقرر ہوئے۔ ،کچھ عرصے بعد آپ جدہ کی شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی سے پروفیسر معاشیات کی حیثیت سے وابستہ ہوئے۔ یہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ امریکہ کی کیلی فورنیا یونیورسٹی میں رہے۔ انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مینجمنٹ اسٹڈیز کے شعبے میں پروفیسر ایمریٹس بھی بنایا گیا تھا۔
تقسیم ہند کے بعد جس زمانے میں علی گڑھ یونیورسٹی میں کمیونسٹ فکر سے وابستہ دانشوروں اور طلبہ کا غلبہ تھا، آپ نے رفقاء کے ساتھ اس بہاؤ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اور اسلامی فکر کو یہاں کے ماحول میں پنپنے کی راہ میں انتھک کوششیں کیں۔ اس زمانے میں آپ کے رفقاء میں ڈاکٹر ابن فرید، ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی، ڈاکٹر سید انور علی اور قاضی اشفاق وغیرہ قابلِ ذکر ہیں، یہ سبھی افراد جماعت اسلامی ہند سے وابستہ تھے، اور دینی نقطہ نظر سے ان کی کوششیں بہت ہی قابلِ قدر تھیں۔
تقسیمِ ہند کے بعد جب جماعت اسلامی ہند کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت جماعت کی قیادت نے طے کیا کہ یونیورسٹیوں سے فارغ جماعت سے وابستہ ہونہار نوجوانوں کو باقاعدہ دینی تعلیم اور عربی زبان سکھانے کا انتظام کیا جائے۔ اس مقصد سے 1950 تا 1960ء رامپور میں ثانوی درسگاہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا، جس کے لیے ایک چار سالہ نصابِ تعلیم تیار کیا گیا، جس کے مضامین عربی زبان و ادب، قرآن و حدیث اور فقہ پر مشتمل تھے، اس کے ناظم مولانا صدر الدین اصلاحیؒ تھے، اور اساتذہ میں ناظم درسگاہ کے ساتھ ساتھ اُس وقت کے امیر جماعت مولانا ابواللیث ندویؒ، مولانا جلیل احسن ندویؒ، مولانا سید احمد عروج قادریؒ، مولانا عبدالودود ندویؒ اور مولانا سید حامد علیؒ قابلِ ذکر تھے۔ درسگاہ کے سب سے پہلے طالب علم ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی اور ڈاکٹر عبدالحق انصاری (سابق امیر جماعت اسلامی ہند) تھے۔ یہاں کے فارغین میں مولانا وحید الدین خان، مولانا عرفان احمد، ڈاکٹر سید عبدالباری، شبنم سبحانی، ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی جیسی علم و دانش کی نامور شخصیات کا نام آتا ہے۔ اُس زمانے کی بعض شخصیات سے ہم نے سنا ہے کہ اس درسگاہ کے قیام کا اصل باعث ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی دلچسپی اور اصرار تھا، وسائل کی کمی کے باوجود جماعت نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔
ثانوی درسگاہ کے تذکرے کے ساتھ یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ عصری تعلیم کے بعد جب کوئی طالب علم دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے دل سے غیر کی مرعوبیت ختم کردیتا ہے، اس کے برعکس کوئی عالم دین فراغت کے بعد عصری تعلیم سے جڑ جاتا ہے تو وہ اپنی تعلیم کے بارے میں احساسِ کمتری میں مبتلا ہوکر غیر کی مرعوبیت کا شکار ہوجاتا ہے۔، استثنا ہر قانون میں پایا جاتا ہے، حکم غالب پر ہوتا ہے۔ ثانویہ کے فارغین نے دین کی بڑی خدمت کی، اور فکرِ اسلامی کو اپنی تصنیفات اور تحقیقات سے بہت کچھ مالامال کردیا۔
ثانوی درسگاہ کا ذکر آیا ہے تو ایک واقعے کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ثانوی درسگاہ کے ابتدائی طالب علموں میں سے ایک بزرگ ہیں ڈاکٹر قاضی اشفاق صاحب جو سڈنی (اسٹریلیا) میں مقیم ہیں، آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی سے بی ایس سی انجینئرنگ کی تعلیم ترک کرکے ثانوی درسگاہ میں داخلہ لیا تھا، وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ:
”درس گاہ میں داخلہ مل جانے کی منظوری کے بعد میں گھر آگیا۔ پروگرام تھا یہاں سے رامپور جانے کا۔ ہمارا علاقہ مولانا حسین احمد مدنیؒ کا عقیدت مند تھا اور مولانا جب بھی اس علاقے میں تشریف لاتے اُن کے قیام کے انتظامات کی ذمے داری ہمارے خاندان کی ہوتی تھی۔ میں جب گھر آیا تو ان دنوں مولانا تشریف لائے ہوئے تھے اور حسب دستور قیام ہمارے یہاں تھا۔ ایک دن میں نے مولانا سے درخواست کی کہ میں تنہائی میں ان سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مولانا نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، البتہ ان کے ساتھ مولانا محمد زکریا اور مولانا عاشق الٰہی صاحبان بھی ہوں گے۔ خیر، ان حضرات سے ملاقات میں، میَں نے عرض کیا: مولانا میں سخت مخمصے میں ہوں۔ جماعت اسلامی ہند نے یونیورسٹی گریجویٹس کے لیے ایک چار سالہ کورس تیار کیا ہے جس میں طلبہ کو قرآن وحدیث کی تعلیم دی جارہی ہے۔ مجھے بھی وہاں جاکر علمِ دین حاصل کرنے کاشوق ہے۔ دوسری طرف جماعت اسلامی اور مولانامودودی کے خلاف آپ کے فتوے ہیں۔ میں فیصلہ نہیں کرپارہاہوں کہ وہاں جاؤں یا نہیں۔ میری بات سن کر مولانا نے فرمایا: بیٹے، تم وہاں ضرور جاؤ اور تعلیم حاصل کر و اور خوب دل لگا کر وہ تعلیم حاصل کر و۔تم وہاں ضرور جاؤ ،میں تمہیں اس کی تاکید کرتاہوں۔اور جہاں تک فتوے وغیرہ کا تعلق ہے تو وہ اونچی باتیں ہیں، ابھی ان کی فکر نہ کر و، بعد میں سمجھ میں آجائیں گی۔ اس وقت تو تم وہاں جاکر پوری دلجمعی سے تعلیم حاصل کرو۔
( ”زندگی“ رامپور۔ جولائی 2020ء)
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے پھر مدرسۃ الاصلاح میں تعلیم مکمل کی، اور انہیں عربی زبان پر اتنا عبور ہوگیا تھا کہ اسلام میں عدلِ اجتماعی کے نام سے ایک مشہور عرب ادیب و مفکر کی کتاب کا سلیس ترجمہ اور امام ابویوسف کی کتاب الخراج کا عربی سے ترجمہ کیا۔ اور یہ دونوں ترجمے بہت مقبول ہوئے۔
مطالعاتِ اسلامی کے شعبے میں سنہ 1982ء میں آپ کو باوقار شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ خالصتاً علمی و تحقیقی شخصیت کے مالک تھے، اور انہی میدانوں میں آپ نے قابلِ قدر خدمات انجام دے کر داعیِ اجل کو لبیک کہا۔
ہمیں آپ سے ایک مرتبہ اپنے دورِ طالب علمی میں 1973ء میں چنئی جماعت کے آفس میں ملاقات کا موقع ملا، یہ آپ کی جوانی کا زمانہ تھا، آپ کی کتاب ”غیر سودی بینکاری“ کی شہرت کا یہ زمانہ تھا، اس کتاب کی بنیاد پر ہمارے اساتذہ میں سے ماسٹر محمد شفیع شابندری سابق ناظم جامعہ اسلامیہ بھٹکل وغیرہ کے رفقاء نے غیر سودی بینکاری کے ابتدائی تجربے کا آغاز کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی ”غیر سودی بینکاری“ ان حضرات کی میز پر ہمیشہ نظر آتی تھی۔ دنیا جیسے جیسے سود کی لعنت سے دور ہوتی جائے گی، اور اسلامی بینکنگ کا نظام فروغ پاتا رہے گا، ڈاکٹر صاحب جیسے مفکرین اور محققین کے اجر میں اضافہ ہوتا رہے گا، ان کی یہ خدمات درجات کی بلندی کا باعث بنتی رہیں گی اِن شاء اللہ۔ اللہ آپ کے درجات بلند کرے۔