دعوت و اصلاح کا بنیادی مقصد

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ”جو امیر مسلمانوں کے معاملات کا ذمہ دار بن کر مسلمانوں کی خیر خواہی میں کوشش نہ کرے وہ مسلمانوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا“۔
(مسلم)

معروف اور بھلائی کا قیام اور منکر ، فواحش، باطل اور فساد سے معاشرے کو پاک کرنا ہے ۔ معاشرتی مفاسد سے نجات کے لیے مثبت حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی حکمت عملی جس کے نتیجے میں معاشرے میں خاندان کے تحفظ اور خصوصاً خواتین اور بچوں کی جان اور عزت کے تحفظ کے معاملات کو اسلامی فکر اور روح کے مطابق بہتر بنایا جا سکے ۔ ایسی دعوتی سرگرمیوں کا انعقاد کرنے کی ضرورت ہے ، جن میں خاندانوں کو شریک کروایا جائے ۔ اسلامی تعلیمات کو ملحوظ رکھتے ہوئے عورتوں اور بچوں کے لیے اجتماعی سرگرمیوں کا اہتمام بھی ضروری ہے، نیز خاندانی نظام کی مضبوطی کے لیے خصوصی جدوجہد مطلوب ہے۔ اس سلسلے میں ہرسطح پر گفتگو ، مذاکروں، تقاریر اور عمومی تعلیم کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔

عوامی شعور کی بیداری میں مسجد کا ادارہ انتہائی کلیدی اور اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ مساجد اور خطبا سے رابطہ کاری کا مؤثر نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے انھیں مسلکی اختلافات سے بالاتر ہو کر معاشرے کو درپیش اہم مسائل، مثلاً خاندانی نظام کا تحفظ ، بزرگوں کااحترام ، معاشرتی رواداری ، عریانی و فحاشی کے خلاف رائے عامہ کی بیداری ، بچوں کی تربیت، گھر کے ماحول کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی ضرورت و اہمیت اور اس جیسے بیسوں اہم مسائل پر اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔

تحریکی فکر کے حامل تعلیمی اداروں کو مرکز بناتے ہوئے کئی اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان اداروں کی معاونت سے طلبہ و طالبات کے والدین کو تعلیمی اداروں میں مدعو کیا جائے۔ ان کو خاندانی نظام کے استحکام اور معاشی مشکلات سے نجات کے لیے اسلام کے مطابق سادہ زندگی گزارنے کی ضرورت و اہمیت بتائی جائے اور بچوں کی تربیت اور نفسیاتی و خانگی مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی برکات سے آگاہ کیا جائے۔

اگر مستقل طور پر یہ عمل جاری رکھا جائے تو اس سے تحریک کی دعوت کو بھی فروغ ملے گا۔ سوشل میڈیا کے ساتھ اُردو اور انگریزی اخبارات میں مضامین ، خطوط اور کالم لکھے جائیں، اور انھیں صوبائی اور مرکزی پارلیمانوں میں پہنچایا جائے۔ ہم خیال صحافیوں ، وکلا اور اساتذہ کی طرف سے ملک گیر پیمانے پر دستخطی مہم چلائی جائے اور اس طرح جو لوگ دستخط کریں ان کے ای میل، سوشل میڈیا رابطہ ایڈریس حاصل کیے جائیں، تاکہ مہم کے نتائج سے انھیں آگاہ کیا جائے اور مستقل بنیادوں پر ان سے آیندہ بھی دعوتی رابطہ کاری ہوتی رہے ۔بڑے اجتماعات کی جگہ چھوٹے اجتماعات، جن پر خرچ بھی کم ہوگا منعقد کیے جائیں اور خصوصاً مساجد اور اسکولوں کو اس مقصد کے لیے بنیاد بنایا جائے۔

ان تمام اقدامات کے ساتھ حکومت اور میڈیا کو فساد اور انتشار کے اس چیلنج کے مقابلے اوراسلامی اقدار کے فروغ کے لیے مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ دراصل یہ ہم سب کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے اور دنیا اور آخرت دونوں میں اس کی جواب دہی کی فکر کرنی چاہیے۔ ہم اپنی ان گزارشات کا اختتام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو زریں ارشادات پر کرنا چاہتے ہیں، جن کے مخاطب مساوی طور پر حکمران اور عامۃ المسلمین ہیں:

حضرت تمیم داریؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلدِّیْنُ النصیحہ اور یہ ارشاد تین بار فرمایا۔ ہم نے پوچھا: لِمَنْ، تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:لِلّٰہِ وَلکِتبِہِ ولرسولہِ ولائمۃ المسلمین وعامیتھم ،یعنی دین سراپا نصیحت اور خیرخواہی ہے اللہ کے لیے ، اللہ کی کتاب کے لیے،اس کے رسولؐ کے لیے، مسلمانوں کی قیادت کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔

عربی میں نصیحہ سے صرف خیرخو اہی ہی مراد نہیں بلکہ صحیح بنیادوں پر تعلق استوارکرنا اور اس کے تقاضوں کوپورا کرنا بھی اس میں شامل ہے ۔ اللہ، اس کی کتاب اور اس کے رسولؐ سے خیرخواہی کے معنی ان پر حقیقی ایمان، ان سے گہرا تعلق، اور اس ایمان اور تعلق کے تقاضوں کی صحیح ادائیگی ہے۔ یہ ہرفرد کے لیے لازم ہے جو اسلام کا دعوے دار ہے۔ سب سے بنیادی چیز اللہ کی ہدایت اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی روشنی میں خودسادہ زندگی گزارنا اور معاشرے اور زندگی کے پورے نظام کی اس کے مطابق تشکیل کو اپنی زندگی کا مقصد اورسعی و جہد کا محور بنانا ہے۔ قیادت سے خیرخواہی جہاں حق بات اُن تک پہنچانے، صحیح مشورہ دینے، معروف میں اطاعت کرنے پر مشتمل ہے،وہیں اصلاحِ احوال کے لیے ان میں غلطی اور ناروا رویے پر تنقید و احتساب بھی اس کا اہم حصہ ہے۔ اور عامۃ الناس کے لیے خیرخواہی امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے عبارت ہے تاکہ معاشرہ اسلام کی برکتوں سے مالا مال ہوسکے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا ارشاد، دُنیا اور آخرت میں ہرشخص کے لیے اس کی ذمہ داری کے بارے میں جواب دہی کا اصول مقرر فرماتا ہے۔ اسلامی معاشرے کی نمایاں خصوصیت صحت مند احتساب، قانون کی حکمرانی، بے لاگ انصاف، خیر کی حوصلہ افزائی ور شر کی سرکوبی ہے۔ اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی جامعیت کے ساتھ اپنے اس ارشاد میں اُمت کے لیے مشعلِ راہ بنایا ہے:

قَالَ : اَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ ،فَالْاِمَامُ الَّذِیْ عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَّھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰٓی اَھْلِ بَیْتِہٖ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی اَھْلِ بَیْتِ زَوْجِھَا وَوَلَدِہٖ وَھِیَ مَسْئُوْلَۃٌ عَنْھُمْ ، وَالْخَادِمُ فِیْ مَالِ سَیِّدِہٖ رَاعٍ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ اَلَا فَکُلُّکُمْ مَّسْئُوْلٌعَنْ رَّعِیَّتِہٖ (بخاری، کتاب الاستقراض، باب العبد، راعٍ فی مال سیدہ، حدیث:۲۳۰۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! کہ تم میں سے ہرشخص چرواہا ہے،اور تم میں سے ہرایک شخص سے اپنی رعیت کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ وہ امام جو لوگوں پر نگران ہے، اس سے رعیت کے متعلق بازپُرس ہوگی، اور مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچے کی نگران ہے، اس (عورت) سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے تو اس سے اس کی بابت پوچھا جائے گا۔ سن لو کہ تم میں سے ہرشخص چرواہا ہے اور تم میں سے ہرایک سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔

(معاشرے کا اخلاقی بگاڑ: اسباب اور حل، | دسمبر ۲۰۲۱ ترجمان القرآن سے اقتباس)