کیلا

اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی بے شمار نعمتوں میں ایک نعمت کیلا بھی ہے، جو بے شمار فوائد اور خوبیوں کا مالک ہے۔ یورپ کے لوگ تو اسے ’’بہشت کا سیب‘‘ کہہ کر اس کی خوبیوںکو نمایاں کرتے ہیں۔ یونانی اور عرب مؤرخین اسے برصغیر کا عجیب و غریب پھل قرار دیتے ہیں۔ کیلا کب وجود میں آیا، اس کی تاریخ کیا ہے، اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا ناممکن ہے۔ زمانہ قدیم میں بھی یہ پھل اپنی مخصوص بناوٹ اور بے شمار خوبیوں کی وجہ سے خاصا مقبول اور پسندیدہ پھل رہا۔

ساتویں صدی میں جب سکندرِاعظم ہندوستان پہنچا تو اُس نے وادی سندھ میں دریا کے کنارے اس کی کاشت ہوتے دیکھی۔ عرب تاجروں نے اسے ہندوستان سے مغربی افریقہ تک پہنچا دیا۔

غذائیت کے اعتبار سے اسے پھلوں میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ کیلے میں وافر مقدار میں معدنی اجزا پائے جاتے ہیں، مثلاً کیلشیم، میگنیشیم، فاسفورس، سلفر (گندھک)، فولاد اور تانبا وغیرہ۔

کیلے کا مزاج گرمی، سردی میں معتدل ہوتا ہے۔ جب کہ کچا کیلا سرد ہے۔ یہ قدرتی حلوہ ہے۔ سائنسی تجربات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اسٹرابری کے بعد کیلا وہ واحد پھل ہے جس میں آئرن (فولاد) کی مقدار سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ انسانی جسم کی ضرورت آیوڈین اسی پھل سے ملتی ہے۔ کیلے کے غذائی اجزائے ترکیبی پر نظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شاہکار نعمت میں وٹامنز کی مقدار کا تناسب اس قدر موزوں رکھا ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ انسانی جسم انہیں بآسانی قبول کرلیتا ہے۔ اس میں وٹامن اے، سی اور جی کی مقدار کافی مناسبت سے جسم کو فراہم ہوتی ہے جو کہ انسانی صحت کے لیے طبی پیمانے کے بہترین معیار اور پیمانے پر پورا اترتی ہے۔ اس میں وٹامن ڈی اور ای کی بھی قلیل مقدار ملتی ہے جو کہ انسانی ہڈیوں اور بالوں کی حفاظت کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ وٹامن سی کی وجہ سے یہ دانتوں کے امراض کی روک تھام کرتا ہے۔ آدھا کیلو کیلا (گودا) 450 کیلوریز (حرارے) رکھتا ہے جو کہ ہماری ایک وقت کی خوراک کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ اندازہ کیجیے، غور کیجیے، فکر کیجیے کہ کیلا نہ کھا کر ہم کتنی بڑی غلطی کررہے ہیں۔ انسانی جسم کو جس قدر غذائیت اور آیوڈین کی ضرورت پڑتی ہے وہ اسے کیلے سے مکمل طور پر حاصل ہوجاتی ہے۔ اس میں چونکہ پروٹین اور چربی کم ہوتی ہے اور نشاستہ اور شکر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ کیلا خون پیدا کرکے جسم کو قوت بخشتا ہے۔ وزن بڑھانے کے لیے کیلے کا استعمال بے حد مفید ہوتا ہے۔ خاص کر بچوں کو روزانہ دو سے تین کیلے کھلانے چاہئیں۔

غریبوں کا یہ قدرتی حلوہ خون کی کمی دور کرنے کے لیے بے حد مفید ہے۔ یاد رہے اس میں فولاد کی اتنی مقدار ہوتی ہے جس سے خون کی کمی خودبخود دور ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں موجود کیلشیم اور پوٹاشیم کی غیر معمولی مقدار دانتوں، ہڈیوں، پٹھوں اور اعضائے رئیسہ کے لیے بہت ہی سودمند ثابت ہوتی ہے۔ کیلے میں چونکہ غذائی اجزا دوسرے پھلوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں اسی لیے یہ ہضم ہونے میں کافی وقت لیتا ہے۔کمزور معدے والے افراد احتیاط سے استعمال کریں۔ اگر اس کے کھانے سے معدے میں گرانی محسوس ہو تو چھوٹی الائچی کے دانے کھا لینے سے بہت جلد ہضم ہوجاتا ہے۔

اللہ کریم نے اس پھل میں بھی بیماریوں سے لڑنے اور انہیں شکست دینے کی صلاحیت اور قوت عطا فرمائی ہے۔ اسے اگر کم مقدار میں کھایا جائے تو قبض کرتا ہے اور اگر زیادہ مقدار میں کھایا جائے تو یہی پھل قبض کشا بن جاتا ہے۔ ہمارے بزرگ اسی وجہ سے کیلا ایک کھانے کو منع کرتے ہیں کہ کیلا کھائو تو دو یا تین کھائو۔

کیلے میں نمک کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔ یہ بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے نہایت موزوں پھل ہے۔ کیلا گردوں کی بیماری اور کمزوری، آنتوں کے جملہ امراض، مثانے کی جلن اور تراوٹ میں مفید ہے۔

کیلے کے گودے کے فوائد اپنی جگہ، لیکن اس کا چھلکا، جڑ، چھال، اور پتّے بھی مختلف بیماریوں میں دوا کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔

کیلا مزاج کے لحاظ سے گرم اور تر ہے۔ اس میں تری کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جس کے باعث اس میں گرمی کا تناسب زیادہ ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیلا صفرا پیدا نہیں کرتا بلکہ صفرا کا معتدل اور مصلح ثابت ہوتا ہے۔ اجزا کی مشابہت کے لحاظ سے یہ آلو سے قریب ہے۔ دوسرے پھلوں کی نسبت اس میں نائٹروجن کی کافی مقدار پائی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے ہی انسانی جسم کی کھال میں تنائو اور سختی پیدا ہوتی ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ جھریوں اور کھال کے ڈھیلے اور لٹک جانے کے تدارک کے لیے کیلا کس قدر مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ اس میں موجود وٹامن ’’اے‘‘ انسانی صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔ یہ انسانی کھال (جلد)، چہرے اور آنکھوں پر بہت اچھا اثر ڈالتا ہے اور انہیں بے رونق اورکھردرا ہونے سے بھی بچاتا ہے۔ جلد کو چکنائی، آنکھوں کو چمک اور دلکش بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔

اس میں موجود وٹامن ’’ای‘‘ ایک قیمتی وٹامن ہے جو کہ انسانی صحت کے لیے بے انتہا ضروری ہے۔ وٹامن ای کی کمی مردوں میں گنجا پن اور نامردی کا باعث بنتی ہے۔ جب کہ خواتین میں ماہواری کی بے قاعدگی، حیض کی بندش اور بانجھ پن پیدا کرتی ہے۔ کیلے میں موجود سلفر (گندھک) اور پوٹاشیم کی مقدار بھی نہایت مناسب اور عمدہ ہوتی ہے، اس سے انسانی جسم میں پھرتی و چستی پیدا ہوتی ہے۔ یہ اجزا انسانی جسم کی نشوونما کے لیے بھی مفید ہوتے ہیں اور ان اجزا سے جسم میں موجود فاضل مادے (Toxin) آسانی سے خارج ہوجاتے ہیں۔ اس پھل کی سب سے اعلیٰ خوبی یہ ہے کہ اس کے کھانے والے کو چھوت کی بیماریاں نہیں لگتیں ۔ یوں تو کیلا عموماً آنتوں کی بیماریوں میں بہت مفید ثابت ہوتاہے، مگر اس کے ساتھ اور بے شمار فوائد بھی رکھتا ہے۔ یہ جسم میں موجود خراب جراثیم کو عمدگی سے ہلاک کرتا ہے جن کی وجہ سے آنتوں میں سوزش پیدا ہوجاتی ہے۔ اس طرح خون میں جب زہریلے مادے شامل ہوجائیں اور گردے انہیں خون سے الگ کرنے کی صلاحیت نہ رکھ سکیں تو اس کیفیت میں بھی کیلے کا استعمال بے حد ضروری ہوجاتا ہے۔ یہ اس دوران بہت ہی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

یوں تو الحمدللہ کیلا بے شمار امراض میں بے حد مفید ثابت ہوتا ہے مگر خصوصاً پیچش اور اسہال (دستوں) میں اس کا استعمال انتہائی مفید اور زود اثر ہوتا ہے۔ سنگرہنی، جریانِ خون اور احتلام میں اکسیر درجہ کی خصوصیت کا حامل ہے۔ یہ ان امراض کی بیخ کنی کرتا ہے۔

بچوں کے لیے یہ ایک بہترین غذا نما ٹانک ہے۔ جو بچے طالب علمی کے زمانے میں ہوں انہیں اگر دو کیلے اور تقریباً ایک پائو دودھ میں آدھا پائو پانی ملا کر ابال کر صبح ناشتہ کی جگہ دے دیا جائے تو اِن شاء اللہ ان کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی قوت میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ یہ دماغی صلاحیتوں کو برقرار رکھتے ہوئے تھکاوٹ سے بھی بچائے گا اور سارا دن جسم میں چستی اور طبیعت میں ہلکا پن بھی رکھے گا۔ یہ ذہن بھی تیز رکھتا ہے اور حافظہ پر بھی اچھا اثر ڈالتا ہے۔ کیلا اور دودھ دونوں مل کر ایک زبردست مقوی غذا بن جاتے ہیں۔ تاہم صرف کیلا خالی پیٹ نہیں کھانا چاہیے اور نہ ہی اسے صبح و شام کے حساب سے کھانا چاہیے۔ ویسے عام طور پر کیلا کھانے کا بہتر وقت سہ پہر کا ہوتا ہے۔

ایک بالغ آدمی کو روزانہ چار اونس پروٹین، تین اونس چکنائی اور سولہ اونس نشاستہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ توانائی الحمدللہ کیلے میں بہت عمدگی کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک کیلا ایک روٹی کے برابر ہوتا ہے۔ کیلے کے اسٹارچ اور پروٹین چاول اور گندم میں ملنے والے ان اجزا سے بہتر ہوتے ہیں۔ ایک یورپی ڈاکٹر لچؔ کا بیان ہے کہ انسانی جسم کو جس قدر آیوڈین کی ضرورت ہوتی ہے اسے صرف کیلا ہی پورا کرسکتا ہے۔ کیلے میں غذائیت تو بہت ہے مگر یہ دیر سے ہضم ہوتا ہے۔ ہضم کے بعد بلغمی خون پیدا کرتا ہے۔ گرم مزاج والے مرد حضرات کے مزاج میں باہ کو حرکت دیتا ہے۔

مزید فوائد

1۔ کیلے کے پھولوں کو بطور سالن پکاکر کھاتے رہنے سے شوگر کے مریضوں کو فائدہ ہوتا ہے۔

2۔ گردے کی کمزوری کو دور کرتا ہے۔

3۔ دانتوں کی جملہ بیماریوں میں کیلے کھانا انتہائی مفید ہوتا ہے۔

4۔ کیلے کے اندر جراثیم داخل نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی بیماری کا کیڑا اس میں داخل ہوسکتا ہے۔ لیکن جو کیلے خراب ہوجائیں یعنی گل جائیں انہیں نہ کھائیں۔

5۔ کیلا کھانے سے پہلے نہ کھائیں کیونکہ ایسی صورت میں بدہضمی پیدا کرتا ہے۔

6 ۔ مقوی معدہ ہونے کی وجہ سے کھانا کھانے کے بعد کیلا کھاکر اگر چھوٹی الائچی کھا لی جائے تو نہ صرف یہ کہ کھانے کو ہضم کرتا ہے بلکہ خود فوری ہضم ہوجاتا ہے، معدے کو بھی تقویت دیتا ہے اور انتہائی قیمتی کشتہ کا اثر دکھاتا ہے۔

7 ۔ بدن کی خشکی دور کرنے کے لیے کیلا اکسیری صفات رکھتا ہے۔

8۔ گلے کے گلہڑ (گلے کا فالتو گوشت جو لٹک جاتا ہے) کیلے کے مسلسل استعمال سے دور ہوجاتے ہیں۔ دراصل یہ بیماری آیوڈین کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ کیلے میں موجود قدرتی آیوڈین اس کمی کو دور کرکے اس بیماری سے نجات دلانے میں مؤثر تاثیر رکھتی ہے۔

9۔ کچے کیلوں کا اچار مقوی جگر ہوتا ہے۔

10۔ کیلے کے پتوں کو جلا کر اس کی راکھ تین رتی پانی کے ساتھ کھانے سے بند حیض جاری ہوجاتے ہیں۔

چند نسخہ جات

1۔ خونیں پیچش کے لیے:
ایک پائو دہی میں ایک عدد کیلا اچھی طرح پھینٹ لیں۔ پھر تھوڑا تھوڑا کرکے کھائیں، اِن شاء اللہ فرق محسوس ہوگا۔

2۔ بالوں کا گرنا
کیلے کے تنے کا عرق (پانی) دو تولہ ( دو چمچے کھانے والے)، کیلے کے ہی تنے کا گودا 50 گرام، انڈا دیسی ایک عدد اور دہی ایک پائو… ان تمام اشیاء کو باہم اچھی طرح مکس کرلیں۔ یہ جیلی کی طرح کا ایک پیسٹ بن جائے گا، اسے سر میں اچھی طرح سے لگائیں۔ سات دن مسلسل یہ عمل کریں، اِن شاء اللہ بال گرنا بند ہوجائیں گے اور بالوں میں چمک پیدا ہوجائے گی۔ یاد رہے یہ پیسٹ سر اور بالوں میں کم از کم چار سے پانچ گھنٹے لگا رہے۔

3۔ لیکوریا کے لیے:
متاثرہ خواتین اپنی غذا میں کیلے کا استعمال بڑھا دیں، اور کسی کسی وقت ایک کچا کیلا پکا کر کھا لیا کریں۔ چہرے کی رونق لوٹ آئے گی اور اِن شاء اللہ چند ہی روز میں اس موذی مرض سے نجات مل جائے گی۔ یاد رکھیے لیکوریا عورت کے حسن و صحت کا موذی دشمن ہے۔

4۔ خارش کے لیے:
کیلے کے تنے کا چھلکا ایک چھٹانک، سرکہ (دیسی) دو چمچے کھانے والے۔ چھلکے کو خوب اچھی طرح پیس کر سرکہ میں مکس کرلیں۔ اب متاثرہ جگہ پر اس کا لیپ لگا دیں۔ تھوڑی دیر بعد (تقریباً پندرہ سے بیس منٹ) اس لیپ کو اتار دیں۔ یاد رہے لیپ لگاتے ہی آپ کو چبھن اور خارش میں تیزی کا احساس ہوگا لیکن یہ چبھن اور خارش کی تیزی عارضی ہوگی۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان شاء اللہ فرق محسوس ہوگا۔

5۔ متعدی خارش کے لیے:
ایک چمچہ کیلے کا گودا، ایک ہی چمچہ سرکہ (دیسی) اور ایک ہی چمچہ عرقِ لیموں لیں۔ یعنی تینوں اشیاء ہم وزن ہوں۔ اب ان تمام اشیاء کو اچھی طرح مکس کرلیں۔ اس کے لیے بہتر ہے کہ آپ قلعی دار چمچہ استعمال کریں۔ اب اس مرکب (پیسٹ) کی اپنے جسم پر آہستہ آہستہ انگلیوں کی مدد سے مالش کریں۔ حسب ضرورت یہ عمل کئی بار روزانہ دوہرایا جا سکتا ہے۔ ان شاء اللہ خارش کے مرض سے نجات حاصل ہوگی۔

6۔ معدے کی جلن کے لیے:
کیلے کے تنے کا رس تازہ نچوڑکر ایک یا دو چمچے کھانے والے پئیں۔ یہ انتہائی آسان مگر مجرب نسخہ ہے۔

7۔ پیشاب کی جلن و بندش کے لیے:
پیشاب جو کہ جسم کے فاضل اور گندے نمکیات کو جسم سے باہر نکالتا ہے۔ پیشاب کو روکنا بہت مضر صحت ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آپ جس قدر پیشاب کو روکیں گے اسی قدر زہریلے مادے خون میں شامل ہوتے رہیں گے۔ اگر کسی کو پیشاب کے بند ہونے کا عارضہ لاحق ہوا ہو تو فوراً ایسے مریض کو کیلے کے چھلکے کا تقریباً 30 گرام رس نکال کر پلا دیں۔ اِن شاء اللہ اس سے رکا ہوا پیشاب فوری طور پر جاری ہوجائے گا اور مثانے کی جلن میں بھی سکون ملے گا۔

8۔ قوتِ باہ کے لیے:
یاد رہے یہ نسخہ گرم مزاج والے افراد کے لیے ہے۔ اس آسان سے نسخہ کا کوئی نقصان نہیں ہے بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اس سے قوتِ باہ میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے اور قوت بڑھتی ہے۔ دن میں سہ پہر کو کیلا کھانے کے بعد دوچار ماشہ عمدہ چاول کچے خوب اچھی طرح چبا کر کھالیے جائیں۔ یہ نسخہ مردانہ کمزوری کو بھی دور کرتا ہے۔

9۔ جلنے کے زخم کے لیے:
پلپلا سا کیلا لے کر اسے پیسٹ کی طرح خوب اچھی طرح پھینٹ کر جسم کے جلے ہوئے حصے پر لگادیں، ان شاء اللہ سوزش و جلن میں کمی ہوجائے گی اور سرخی بھی باقی نہیں رہے گی۔

10۔ جھائیوں کے لیے:
ایک خربوزے کے تمام بیجوں کو چھیل کر اس کے مغز کو پیس کر کیلے کے ایک عدد چمچے میں خوب اچھی طرح مکس کرکے اس پیسٹ کو چہرے پر مَلیں۔ اِن شاء اللہ چہرہ صاف اور شاداب ہونے لگے گا۔ یہ عمل روزانہ یا ایک دو دن کے وقفے کے ساتھ دوہرایا جا سکتا ہے۔ بہتر ہے کہ پہلے اپنے ہاتھ اور چہرے کو ہلکے سے نیم گرم پانی سے دھو لیا جائے۔

کیلا بہت زیادہ اور تواتر کے ساتھ استعمال کرنے میں احتیاط کی جانے کیونکہ خون کو جمانے کی تاثیر بھی پیدا کرتا ہے۔