سیرتِ طیبہ وہ چشمۂ صافی ہے جو رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے مشعلِ راہ اور منبع ہدایت ہے۔ سید مودودیؒ کے الفاظ ہیں: ’’یہ دونوں چیزیں (قرآن اور سیرتِ طیبہ) ہمیشہ سے ایسی لازم و ملزوم رہی ہیں کہ ان میں سے کسی کو کسی سے الگ کرکے نہ انسان کو کبھی صحیح فہم نصیب ہوسکا، نہ وہ ہدایت سے بہرہ یاب ہوسکا۔ کتاب کو نبی سے الگ کردیجیے تو وہ ایک کشتی ہے ناخدا کے بغیر، جسے لے کر اناڑی مسافر زندگی کے سمندر میں خواہ کتنے ہی بھٹکتے پھریں منزلِ مقصود پر کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ نبی کو کتاب سے الگ کردیجیے تو خدا کا راستہ پانے کے بجائے آدمی ناخدا ہی کو خدا بنا بیٹھنے سے کبھی نہیں بچ سکتا۔ یہ دونوں ہی نتیجے پچھلی قومیں دیکھ چکی ہیں۔
(’’محسنِ انسانیت ‘‘از نعیم صدیقی)
چودہ سو سال سے زائد عرصے میں ہر زمانے اور دنیا کی تمام تر زبانوں میں سیرتِ طیبہ پر مسلسل لکھا جاتا رہا ہے اور قیامت تک لکھا جاتا رہے گا۔ تھامس کارلائل (Thomas Carlyle) نے اسی حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ
“The series of biographers of Muhammad is impossible to end but it would be an honour to find a place in it.”
ڈاکٹر آفتاب احمد کی خوش بختی ہے کہ وہ بھی بقول تھامس کارلائل اس فہرست میں جگہ پاکر عزت و شرف کے مستحق قرار پائے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر Veterinary sciences کے Ph.D ہیں، برسوں فیصل آباد زرعی یونیورسٹی اور بعد میں گومل یونیورسٹی میں منتہی درجے کے طالب علموں کو پڑھاتے رہے ہیں۔ سید مودودیؒ کا فیضان ہے کہ بڑے بڑے مغربی تعلیم یافتہ مسٹر حضرات کو علم دین کے ماہروں کے برابر لاکھڑا کیا۔ ڈاکٹر آفتاب صاحب بھی انہی فیض یافتہ لوگوں میں سے ایک ہیں، جو زمانۂ طالب علمی ہی میں سیّد صاحب کی فکر کے اسیر ہوچکے تھے اور ان کی عصری مجالس میں بیٹھا کرتے تھے۔ اسی کا فیضان ہے کہ ایک veterinary scientist متعدد کتب کے مصنف بن چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں تو بہت پائے کی ہیں اور اپنے موضوع پر Reference Book کا درجہ رکھتی ہیں۔ اول “Sex & Sexuality in Islam” اور دوم “Buffalo” ، جو انٹرنیشنل بفیلو کانگریس منعقدہ پاکستان کے متعدد مندوبین کو پیش کی گئی۔ اول الذکر کا اردو ترجمہ موجود ہے، البتہ ثانی الذکر کا اردو ترجمہ موجود نہیں۔ اب ان کے تحریری ذخیرے میں ایک نیا اضافہ ’’آنحضرتؐ کی عائلی زندگی‘‘ ہے۔
ڈاکٹر جسٹس تنزیل الرحمٰنؒ نے برسوں پہلے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ مغرب، اسلامی ممالک میں تین مدات میں پیسہ خرچ کررہا ہے۔ اوّل: قادیانیوں کی پشت پناہی، دوم: خاندانی منصوبہ بندی، اور سوم: تحریک آزادیِ نسواں۔ فی الحقیقت خاندانی منصوبہ بندی اور تحریک آزادیِ نسواں ایک ہی مقصد کے حصول کے دو عنوان ہیں۔ پرانے دیسی لبرل اور سیکولرازم کے علَم برداروں میں کسی نہ کسی درجے میں جھجک اور حیاء موجود تھی لیکن دور جدید کے سیکولر مرد و خواتین تمام حدیں پار کرچکے ہیں۔ بیرونی آقائوں کی سرپرستی میں یہ کھیل بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتادیا تھا کہ:
’’میری امت کے دو گروہ اگر راستی پر ہوں گے تو ساری امت راستی پر جمع ہوگی، اور اگر یہ فساد میں مبتلا ہوتے ہیں تو ساری امت فساد کا شکار ہوگی۔‘‘
ان دونوں طبقوں کا جو حال ہے وہ سب کو معلوم ہے۔
حکمران طبقہ بزدلی اور بے غیرتی کے ساتھ خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔ مقتدر حلقوں میں مسلمانیت کے دعوے کے ساتھ بے دین اور سیکولر براجمان ہیں۔ دوسری جانب علماء حضرات اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ منبر و محراب محفوظ ہیں۔ بقول اقبال ؎
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
حاملینِ منبر و محراب خود تو اقامتِ دین اور غلبۂ دین کے مجاہدے کی سکت اپنے اندر نہیں پاتے، البتہ اقامتِ دین کا کام کرنے والوں کو ضال و مضل گرداننے کی مہم پوری جانفشانی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ’’دین کافر، فکر و تدبیر و جہاد اور دین مُلاّ فی سبیل اللہ فساد‘‘۔ کفر ملتِ واحدہ کی حیثیت سے ہمہ وقت دین کی بنیادوں کو ڈھانے میں مصروفِ کار ہے، ادھر کم نظر خطباء اور کور ذوق علماء کو مسلکی مناظروں اور مجادلوں میں تضلیل و تکفیر کی مہم سے فرصت نہیں۔
اس دور میں جب مغرب کے پیسے، سرپرستی اور بے حیا میڈیا کی مدد کے ساتھ خاندانی زندگی کو کھلے بندوں ہدف بنایا جارہا ہے، عین اسی وقت ڈاکٹر آفتاب صاحب اردودان طبقے کو ان کا بھولا ہوا سبق لکھ کر یاد دلا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے۔
ڈاکٹر صاحب نے واضح کیا ہے کہ تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ جنس کے معاملے میں انسان ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار رہا ہے۔ ایک انتہا، بے لگام جنسی بے راہ روی (Sex for fun, Sex for its own sake) کا نظریہ ہے، جسے آج پھر سے رائج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بہت پہلے اسی انتہا کے مقابلے میں دوسری انتہا یعنی جنسی داعیہ کو سرے سے کچل کر تجر ّد کا راستہ اختیار کرنے کا عمل ہے، یہ دونوں انتہائیں انسان کے لیے ہمیشہ تباہ کن ثابت ہوئی ہیں۔ اس کے برعکس اسلام نے یہ تعلیم دی کہ جنس ایک فطری اور پاکیزہ داعیہ ہے جو نسلِ انسانی کی بقاء کا ضامن ہے، اور ساتھ ہی اس داعیہ کی فطری حدود بھی واضح کردی ہیں تاکہ نسلِ انسانی ارضی دنیا میں راحت کی زندگی گزارے۔ اسلام نے جہاں عائلی زندگی کی علمی توضیح کی تکمیل کی، وہیں عائلی زندگی کا ایک بہترین عملی نمونہ بھی پوری شرح و بسط کے ساتھ قیامت تک کے لیے محفوظ کردیا۔ اسی نمونے کی عکاسی کی ایک کوشش یہ کتاب ہے۔
کہنے کو یہ کتاب چھوٹی تقطیع پر 250 صفحات پر مشتمل ہے لیکن موضوع کے اعتبار سے پورے مضمون کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
اللہ تعالیٰ ڈاکٹر آفتاب صاحب کی عمر دراز کرے اور ان کے قلم کو متحرک رکھے تاکہ وہ دین و ادب کی خدمت جاری رکھیں۔