تذکرہ دوستاں

پروفیسر ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم ایک ماہر تعلیم ، دانشور ، مقرر ، ادیب اور مربی کی ہمہ جہتی صفات کے حامل قدیم و جدید کے حسین امتزاج کا دلکش نمونہ ہیں ۔ اسلاف میں وہ دین و اخلاق کے اس ورثہ کی منہ بولتی تصویر ہیں جو ہرکس و ناکس کیلئے محبت وموّدت اور دلسوزی و دلنوازی سے عبارت ہے جبکہ جدّت میں وہ علوم و فنون کے اس سرمایے کے امین ہیں جو دور حاضر کے تقاضوں سے آشنا اور ان سے ہم آہنگ ہو ۔یوں وہ ماضی کے دھندلکوں ، حال کے پیمانوں اور مستقبل کے اندازوں سے گندھی ہوئی ایسی شخصیت کے مالک ہیں جو اپنے طالبعلموں کو صراط مستقیم کی راہ دکھاتی ، مایوسی کی پہنائیوں سے بچاتی زندگی کی پگڈنڈی پر منزل کی جانب لیے چلی جاتی ہے

ڈاکٹر صاحب موصوف سے میرا تعلق زمانہ طالب علمی سے ہے جب وہ ایک سنجیدہ اور باوقار طالب علم رہنما کے طور پر اپنی منفرد پہچان رکھتے تھے ۔ انہوں نے عصر حاضر کے امام سیّد ابوالاعلٰی مودودیؒ اور مولانا گلزار احمد مظاہریؒ جیسے علم و ادب اور اخلاق و کردار کے داعیوں سے اکتساب فیض کیا اور ان کی مجالس سے خوشہ چینی کی جس نے انہیں بامقصد زندگی گزارنے کا وہ سبق اور سلیقہ دیا جسے انہوں نے بھلایا نہیں اور توکل استغنا کی چادر کی بکل مار کر انہوں نے زندگی کے سفر کا آغاز کیا اور اسے تاحیات وظیفہ زندگی بنا لیا جس کا پرتو ان کی تمام سرگرمیوں میں نظر آتا ہے ۔ انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں جن حوادث سے گزرتے ہوئے تلخیوں کے جام کو گھونٹ گھونٹ پیا اس نے ان کی شخصیت کو ایک خاص قسم کی دلسوزی اور بردباری سے آراستہ کیا ہے جو انہیں اپنے ہم عصروں میں نمایاں اور ممتاز کرتی ہے ۔

عربی زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل اعجاز فاروق گفتگو اور تحریر کا ایسا ملکہ رکھتے ہیں جو قدرت کسی کسی کو عطا کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے فہم دین پر ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والی اپنی بے شمار ریڈیائی تقریروں کو ایک سال کے مختصر وقت میں چھ ضحیم کتابوں کی شکل میں ترتیب دے کر خوبصورت طباعت سے آراستہ کرنے والے بظاہر ناممکن کام کو ممکن کر کے ادب کے تمام ہی حلقوں سے تحسین و آفرین کی امتیازی سند پائی ہے

عام طور پر ادب و فنون سے وابستہ اشخاص انتظامی صلاحیتوں سے بے بہرہ تصور کئے جاتے ہیں لیکن ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم نے بطور پرنسپل ، چیئرمین اور ڈائریکٹر جس طرح ان اداروں کو سنبھالا اور سنوارا وہ قابل رشک و تقلید ہے ۔ گورنمنٹ گریجویٹ کالج سمن آباد چونکہ میرا مادر علمی ہے اور یہاں مجھے ان کی انتظامی کارکردگی کو مشاہدہ کرنے کا موقع ملا جس نے ورطہء حیرت میں ڈال دیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے کالج کی عمارت کی آرائش و زیبائش سے ذہن و نظر کو وہ آسودگی مہیا کی جو تعلیم کے حصول کیلئے ضروری ہے ۔ جسمانی و ذہنی تربیت کے لیے ہم نصابی سرگرمیوں اور اسپورٹس کے ایونٹس کو ایک مربوط اور دلکش نمونہ بنا دیا جس میں شہر کی نمایاں شخصیات کو مدعو کر کے کالج کا رابطہ سول سوسائٹی اور شہری انتظامیہ سے مضبوط کیا جسے بعد ازاں کالج کی تعمیر و ترقی کے لئے بروئے کار لایا گیا جبکہ اساتذہ کرام کو ایک لڑی میں پرو کر کالج کی تعلیمی کارکردگی کو مثالی بنایا ۔ علاوہ ازیں کالج کے سابق طالب علموں یعنی اولڈ بوائز کو کالج سے وابستہ رکھنے کے لئے ان کی انجمن ترتیب دی ، مجھے اس کے اوّلین صدر ہونے کا اعزاز بخشا اور اس کے زیر اہتمام تین سے زائد کامیاب تقریبات کا اہتمام کر کے اپنی اختراعی صلاحیتوں کا لوہا منوایا غرض ایک شخص نے اپنی ہمہ جہتی کارکردگی سے کالج کو پنجاب کے دوسرے بڑے کالج ہونے کے اعزاز سے سرفراز کیا ۔

فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا کے مصداق ڈاکٹر صاحب سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد فکر و دانش اور تحریر و ادب کی اپنی دنیا میں مگن نئے جہانوں کی کھوج و تخلیق میں مصروف ہیں ۔اللّہ سبحانہ تعالیٰ انہیں صحت و سلامتی کی دولت سے نوازے کہ ایسے ہی لوگ ملک وقوم کا سرمایہ اور معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں کیونکہ بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ

جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا