اسلام آباد یونیورسٹی کے پروفیسر محمد الغزالی کی یہ انگریزی کتاب مسلم اور مشرقی ذہنوں کو جدید سماجی سوچ کو تشکیل کرنے والے یورپی نظریات سے آزاد کرنے کی سمت میں ایک علمی قدم ہے۔ علم ’’سماجیات‘‘ کو تشکیل دینے والے تصورات، اصولوں اور نتائج پر ایک واضح مغربی مہر ہونے کے باوجود انہیں عموماً ’’عالمگیر حقائق‘‘ سمجھا جاتا ہے جو کہ وہ نہیں ہیں، بلکہ وہ مغرب کے افکار، اقدار اور مفادات کی عکاسی کرتے ہیں۔ پروفیسر محمد الغزالی جو فی الحال پاکستان سپریم کورٹ کی شریعت بینچ کے جج بھی ہیں، کی یہ جدید علمی پیشکش اس مفروضے کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ موجودہ سماجی علوم ’’عالمگیر‘‘ ہیں۔
یہ کتاب قرونِ وسطیٰ کے بعد کے یورپی معاشرے کے تاریخی تناظر میں تیار ہونے والے جدید سماجی علوم میں اختیار کیے گئے تجرباتی طریقوں کا تنقیدی جائزہ لینے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ کتاب ان مقامات کو اجاگر کرتی ہے جہاں ان جدید سماجی علوم کا ٹکرائو اسلام کے عالمی نظریے سے ہوتا ہے، وہ نظریہ جس نے ایک ہزار سال سے زیادہ تاریخی عرصے تک ایک ممتاز اسلامی معاشرہ بنایا، اسے برقرار رکھا اور مستقل ترقی دی۔ اسلامی معاشرے کی انفرادی خصوصیات کا خاکہ پیش کرنے کے بعد، یہ کتاب ایک نیا علمی طریقہ اختیار کرنے کی دلیل دیتی ہے جس کی بنیاد سچائی اور حق کے اسلامی معیاروں پر ہے۔
یہ کتاب مغربی روایت میں شامل تصوراتی اور منہجی غلطیوں کی نشاندہی کرتی ہے اور ایک نیا نقطہ نظر اپنانے کی دعوت دیتی ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ یہ نیا نقطہ نظر اسلامی عقیدے اور ثقافت کی جڑوں سے نکلنا چاہیے اور اسلامی اور مشرقی معاشرے کو ایک اجنبی نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے کیونکہ اس اجنبی نقطہ نظر کی جڑیں مغربی نفسیات، تاریخ، اخلاقیات، مفادات اور تجربے میں پیوست ہیں۔
علم سماجیات کی یہ نئی کتاب اس بنیاد پر قائم ہے کہ انسان اور معاشرے کی پیدائش اور ارتقا کے بارے میں مغربی سیکولر اور مادیت پسند قیاس آرائیوں سے متاثر ہوئے بغیر انسانی معاشرے کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
جدید سماجی سائنس کے پروجیکٹ میں جن مفروضوں کو مدنظر رکھا گیا ہے ان کے تنقیدی جائزے کے بعد، مصنف نے مدینہ میں پیغمبر اسلامؐ کے قائم کردہ مثالی انسانی معاشرے کی ممتاز خصوصیات پر توجہ مرکوز کی ہے۔
یہ کتاب علم سماجیات کی ایک نئی شروعات ہے اور اسے دنیا بھر کے تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سماجیات کے شعبوں میں پڑھایا جانا چاہیے تاکہ سوشیالوجی کے نظم و ضبط پر ایک متبادل نقطہ نظر پیش ہوسکے۔ مصنف کو امید ہے کہ یہ کام قابل اور باشعور اسکالرز کے ذریعے سماجی تحقیق کے صحیح اسلامی طریقے کی ترقی کی طرف ایک تعلیمی سفر کا آغاز ہوگا۔ یہ کتاب سماجیات کے ایک نئے نظم و ضبط کی صحیح ترقی کے لیے ایک مستند بنیاد فراہم کرتی ہے جسے اس کی بنیادوں اور نتائج کی روشنی میں صحیح معنوں میں اسلامی اور مشرقی قرار دیا جاسکتا ہے۔
(بشکریہ: ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ)