نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے صحابہ کو برا نہ کہو اور گالی نہ دو، اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں اگر کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کردے تو وہ ان کے ایک مد اور نہ ہی اس کے نصف تک پہنچ سکتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر3673)
اس کتاب میں تذکرہ ہے اُن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا، جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو تجربات حاصل کیے انھی واقعات کو مولانا مودودیؒ نے اپنے عقائد و نظریات میں پیش کیا ہے۔
’’مولانا مودودیؒ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب لکھتے ہیں:
’’مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پر جو بہت سے اعتراضات کیے گئے ہیں اُن میں سے ایک سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ انھوں نے صحابہ کرامؓ کی توہین کی ہے، ان پر طعن و تشنیع سے کام لیا ہے اور ان کی جانب ایسی گھنائونی باتیں منسوب کی ہیں جن کی نسبت کسی شریف آدمی کی طرف نہیں کی جاسکتی۔ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دین کے معاملے میں معیارِ حق نہیں مانتے۔ اس بنا پر وہ گستاخِ صحابہ ہیں اور اہلِ سنت والجماعت سے خارج ہیں، اس لیے کہ اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مذمت کرنا اور ان پر طعنے کسنا جائز نہیں۔ اس تعلق سے عموماً مولانا کی کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے کہ اس میں انھوں نے بعض صحابہ کے اقدامات پر نقد کیا ہے اور انہیں غلط قرار دیا ہے۔ ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کے رد میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، لیکن ان میں سے بیشتر میں سنجیدہ اور متعین (To the Point) محاکمہ کا فقدان ہے۔ اس موضوع پر مولانا کے افکار کا صحیح نقطہ نظر سے مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
درحقیقت مولانا مودودیؒ خود لکھتے ہیںکہ اگر ’’ان (صحابہ کرامؓ) کی عدالت میں ذرہ برابر بھی شبہ پیدا ہوجائے تو دین ہی مشتبہ ہوجاتا ہے‘‘۔
مولانا مودودیؒ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر نقد اور اہانت کے درمیان فرق کرتے ہیں، ان کی رائے میں کسی صحابی کی کوئی بات کتاب و سنت سے ہم آہنگ نہ معلوم ہو تو اسے غلط کہا جاسکتا ہے، لیکن اس سے آگے بڑھ کر اس صحابی پر زبانِ طعن دراز کرنا ہرگز جائز نہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مولانا بھی مرحوم و مغفور مانتے ہیں اور دیگر علما بھی۔ دونوں انہیں معصوم نہیں سمجھتے، ہر صحابی کی زندگی میں خیر کا پہلو غالب ہے، دیگر علما کی طرح مولانا بھی اس کے قائل ہیں۔‘‘
مرتبین نے کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا باب فضائل و منافقب، دوسرا عقیدہ و مسلک، اور تیسرا صحابہ پر ہونے والے اعتراضات کا مولانا نے جس خوبی سے دفاع کیا ہے، پر مشتمل ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں مولانا کے عقائد و نظریات جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔