ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

پاکستان کے معاشی و معاشرتی مسائل ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے بلکہ ہرگزرتے دن کے ساتھ ان کی سنگینی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، سیاسی بحران اور عدم استحکام کی کیفیت میں ٹھہرائو کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں، انتشار دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ سیاست دانوں کی پالیسیوں سے پوری قوم ذہنی اذیت سے دو چار ہے، وہ ہوس اقتدار کی پٹی آنکھوں پر چڑھائے اپنی انا کی تسکین کا سامان کرنے میں مصروف ہیں، ان میں سے کوئی بھی ضد اور ہٹ دھرمی کا رویہ ترک کر کے یہ سوچنے پر تیار نہیں کہ ان کے اس طرز عمل سے ملک جس دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سے نکلنا کس طرح مشکل ہے مشکل تر ہو رہا ہے، ہر مقتدر سیاسی جماعت اور اس کے قائدین اپنی انا کے خول میں بند ہیں ملک اور قوم کی کسی کو قطعاً کوئی پرواہ نہیں، سیاسی بے یقینی کی صورت حال کے سبب معاشی سرگرمیاں بھی انحطاط پذیر ہیں، پیداوار میں مسلسل کمی آ رہی ہے جب کہ مہنگائی، بے روز گاری، کساد بازاری اور افراط زر میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، ملکی حالات کے باعث بیرونی سرمایا کار بھی ہاتھ کھینچ رہے ہیں، اطلاعات کے مطابق اس میں باون فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے حکومت کی نئی مالیاتی پالیسی کے تحت شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کے بعد اسے سولہ فیصد کی 23 برس کی بلند ترین سطح پر لے جانے کے اعلان سے ملک کی سٹاک مارکیٹ میں بھونچال آ گیا ہے اور یہاں شدید مندی کا رجحان دیکھا گیا اور 84 فیصد حصص کی قیمتیں گر گئیں جس سے سرمایا کاروں کی ایک کھرب بائیس ارب سے زائد رقم محض ایک دن میں ڈوب گئی، زرمبادلہ کے سنگین بحران اور ادائیاگیوں کے سنگین عدم توازن کی وجہ سے سرمایا کار، اپنے سرمایا کے انخلاء ہی میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ دسمبر میں ایک ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیوں کے دبائو اور زر مبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر کے سبب روپے کی قیمت میں استحکام خاصا مشکل محسوس ہو رہا ہے۔ جب کہ ڈالر مسلسل بلندی کی جانب مائل بہ پرواز ہے…!

ایوان اقتدار کی بھول بھلیوں میں الجھے ہوئے ہمارے سیاست دانوں خصوصاً حکمرانوںکو یہ احساس ہی نہیں کہ وہ آنکھیں بند کئے جس راستے پر بگٹٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں وہ ملک و قوم کی فلاح کا نہیں بلکہ تباہی و بربادی کا راستہ ہے جس سے ہم پہلے ہی دو چار ہو چکے ہیں، ’’پاکستان کا مطلب کیا۔ لا اِلٰہ اِلَّا اللہ‘‘ کے نعرے اور اسلامی نظام کے نفاذ کے وعدے پر حاصل کی گئی اس مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسائل انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو اختیار کرنے سے حل نہیں ہوں گے، سیاسی افراتفری، غربت و افلاس اور معاشرتی بے چینی ملک میں جاری بے مقصدیت کے حامل، سرمایا داری کے محافظ نظام کے لازمی نتائج ہیں جن کا پاکستان کو سامنا ہے۔ پاکستان کو بطور ایک مملکت اور یہاں بسنے والوں کو بحیثیت ایک قوم اگر دنیا میں باوقار مقام حاصل کرنا ہے اور ترقی و خوشحاتی سے ہم کنار ہونا ہے تو اس وعدہ کو ایفا کرنا ہو گا جو تحریک قیام پاکستان کے دوران پورے زور شور سے کیا گیا اور جس کا اعادہ پاکستان کے دستور میں بھی موجود ہے کہ یہاں قرآن و سنت بالادست ہوں گے، ان کے منافی کوئی قانون یہاں بنایا جا سکے گا نہ نافذ رہ سکے گا مگر ہمارا عمل یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر کے حقوق کا نام لے کر ملک میں فعل قوم لوط کو رواج دیا اور قانونی تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریمؐ سے جنگ قرار دیا گیا حرام سودی نظام گزشتہ پون صدی سے یہاں جبراً مسلط ہے، اس ضمن میں ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے فیصلوں کو بھی حیلوں بہانوں سے نافذ ہونے سے روکا جا رہا ہے، ہمارے ذرائع ابلاغ، وہ برقی ہوں یا ورقی یا معاشرتی سب کے سب بے حیائی، عریانی، فحاشی اور لادینیت کو فروغ دینے میں مصروف ہیں، افسوس کا مقام ہے کہ ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں، جو دراصل پورے دین نہیں بلکہ اپنے اپنے مکتبۂ فکر کی نمائندہ اور اسی کے مفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں، ماضی میں بھی اور آج کل بھی اقتدار کا حصہ ہونے کے باوجود ملک کو غیراسلامی قوانین کی بالادستی سے نجات دلانے میں کوئی موثر کردار ادا کرنے میں قطعی ناکام رہی ہیں، موجودہ وزیر خزانہ نے اگرچہ سود کے انسداد سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے خلاف حکومتی بنکوں کی اپیلیں واپس لینے اور اسلامی معاشی نظام رائج کرنے کا اعلان کیا ہے مگر یہ محض دکھاوے کے ایک اعلان سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا کہ حکومت نے عملاً اسلامی نظام کے نفاذ کے ضمن میں کوئی معمولی پیش رفت بھی نہیں کی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اگر واقعی سیاسی، معاشی بحرانوں اور مسائل و مصائب سے نجات چاہتے ہیں تو ہمیں بحیثیت قوم قرآن و سنت کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہو گا اور اسلام کے انقلابی نظام کے نفاذ کی جانب سنجیدگی سے قدم بڑھانا ہوں گے…!

حالات اگرچہ خاصے پریشان کن ہیں اور مسائل کا سلسلہ لاینحل دکھائی دیتا ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ یہ سرزمین بانجھ ہو چکی ہو، ملک میں قحط الرجال ضرور ہے مگر اس قدر بھی نہیں کہ مایوس ہو کر بیٹھ جایا جائے اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہماری قوم مادی وسائل اور باصلاحیت افرادی قوت سے مالا مال ہے ضرورت ان سے استفادہ کی ہے، ایسا بھی نہیں کہ متبادل قیادت معاشرے میں دستیاب نہ ہو، بحران در بحران کی کیفیت سے نجات کے لیے عوام کو شعور کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور ’’آزمودہ را آزمودن‘‘ جسے ’’جہل‘‘ قرار دیا گیا ہے کی روش ترک کر کے معاشرے میں موجود نیک نام، خدمت گزار، امانت و دیانت کے پیکر افراد پر اعتماد کا اظہار کرنا ہو گا تاکہ قوم کی بگڑی بن سکے، بحرانوں سے نجات پائے، معیشت کی نائو منجھدار سے نکل سکے، سیاست میں ٹھہرائو اور بہتری کے امکانات روشن ہوں اور عام آدمی سکھ کا سانس لے سکے…! اس ضمن میں یہ جواز بہرحال درست نہیں ہو گا کہ میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں،قوم کے ہر ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کا احساس اور اس کی ادائیگی کا اہتمام کرنا ہو گا کہ قطرہ قطرہ مل کر ہی دریا بنتا ہے، ’ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ، خصوصاً پاکستان میں جو انتخابی نظام رائج ہے اس کے بارے ہی میں مصور پاکستان علامہ اقبالؒ نے ارشاد فرمایا تھا کہ:۔

جمہوریت اک ایسا طرز حکومت ہے، جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے

(حامد ریاض ڈوگر)