بڑی شاعری فکریاتی شاعری ہوتی ہے

جدید اردو غزل کے ممتاز شاعر،نقاد و ادیب سحر انصاری کی کہانی

  • تباہی اور زوال کے انتہائی راستے پر ہم گامزن ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی چٹان تھی جسے اوپر سے لڑھکایا جارہا ہے اور معلوم نہیں کہ کون سی طاقت اسے روکے گی۔
  • ادب خصوصاً بڑا ادب جوانسانوں کو سکون، مسرت اور بصیرت بخشتا ہے۔
  • شاعری سے انسانی زندگی میں جہاں مایوسی ہو وہاں رجائیت پیدا ہوتی ہے۔
  • فارسی کا رواج ختم ہو جانے کی وجہ سے ہم اقبال کی بڑی اور عظیم شاعری سے محروم ہیں۔
  • پنجاب میں زیادہ اچھی اردو بولی جاتی ہے۔

پاپوش نگر، چاندنی چوک کے اجڑے پارک کے سامنے کے مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک نوجوان باہر آیا۔ تعارف کے بعد معلوم ہوا کہ سحر انصاری کا پوتا ہے۔ اندر آنے کا کہا، جہاں ہونٹوں پر تبسم سجائے سحرانصاری سے ملاقات ہوئی۔ آپ ہمیشہ کی طرح محبت اور گرم جوشی کے ساتھ ملے۔ میں نے طبیعت کا پوچھا تو کہا ٹھیک ہے۔ لیکن کمزور نظر آرہے تھے، لاٹھی کے سہارے اُٹھ بیٹھ رہے تھے۔ میں نے کمرے پر نظر ڈالی تو شیلف پر بڑی تعداد میں ہومیوپیتھک دوائیں رکھی تھیں، جس پر آپ نے بتایا کہ اہلیہ ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہیں۔ میز پر رکھی دائیں بائیں، ہر طرف بکھری کتابوں کے پیچھے صوفے پر بیٹھے تھے۔ سحرصاحب کے لہجے میں کمزوری ضرور تھی لیکن آواز کی گھن گرج برقرار تھی۔ اس دوران بڑی زلفوں کو.. جو آپ کی شخصیت کا حصہ ہیں.. پوتے نے کنگھا لے کر سنوارا، پھر باتیں ہوئیں اور بہت ہوئیں۔

صدا اپنی روش اہل زمانہ یاد رکھتے ہیں
حقیقت بھول جاتے ہیں فسانہ یاد رکھتے ہیں

کے خالق سحر انصاری اُردو زبان کے ممتاز نقاد، جدید اُردو غزل کے اہم شاعر اور ادیب ہیں۔ آپ نے باوقار، شستہ اورشائستہ لہجے میں شاعری کی ہے جس میں انسانی جذبات اور احساسات کی انتہائی سہل انداز میں ترجمانی ہے۔ آپ دھیمی آواز میں ٹھیر ٹھیر کر سنجیدہ گفتگو ایسے کرتے ہیں جیسے پھول جھڑتے ہوں، یعنی خوب کرتے ہیں، جس میں برمحل خوبصورت اشعار کا استعمال جابہ جا ہوتا ہے۔ معلومات کا خزانہ گفتگو اور تحریروں میں چھلکتا ہے۔ آپ سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، اور ان ملاقاتوں کے مقام میں جہاں آرٹس کونسل اور جامعہ کراچی ہے وہاں صدر اور گلشن اقبال میں پرانی کتابوں کے بازار بھی شامل ہیں۔ ایک بار گلشن بازار میں دور سے دیکھا کہ دکان دار سے سوٹ بوٹ میں ملبوس ایک صاحب کتاب کی قیمت پر مول تول کررہے تھے، دکان دار کی گفتگو سے بھی لگتا تھا کہ آپ اس کے پاس کتابیں لینے اکثر آتے ہیں۔ غور سے دیکھا تو سحرانصاری تھے۔ کتابوں سے آپ کی بڑی پکی دوستی ہے۔ جن لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کتاب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے آپ کا تعلق انھی ادیبوں کی قبیل سے ہے۔ اسی لیے ادب کی دنیا میں آپ منفرد مقام رکھتے ہیں۔ شاعروں کے شاعر، ادیبوں کے ادیب ہیں۔ بات چیت میں آپ کی ذاتی وسیع و عریض لائبریری کا ذکر بھی آیا، میں نے کہا کہ مجھے وہ دیکھنی ہے۔ آپ نے بتایا وہ یہاں نہیں کسی اور جگہ ہے اور گودام بنی ہوئی ہے، اس میں سے کچھ دیکھنا یا اسے دکھانا ممکن نہیں ہے۔ میں نے استفسار کیا: کیا استعمال میں ہی نہیں؟ کہا: نہیں۔ معلوم ہوا بہت بڑی تعداد میں کتابیں ہیں لیکن لگتا ہے ان پر توجہ نہ دی گئی تو یہ سرمایہ ضائع ہوجائے گا۔ میں نے پوچھا: پرانی یادگار تصاویر مل جائیں گی؟ تو کہا: ’’میں بے ترتیب آدمی ہوں‘‘۔

سحر انصاری 27 دسمبر 1941ء کو حیدرآباد دکن کے ضلع اورنگ آباد میں پیدا ہوئے، جو آپ کے بقول اورنگ زیب کے نام سے شاید آباد ہوا تھا۔ 1950ء میں والدین کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی اور کراچی کے مکین ہوئے، ناظم آباد میں رہائش اختیار کی، آج بھی ناظم آباد ہی میں رہائش رکھتے ہیں۔ کراچی کے علاقے بہادر آباد میں مقبول عام اسکول میں پڑھا، 1958ء میں گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد سے بی ایس سی کیا۔ جامعہ کراچی سے تین ایم اے کیے ایک انگریزی میں، دوسرا اردو ادب میں اور تیسرا لسانیات میں۔ آپ گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد کے اولین طالب علم تھے۔ اُس وقت اس کالج کا نام ’سینٹرل گورنمنٹ کالج فار مین‘ ہوا کرتا تھا۔ انھوں نے انگریزی کے ترجموں کے ذریعے دنیا کی بیشتر زبانوں کا مطالعہ کیا ہے۔ شاعری کے علاوہ نثر میں بہت کچھ لکھا ہے۔ تنقید پسندیدہ موضوع ہے۔

1973ء میں بلوچستان یونیورسٹی سے بہ طور استاد پیشہ ورانہ سرگرمی کا آغاز کیا۔ آپ جامعہ کراچی میں صدر شعبہ اردو رہے۔ بعدازاں اردو ڈکشنری بورڈ کے سربراہ بھی رہے۔ آپ کے پاس کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جس کا ذکر انٹرویو میں بھی آپ پڑھیں گے۔ انھیں مصوری سے بھی لگائو ہے۔1976ء میں ’’نمود‘‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ شائع ہوا۔ ”خدا سے بات کرتے ہیں“ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ ’’ناسخ…حیات اور شاعری‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کے لیے تحقیقی مقالہ لکھا۔ آپ کو2010ء میں تمغہ امتیاز اور2015ء میں ستارئہ امتیاز سے نوازا گیا۔ ان کی بیٹی ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر بھی شاعرہ ہیں۔

سحر انصاری نے انٹرویو میں نہ صرف اپنے خاندانی پس منظر کے ساتھ اُس عہد کے ماحول، طلبہ اور اساتذہ کے تعلق کا بھی تذکرہ کیا ہے جس کا اپنا ایک سحر ہے، بلکہ ادب اور شاعری کی موجودہ صورت حال پر بھی کھل کر بات کی ہے۔ اس دوران ہی آپ نے ایک تازہ شعر اپنے دستخط کے ساتھ لکھ کردیا کہ

شام کے رنگیں افق پر اک ستارا بھی تو ہے
تم کو لکھنے کا یہی اک استعارا بھی ہے

آپ سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ نے بتایا کہ

’’میرا ننھیال میرٹھ ہے اور مولانا اسماعیل میرٹھی میرے ننھیالی بزرگ ہیں، اور ہمارے ننھیال میں قاضی کا عہدہ شاہجہاں کے عہد سے چلا آرہا تھا۔ میرے نانا قاضی عبدالخالق تک وہ رہا، اس کے بعد یہ لوگ ترکِ سکونت کرکے حیدرآباد دکن آگئے۔ نانا عدالت سے وابستہ رہے لیکن وہ قاضی والا عمل وہاں استعمال نہیں کرسکے۔

بچپن اور لڑکپن کے ادوار کے ذکر میں گھر کے رہن سہن اور ماحول کا ذکرآیاتو آپ نے بتایا کہ ”ہمارے گھر کا ماحول علمی و ادبی تھا۔ والد کے لیے رسالے الگ، بڑے بھائی اور والدہ کے لیے الگ آتے تھے، پھر ہمارے بھائی نے گھر میں اپنے طور پر ایک لائبریری بھی بنا رکھی تھی۔ گھر میں تعلیمی تاش کھیلے جاتے تھے۔ اسکریبل کھیلے جاتے تھے۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد ایک بڑی میز کے اردگرد سب بچے، بوڑھے بیٹھ جاتے تھے اور کوئی بھی کتاب شاعری، ناول یا افسانے کی باری باری دو دو چار چار صفحے سب پڑھتے تھے۔ اس طرح اگر ہماری کوئی غلطی ہوتی تھی یا کسی لفظ کے معنی ہمیں سمجھ میں نہیں آتے تھے یا تلفظ ٹھیک ادا نہیں کرسکتے تھے تو وہیں ہماری اصلاح ہوجاتی تھی۔ اس کے علاوہ بیت بازی ہوا کرتی تھی جس میں بڑے چھوٹے سب برابر شریک ہوتے تھے۔ اپنے اسکول کی یادوں کے ساتھ اساتذہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ کا کہنا تھا کہ ’’بہت اچھے اساتذہ تھے جن میں ہندو، سکھ اور مسلمان سبھی شامل تھے۔ ایک ہندو استاد تھے ہمارے جگن ناتھ صاحب، جنہوں نے مجھے ڈرائنگ اور پینٹنگ کی طرف راغب کیا۔ ولایت علی صاحب تھے جو ہمیں اردو اور فارسی پڑھایا کرتے تھے، وہ بہت ہی دل و جان سے ہمیں پڑھاتے تھے۔ اور یہاں کراچی آنے کے بعد ہمیں جالب مرادآبادی اور امداد حسین صاحب جیسے استاد ملے، جو ہمارے گھر تک تشریف لے آتے تھے، بغیر کوئی معاوضہ اور فیس لیے ہمیں پڑھاتے اور کوشش کرتے تھے کہ ایک ایک چیز ہمارے ذہن میں بیٹھ جائے اور حاشیے سے باہر نہ نکلے۔ بڑے ہی لائق استاد تھے جو ہمیشہ دل وجان سے ہر وقت موجود رہتے تھے ۔

قیام پاکستان کی یادوں کے ذکرِ خاص میں بتایا کہ ’’قائداعظم کاانتقال 11 ستمبر1948ء کو ہوا اور انڈین آرمی نے 13 ستمبر 1948ء کو حیدرآباد کو اپنی ریاست میں شامل کرنے کے لیے حملہ کردیا اور اس کو ’آپریشن پول‘ یعنی حیدرآباد میں پولیس کارروائی کا نام دیا، اس میں سینکڑوں نوجوان ہلاک ہوئے، اور ہمارے قاسم رضوی صاحب نے اتحاد المسلمین کے نام سے ایک جماعت بنائی تھی جس نے فوجی ٹریننگ بھی حاصل کی تھی، اس کے بعد جب حیدرآباد کا زوال ہوگیا تو گھر گھر تلاشی ہونے لگی اور لوگ گرفتار ہوئے، وردیاں پکڑی گئیں، اسلحہ پکڑا گیا،اور ہر طرف ایک داستانِ خوںچکاں لکھی جارہی تھی۔ شاعری تو عموماً عشق و عاشقی سے شروع ہوتی ہے لیکن میری شاعری اس واقعے سے شروع ہوئی اور میں نے اُس زمانے میں اس حوالے سے ایک نظم بھی لکھی تھی اور میری شاعری کا آغاز بھی اسی نظم سے ہوا، جبکہ اوروں کی شاعری کا آغاز عموماً غزل سے ہوتا ہے۔ یہ واقعہ میری زندگی پر بہت اثرانداز ہوا، اور اب تک اس کے عذاب اور اذیت سے میں نکل نہیں سکا۔

نظم لگانی ہے نسل زیاں گزیدہ؟

اس کے بعد باقاعدہ گفتگو سوال و جواب کی صورت میں ہوئی اور میں نے پوچھا:

فرائیڈے اسپیشل:جب آپ نے شاعری کا آغاز کیا تو کن شعرا کوبہت پڑھا؟

پروفیسرسحر انصاری: اُس زمانے میں ساحر لدھیانوی کو بہت پڑھا اور مخدوم محی الدین کے علاوہ فانی بدایونی، مرزا غالب، جگر مراد آبادی، مولانا حسرت موہانی اور حفیظ جالندھری کا شاہنامہ ترنم سے پڑھا جاتا تھا۔

فرائیڈے اسپیشل:آپ کا اصل نام انور مقبول انصاری تھا۔ سحر انصاری تک کے سفر کا پس منظرکیا ہے؟

پروفیسرسحر انصاری: ہوا یوں کہ جب میں نے شعر کہنا شروع کیا تو وہ کچھ اور وقت تھا، آج سے تقریباً ستّر یا پچھتر برس پہلے کی فضا کو دیکھیے تو شاعری اور شاعر کو کوئی بہت اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، شاعری کرنے کا مطلب یہ تھا کہ ’’یہ تو گئے ہاتھوں سے، اب نہ یہ پڑھیں گے نہ لکھیں گے‘‘۔ لیکن چونکہ ہمارے اندر ایک جذبہ تھا اس لیے شعر کہتے تھے، اور حالات بھی اس وقت ناسازگار تھے، ہندوستان سے ہجرت کرکےنئے نئے آئے تھے اور دوبارہ سے زندگی کا آغاز ہوا۔ اس وقت میں نے اپنا تخلص ’’الم‘‘ رکھا تھا۔ ہمارے استاد تھے جالب مراد آبادی، جو جگر صاحب کے ہم عصر تھے، انہوں نے کہا کہ دیکھو بھئی! یہ تخلص اپنا تبدیل کرو ورنہ فانی بدایونی کی طرح تم ہمیشہ مایوسی اور غم کے مضامین ہی لکھتے رہا کرو گے۔ کوئی ایسا تخلص رکھو جس میں ایک روشنی ہو، مستقبل کی تابناکی ہو اور رجائیت ہو۔ تو میں نے سوچا کہ اتنی غزلیں تو کہہ لیں، اب ’’الم‘‘ کی جگہ کون سا لفظ لایا جائے؟ بہت تلاش کیا تو سحر کا لفظ مجھے ملا، اور میں نے اس طرح سے اپنا تخلص الم کی جگہ’’سحر‘‘ رکھ دیا، اور اُس وقت تو بڑی ڈھونڈ اور سوچ بچار کے بعد ہمیں تخلص ملا، جب کہ آج عالم یہ ہے کہ چاہے مرد ہو یا عورت، کچھ بھی ہو، آگے پیچھے سحر لگا ہوا آپ دیکھیں گے۔ اب عورتوں اور مردوں میں سیکڑوں سحر پیدا ہوگئے ہیں۔

فرائیڈے اسپیشل:جیسے آپ نے بتایا کہ اُس وقت شاعری کو بہت اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، تو صورت حال تو آج بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں، کیونکہ شاعری اور ادب معاشی طور پر مستحکم نہیں کرتے۔ معاشی پس منظر میں تو آج بھی اسے بہت زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔ کون سے ماں باپ اپنی اولاد کو شاعر دیکھنا چاہتے ہیں! آپ کیا کہتے ہیں؟

پروفیسرسحر انصاری: نہیں ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ وجہ یہ ہے کہ آج شاعروں اور ادیبوں میں جمیل الدین عالی ہیں، یوسفی صاحب ہیں، اشفاق احمد ہیں،بانو قدسیہ ہیں، تو ایسا نہیں ہے کہ اب اسے برا سمجھا جاتا ہو۔ اب لوگ خود کماتے ہیں اور اپنے دستِ بازو سے ہی کام کرتے ہیں۔ اب کم ہی نکمے شاعر ملیں گے۔ خود ہمارے ساقی امروہوی چونگی پر ملازم تھے، رات میں پان کی دکان لگالی، لیکن کیا بے مثال شاعر تھے وہ، لیکن کماتے خود تھے۔

فرائیڈے اسپیشل: آپ نے کراچی کو روشنی اور اندھیرے دونوں حیثیتوں میں دیکھا ہے، اس کو کس طرح بیان کریں گے؟

پروفیسرسحر انصاری: کراچی آنے سے پہلے ہم ایک سال بمبئی میں بھی رہے۔ تو مجھے کراچی اور بمبئی میں کچھ مماثلتیں نظر آئیں اور کچھ اختلاف نظر آیا۔ مثلاً وہاں پر ٹرامیں الیکٹرک اور دو منزلہ، اور چاروں طرف سے بند تھیں جیسے ڈبل ڈیکر بس ہوتی ہے۔ ہم یہاں آئے تو بیچ سڑک میں ہم نے دیکھا کہ ایک ڈبہ کھڑ کھڑ کرتا ہوا چل رہا ہے، اس کو ٹرام کہا جاتا تھا۔ اسی طرح محمد علی ٹرام وے سے بسیں چلتی تھیں جو کہیں بھی کھڑی ہوجاتیں تو ٹھک ٹھک ٹھک آوازیں کرتیں اور سارا ڈیزل گر رہا ہوتا تھا۔ یہ تو ایک خراب نقشہ ہے۔ اچھا نقشہ یہ ہے کہ اس ٹرام وے میں جب اُس زمانے میں بگھیاں اور گھوڑا گاڑیاں چلتی تھیں تو گھوڑے کی لید وغیرہ بھی ٹرام پٹری پر پڑ جاتی تھی، لہٰذا اس کو پہلے صاف کیا جاتا تھا اس کے بعد شام کے وقت برش اور صابن سے بندر روڈ دھلتا تھا۔ میونسپلٹی کا ٹرک چھڑکائو کرتا ہوا چلتا تھا اور پیچھے برش اور صابن سے یہ سڑک دھلتی تھی۔ پھر اس کے دونوں طرف برگد کے بڑے درخت ہوتے تھے، جس سے انسان کو بہت ہی سکون ملتا تھا، بلکہ اُس زمانے میں فقیر اور نادار لوگ تو برگد کے درختوں کے نیچے چارپائی ڈال کر رہنے لگے۔ اُسی زمانے میں اے بی سینیا لائن(لائنز ایریا) میں المونیم کوارٹر تھے، جھگیاں تھیں۔ جیکب لائن میں ٹینٹ لگے ہوئے تھے، ان میں لوگ رہا کرتے تھے۔ بعد میں لوگوں کے مکانات تعمیر کیے گئے، مختلف کالونیاں آباد ہوئیں، مدرسے بنے، مختلف کالج بنے۔ پورے سندھ میں ایک ہی حیدرآباد یونیورسٹی تھی، اس کا بھی بمبئی سے ہی تعلق تھا، بعد میں کراچی یونیورسٹی قائم ہوئی۔ اب صرف کراچی شہر ہی میں نجی و سرکاری ملا کر19 یونیورسٹیاں ہیں۔ تو بہت فرق پیدا ہوگیا ہے۔ پھر یہ کہ پرنٹنگ، ٹرانسپورٹ، بزنس، بینکنگ وغیرہ میں جو ترقی ہم نے کی ہے، وہ غیر معمولی ہے۔ اس کے بعد جو زوال آرہا ہے وہ تو ہمارے اپنے کارناموں سے آرہا ہے، ورنہ ایک زمانے میں ہم نے ترقی بھی بہت کی تھی۔ ماضی میں ہمارے کپڑے سوتی ہوں یا اونی اور پلاسٹک کا سامان.. انڈیا فرمائش کرکے منگوایا جاتا تھا۔ اسی طرح سے ہمارے ویسپا اور دوسرے جو اسکوٹر بنتے تھے وہاں سے فرمائش کرکے منگوائے جاتے تھے۔ لیکن اب آپ دیکھیے، ولیکا وولن کا کوئی پتا نہیں۔ تو تباہی اور زوال کے انتہائی راستے پر ہم گامزن ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی چٹان تھی جسے اوپر سے لڑھکایا جارہا ہے اور معلوم نہیں کہ کون سی طاقت اسے روکے گی۔

فرائیڈے اسپیشل: کراچی میں پچیس تیس سال بہت پُرتشدد گزرے، اس کو آپ نے کس طرح دیکھا اور کیا محسوس کیا؟

پروفیسرسحر انصاری: وہ بہت خراب دور تھا، اور ظاہر ہے کہ بعد میں اور اب بھی جو اس کے ذمے دار ہیں وہ بھی محسوس کررہے ہیں کہ وہ بہت خراب دور تھا اور اس میں بڑی انسانیت سوز حرکتیں ہوئیں۔

فرائیڈے اسپیشل: اس طرح جب کسی شہر کی تباہی کی حالت ہوتی ہے تو پھر شاعری بھی ہوتی ہے۔ کراچی کے ان ادوار کے حوالے سے کراچی کی کیا مثالیں موجود ہیں، شاعر بھی خوف زدہ رہے یا شاعری ہوئی ہے؟

پروفیسرسحر انصاری: بالکل ہے بلکہ ہمارے آصف فرخی نے دو مجموعے مرتب کیے ہیں، اس کے علاوہ بھی کئی دوسرے لوگ ہیں۔ ایک مجموعہ مرتب ہوا ’’شہر جل رہا ہے‘‘۔ کئی مجموعے اس زمانے میں شائع ہوئے۔

فرائیڈے اسپیشل: جیسا آپ نے ذکر بھی کیا کہ کراچی میں ادبی بیٹھکیں ہوا کرتی تھیں وہ ہم سے چھن گئیں، اور ظاہر ہے ماضی کا کراچی نہیں رہا جہاں ادبی نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ آج کے دور میں اگر ہم وہ کلچر پیدا کرنا چاہیں تو کیا ایسی چیزیں ہیں جنہیں اختیار کیا جائے؟

پروفیسرسحر انصاری: اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسی نیوٹرل جگہ پیدا کی جائے جس میں تمام ہی لوگ بے دھڑک آسکیں، جیسے کسی ہوٹل میں جاتے ہیں۔ یعنی ہوٹل کا جو کلچر تھا وہ ایوب خاں کے زمانے میں ختم ہوا۔ وہ اصل کلچر تھا کیونکہ ہوٹل میں جاتے ہوئے آدمی جھجکتا نہیں ہے، جس کرسی پر چاہے بیٹھ جائے، جس محفل میں چاہے جاکر شریک ہوجائے۔ تو ایسا کوئی غیر جانب دار یا نیوٹرل ادارہ قائم کیا جائے جہاں کوئی نظریہ، کوئی چھاپ نہ ہو، بلکہ یہ ہو کہ سب آئیں اور اپنی اپنی گفتگو کریں، ادب پر بات کریں، ادب کے مسائل پر بات کریں، نئی نسل کی جو ذہنی پرورش ہونی چاہیے اس کی طرف توجہ کی جائے اور مطالعاتی حلقے قائم کیے جائیں کہ آپ یہ کتاب پڑھ کر آئیے، اگلے پندرہ دن کے بعد اس پر گفتگو ہوگی۔ تو اس طرح سے تو ماحول بن سکتا ہے، باقی اور کوئی صورت نہیں ہے۔

فرائیڈے اسپیشل:پنجاب میں اردو زیادہ اچھی بولی جاتی ہے یا کراچی میں اردو زیادہ خراب ہوگئی ہے؟

پروفیسرسحر انصاری: کراچی میں زیادہ خراب ہوگئی ہے۔

فرائیڈے اسپیشل:یعنی پنجاب میں اچھی اردو بولی جاتی ہے؟

پروفیسرسحر انصاری: جی بالکل! نہ صرف بولی جاتی ہے بلکہ لکھی جاتی ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: کراچی تو اردو بولنے والوں کا شہر ہے، یہاں اردو خراب ہونے کی وجہ کیا ہے؟

پروفیسرسحر انصاری: ہوا یہ ہے کہ ذاتی طور پر اور شعوری طور پر بھی یہاں کے لوگوں نے خود کو ڈی گریڈ کیا ہے۔ پھڈا، لفڑا اور گولی دے دی… ایسے الفاظ گفتگو میں داخل ہوگئے۔ یہ الفاظ آپ کو پنجاب میں بالکل نہیں ملیں گے۔ اور یہ دیکھیے کہ انہوں نے اپنے کیے کا پھل بھی پایا ہے کہ یونیسکو نے سرکاری طور پر لاہور کو شہر ادب قرار دیا ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: بڑے ادیب اور شاعر ادب کی انفرادیت پر بہت اصرار کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ادب انسان کو ایسا کیا مہیا کرتا ہے جو دیگر علوم مہیا نہیں کرسکتے؟

پروفیسرسحر انصاری: انسان کئی چیزوں کا مرکب ہے۔ ان میں سے ایک چیز یہ ہے کہ اس کو کائنات کے مختلف ذرائع کو دیکھنے اور محسوس کرنے سے سکون ملتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جتنے بھی فنونِ لطیفہ ہیں چاہے موسیقی ہو، رقص ہو، فنِ تعمیر ہو، شاعری ہو، افسانہ ہو یا ناول… ان کے پڑھنے سے انسان کو ایک طرح کا سکون اور ذہنی تسلی حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ ارسطو نے ڈھائی ہزار سال پہلے کہا تھا: شاعری مسرت بہم پہنچاتی ہے، اور اسی لیے شاعری تاریخ سے زیادہ فلسفیانہ ہے۔ یہ چیز ایسی ہے کہ ادب خصوصاً جو بڑا ادب انسانوں کو سکون، مسرت اور بصیرت بخشتا ہے۔ یہ اپنے اوپر منحصر ہے کہ ادیب اور شاعر کون سا راستہ اختیار کرتا ہے۔ وہ سیاسی بیداری کے لیے لکھتا ہے یا کسی مذہبی نکتہ نظر سے کچھ لکھتا ہے… صرف محبت کی باتیں کہتا ہے یا کہ مناظر فطرت پر زور دیتا ہے یا کائنات کے فلسفیانہ رموز پر سوچتا ہے۔ یہ تمام موضوعات ہیں جن کو آپ نے انفرادیت کا نام دیا ہے۔ انفرادیت اسی سے پیدا ہوتی ہے کہ لکھنے والے نے اپنے لیے کون سا موضوع اور کون سا نظریہ اختیار کیا ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: ادب کی دنیا میں بڑا ادب اور بڑے ادیب کی ایک بحث موجود ہے کہ یہ کون ہوتا ہے۔ میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ بڑا ادیب کسے کہتے ہیں اور بڑا ادب کیا ہوتا ہے؟

پروفیسرسحر انصاری: بڑا ادب یا بڑے ادیب کی تشریح کرنا تو بہت مشکل کام ہے، لیکن چونکہ بہت سی ایسی مثالیں ہیں کہ زندگی میں ان کی قدر نہیں ہوئی یا ان کے بارے میں اجتماعی رائے کوئی خاص نہیں تھی، مثلاً شیخ سعدی کے بارے میں ہے کہ ان کی محفل میں بیٹھ کر لوگوں نے پوچھا کہ اس زمانے میں سب سے اہم اور بڑا شاعر کون ہے؟ تو اس وقت جتنے بھی ادیب اور شاعر بیٹھے تھے انہوں نے کہا کہ ہمام تبریزی اس وقت سب سے بڑا شاعر ہے۔ اب آپ خود سوچیے کہ آپ نے کتنی بار سنا ہے ہمام تبریزی کا نام؟ اور اس کے مقابلے میں شیخ سعدی کا نام 700 برس سے زیادہ ہوگئے اب تک چل رہا ہے۔ تو یہ کہہ نہیں سکتے، لیکن اس کے باوجود کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو ہم طے کرسکتے ہیں، مثلاً یہ کہ بڑے ادیب اور بڑے شاعر کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا ذہن بھی بڑا ہونا چاہیے۔ ذہن بڑا ہونے سے مراد یہ ہے کہ آپ نے مطالعہ کتنا کیا؟ مشاہدہ کتنا کیا؟ بقول ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے، کسی بھی بڑی تخلیق کے لیے چار شرطیں لازم ہیں: مشاہدہ، مطالعہ، مراقبہ اور مغالطہ۔ تو مغالطہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو راہِ تخلیق پر جمے رہنے دیتی ہے، ورنہ تو اتنے بڑے بڑے شعرا کی موجودگی میں ہماری کیا حیثیت اور کیا ضرورت ہے! لیکن ہمیں بھی کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ نہیں ہماری بھی کہیں ضرورت ہے۔ تو یہ جو مغالطہ ہے یہ انسان کو کسی اہم کام کرنے پر مجبور اور مائل کرتا ہے۔ تو اس لحاظ سے ایک شاعر اپنے عہد میں کتنی شہرت حاصل کرتا ہے؟ پھر اس کے بعد ملک سے باہر اس کی کیا حیثیت ہے؟ کہیں اور بھی اسے اہمیت اور شہرت حاصل ہوئی ہے یا نہیں؟ اقبال کی مثال سامنے رکھ سکتے ہیں، غالب کی مثال ہے۔ میر تقی میر کو خدائے سخن کہا گیا اور یہ کہ وہ سب سے بڑے شاعر ہیں، لیکن اس کے باوجود میرا خیال ہے ان کو یورپ یا امریکہ میں لوگ اس طرح نہیں جانتے جس طرح غالب اور اقبال کو جانتے ہیں۔ تو یہ بڑا مشکل سوال ہے کہ کوئی پیمانہ بنایا جائے۔ یہ تو وقت ہی کسی کو کسی انداز سے ممتاز بناتا ہے اور ایک ایسی سطح پر پہنچا دیتا ہے کہ سب کی نگاہیں اس کی طرف ایسے آجاتی ہیں جسے کہتے ہیں کہ’’آفتاب آمد دلیلِ آفتاب‘‘یعنی جب سورج چڑھتا ہے تو سب ہی اس کو دیکھتے ہیں۔

فرائیڈے اسپیشل: آپ موجودہ عہد اور اس سے تھوڑا پہلے بھی آپ کن لوگوں کو بڑے شاعروں میں شمار کرتے ہیں؟

پروفیسرسحر انصاری: اپنے دور کے جن شاعروں سے ہماری ملاقات ہوئی ہے، ان کے ساتھ کام بھی کیا ہے ان میں جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ بڑے شاعر ہیں اور ان کی شہرت کا بھی وہی پیمانہ ہے سامنے، جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اپنے ملک کی سرحدوں سے باہر ان کی پذیرائی ہوئی ہے اور ان پر وہاں بھی کام ہورہا ہے۔ بعض جگہ یہ لوگ نصابوں میں بھی شامل ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے بڑے شاعر ہیں۔

فرائیڈے اسپیشل:آپ نے فیض سے اپنے تعلق پر ایک کتاب بھی لکھی۔ بعض لوگ فیض احمد فیض کو اچھا شاعر تو کہتے ہیں لیکن بڑا شاعر نہیں مانتے۔ اس کی دلیل میں وہ یہ کہتے ہیں کہ حالات و واقعات اور پروپیگنڈے نے انہیں یہ مقام دیا، وہ اتنے بڑے شاعر نہیں تھے جتنا بڑا بنا کر انہیں پیش کیا گیا۔ آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟

پروفیسرسحر انصاری: میں اس سے بالکل اتفاق نہیں کرتا۔ اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ راولپنڈی سازش کیس کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ راولپنڈی سازش کیس میں تو اور بھی شاعر تھے، اور بھی ادیب تھے، تو کس کو فیض جیسی حیثیت حاصل ہوگئی؟ دوسری بات یہ ہے کہ فیض چاہے پروپیگنڈے کے تحت اوپر اٹھے ہوں لیکن انہوں نے اپنی شاعری میں پروپیگنڈا نہیں کیا۔ یہ ان کی بڑی کامیابی ہے، اس لیے کہ وہ جمالیات اور شعر کے تمام لوازم پر اتنی توجہ دیتے ہیں کہ ان کا کلام آپ اگر تعبیر کریں اس پر کہ ’’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘ یہ بات انہوں نے امریکی سائنس دانوں کے بارے میں لکھی جن کو روس کو ایٹمی راز پہنچانے کی وجہ سے امریکہ نے پھانسی دے دی تھی۔ آپ دیکھتے ہیں ہمارے کتنے ہی سپاہی، عام آدمی اور کتنے ہی ہمارے فوجی اس طرح تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں۔ نہ ان کی پوچھ گچھ ہوتی ہے، نہ ہی بینڈ باجے بجتے ہیں۔ تو فیض کی یہ کامیابی ہے کہ ان کی شاعری میں جمالیات ہے، شعریت ہے اور پروپیگنڈا نہیں ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: شاعری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا آرٹ ہے۔ شاعری کے سب سے بڑا آرٹ ہونے کا سبب کیاہے؟

پروفیسرسحر انصاری: سبب یہ ہے کہ اس میں تمام فنونِ لطیفہ آجاتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ موسیقی میں دیکھتے ہیں سُر ہوتے ہیں، تال ہوتی ہے،آہنگ ہوتا ہے۔ شاعری میں بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح سے ناول میں، افسانوں میں پلاٹ ہوتا ہے، مکالمہ ہوتا ہے، یہی چیزیں شاعری میں بھی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹیج ڈرامے جس طرح کے یونان میں لکھے گئے ہیں اور اب بھی لکھے جاتے ہیں، تو گویا وہ تمام فنونِ لطیفہ جو الگ الگ اپنی حیثیت رکھتے ہیں شاعری میں آکر وہ باہم آمیز ہوجاتے ہیں۔ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ اجزا کو ایک جگہ جمع کردیا جائے تو کُل، جزو میں بڑھ جاتا ہے، تو اسی لیے شاعری دیگر فنون لطیفہ سے بڑھ جاتی ہے اگر صحیح معنوں میں شاعری کی جائے۔

(جاری ہے)