ان کی تقرری کے بعد اس وقت اقتدار کے محلات میں مولانا فضل الرحمان کے خاندان یا اس سے وابستہ اقربا کی تعداد سات ہوگئی ہے
جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر حاجی غلام علی خیبر پختون خوا کے نئے گورنر بن گئے ہیں۔ گورنر ہاؤس پشاور میں نئے گورنر کی حلف برداری کی تقریب ہوئی جس میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ قیصر رشید خان نے نئے گورنر سے حلف لیا۔ تقریب میں سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان، سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی اور اے این پی کے بزرگ راہنما حاجی غلام احمد بلور نے خصوصی طور پر شرکت کی۔
واضح رہے کہ خیبر پختون خوا میں گورنر کا عہدہ 12 اپریل کو پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے عمران خان کے قریبی ساتھی گورنر شاہ فرمان کے استعفے کے بعد خالی ہوا تھا، جس کے بعد تقریباً ساڑھے 7 مہینے تک صوبائی اسمبلی کے اسپیکر مشتاق احمدغنی قائم مقام گورنر کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے۔ حاجی غلام علی کے گورنر بننے سے قبل اس عہدے کے لیے اے این پی کی جانب سے میاں افتخار حسین کی نامزدگی کی گئی تھی، لیکن جے یو آئی کے عدم اتفاق کی وجہ سے پی ڈی ایم کی قیادت نے یہ عہدہ اے این پی کو نہیں دیا تھا، اور یوں یہ اہم عہدہ ایڈہاک بنیادوں پر چلایا جاتا رہا۔ حاجی غلام علی سے قبل اس عہدے کے لیے مولانا فضل الرحمان کے چھوٹے بھائی ضیاء الرحمان کا نام بھی گردش میں تھا، لیکن سرکاری ملازمت اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے وہ اس عہدے کی دوڑ سے باہر ہوگئے تھے، جس کے بعد گزشتہ ماہ حاجی غلام علی کا نام سامنے آیا تھا۔
حاجی غلام علی نے جو بنیادی طور پر ایک کاروباری شخصیت ہیں، اپنی عملی سیاست کا آغاز1983ء میں میونسپل کارپوریشن کے کونسلر کی حیثیت سے کیا تھا۔ اس دوران انہیں سیاسی میدان میں کئی نشیب و فراز کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 2005ء کے بلدیاتی الیکشن میں جب صوبے میں ایم ایم اے کی حکومت تھی، وہ ضلع ناظم پشاور منتخب ہوئے تھے۔ اس کے علاہ وہ پشاور کے مختلف حلقوں سے قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ چکے ہیں لیکن انہیں اس میں کامیابی نصیب نہیں ہوسکی۔ نئے مقرر ہونے والے گورنر غلام علی سینیٹر بھی رہے ہیں۔ مارچ 2009ء میں وہ جے یو آئی کے امیدوار کے طور پر جنرل نشست پر رکن سینیٹ منتخب ہوئے تھے۔ وہ سینیٹ کی کمیٹی برائے کامرس اینڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے چیئر پرسن رہے ہیں۔ حاجی غلام علی مولانا فضل الرحمان کے سمدھی اور میئر پشاور زبیر علی کے والد ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد وجود میں آنے والے موجودہ سیٹ اَپ میں جمعیت (ف) سب سے زیادہ فائدے میں رہی ہے۔ مولانا اسعد محمود، مولانا عبدالواسع اور مفتی عبدالشکور وفاقی کابینہ میں شامل ہوئے، زاہد درانی ڈپٹی اسپیکر بنے، اور اب حاجی غلام علی کی بطور گورنر تقرری سے وفاقی حکومت میں جمعیت علمائے اسلام کو مزید حصہ مل گیا ہے، جبکہ پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کو خیبر پختون خوا کی حد تک کچھ بھی نہیں ملا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خیبر پختون خوا سے پی ڈی ایم میں جمعیت علمائے اسلام کے علاوہ مسلم لیگ(ن) اور قومی وطن پارٹی بھی شامل ہیں، لیکن وفاقی کابینہ میں جمعیت علمائے اسلام کے تین ارکان شامل کیے گئے ہیں جن میں مولانا فضل الرحمان کے بیٹے مولانا اسعد محمود کو مواصلات، مولانا عبدالواسع کو ہاؤسنگ اور مفتی عبدالشکور کو وزارتِ مذہبی امور کا قلمدان دیا گیا ہے، اسی طرح اکرم خان درانی کے بیٹے زاہداکرم درانی کو قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر بنایا گیا ہے۔
یہ بات دلچسپ ہے کہ خیبر پختون خوا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبے کے گورنر ہاؤس میں جے یو آئی کے امیدوار کی بطور گورنر انٹری ہوئی ہے۔
وسیع حلقۂ احباب کے مالک حاجی غلام علی 2009ء سے 2015ء تک سینیٹر رہے۔آپ بیک وقت سیاسی اور کاروباری حلقوں میں انتہائی معروف ہیں۔ 2011ء میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر منتخب ہوئے، 2012ء سے 2017ء تک اسلامک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر رہے۔ آپ ابھی بھی سارک چیمبر کے نائب صدر ہیں۔ حاجی غلام علی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سیاست اور کاروبار میں ان کا کوئی حریف نہیں۔ سیاسی مخالفین بھی ان کے حسنِ اخلاق کے معترف ہیں۔ آپ سیاست اور کاروبار دونوں میں وسیع حلقۂ احباب رکھتے ہیں۔ اسی طرح خیبر پختون خوا کو پہلی مرتبہ یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ باپ گورنر اور بیٹا صوبائی دارالحکومت کا میئر ہے۔ حاجی غلام علی کا اپنے بیٹے کی کامیابی میں مرکزی کردار رہا ہے، انہوں نے دن رات ایک کرکے بھرپور انتخابی مہم چلائی اور بڑی بڑی جماعتوں کے مقابلے میں میئرشپ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اسی طرح کنٹونمنٹ پشاور کے انتخابات میں بھی ان کے بھتیجے نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا۔ اس کی کامیابی کے پیچھے بھی حاجی غلام علی کا بنیادی کردار رہا ہے۔
واضح رہے کہ حاجی غلام علی قیام پاکستان کے بعد تعینات ہونے والے صوبے کے 36 ویں گورنر ہیں۔ حاجی غلام علی کے گورنر بننے کے متعلق سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ چونکہ وہ کھلے ڈھلے مزاج کے مالک ہیں اور کاروباری حلقوں میں خاصے مشہور ہیں اس لیے اُن کے لیے اس عوامی عہدے پر کام کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوگا، لیکن گورنرکا عہدہ چونکہ ایک آئینی اور کسی حد تک تکنیکی عہدہ ہے اس لیے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حاجی غلام علی کے لیے اس آئینی اور تکنیکی عہدے پر کام کرنا آسان نہیں ہوگا، بالخصوص ایسے حالات میں جب ایک جانب صوبے میں پی ٹی آئی کی مستحکم حکومت ہے، لہٰذا انہیں بطور گورنر ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا، بصورتِ دیگر ان کے اور صوبائی حکومت کے درمیان تعلقات ِکار سردمہری کا شکار رہیں گے۔ ثانیاً انہیں چونکہ صوبے کی تین درجن پبلک سیکٹر جامعات کے چانسلر کے طور پر بھی فرائض انجام دینا ہوں گے اور وہ چونکہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اس لیے ان جامعات جو علم وتحقیق کے مراکز اور گہوارے ہیں اور جو پہلے ہی سے مالی مسائل کا شکار ہیں، کے معاملات کی دیکھ بھال اور اصلاحِ احوال یقیناً ان کے لیے ایک بڑ اچیلنج ہوگا۔ اسی طرح افغانستان اور سابقہ فاٹا کے علاوہ سیکورٹی سے متعلق مسائل کے ساتھ بھی چونکہ گورنر خیبرپختون خوا کا کسی نہ کسی حیثیت میں قریبی تعلق ہوتا ہے، لہٰذا یہ معاملات بھی ان کے لیے ایک بڑے چیلنج کے طور پرموجود ہوں گے۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان تمام مسائل اور معاملات سے کس طرح عہدہ برا ہوتے ہیں۔