عمران خان کا سیاسی مستقبل

معروف کالم نگار سجاد ظہیر نے کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’کاوش‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر جمعہ 18 نومبر 2022ء کو اپنے زیر نظر کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے، اُس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

’’قیام پاکستان کو 75 برس پورے ہوچکے ہیں، لیکن آج بھی یہ ملک مفاد پرست ٹولے کے ہاں یرغمال بنا ہوا ہے۔ ہماری بدقسمتی کہیے یا پھر تباہی کہ اپنی ’’پلاٹینیم جوبلی‘‘ کے سال تک کے سفر کے باوجود یہ ملک عام افراد کا نہیں بن سکا ہے۔ آج بھی امرا اور غریبوں کے فرق کے طور پر ہمارے ملک کے امورِ مملکت چلائے جاتے ہیں۔ یہ ملک جس کے ایک طرف ملکان، جاگیردار، سرمایہ دار اور لوٹ مار والے طبقات ہیں، اور دوسری جانب اس ملک کے وہ غریب، مسکین افراد، محنت کش اور کسان طبقہ جن کا تو یہ ملک 75 برس میں بھی ’’نہیں‘‘ بن سکا ہے۔ بیوروکریٹس، نان سویلین قوتوں اور بالادست طبقے کے سیاست دانوں سے یہ ملک آج دن تک نجات حاصل نہیں کرسکا ہے۔ ہمیشہ ملک کے سیاسی حلقوں کی جانب سے یوٹرن لینے والے اقدامات کی وجہ سے ہمارا ملک ایک طرح سے الائو میں جلتا رہا ہے۔ سیاست میں اگر کوئی لیڈر بطور حکمتِ عملی ایک قدم آگے بڑھنے کے بعد دو قدم پیچھے کی طرف ہٹے تو میری رائے میں یہ کوئی غلط عمل نہیں ہے، اور کسی بھی لیڈر یا سیاسی جماعت کو بطور حکمتِ عملی اس کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ یہ سیاسی حکمتِ عملی ہی سیاسی سمت کا تعین کرکے دیا کرتی ہے کہ اِس وقت پیچھے ہٹنے یا آگے بڑھنے کا سیاسی رجحان کس کے حق میں ہے۔ اگر آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کے یہ دونوں امور سیاسی طور پر عوامی حمایت میں ہوں یا عوام کا اعتماد بھی اس حکمتِ عملی کے ساتھ وابستہ ہو تو پھر تو اس فیصلے کو بھی درست گردانا جائے گا، لیکن اگر مفادات محض لیڈرشپ کے ذاتی ہوں، صرف اپنی ذاتی اَنا پرستی پر مبنی یوٹرن ہوں تو پھر ان خالی خولی نعروں اور جھوٹے وعدوں کو عوام کے ساتھ ایک ظلم و زیادتی ہی قرار دیا جائے گا۔ یہی حالت اِس وقت اقتدار سے باہر رہنے والے عمران خان کی بھی ہے۔ انہیں اِسی سال تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سے ہٹاکر وزارتِ عظمیٰ کا منصب ان سے چھین لیا گیا۔ اُس وقت سے لے کر تاحال وہ روڈوں پر ہیں۔ اُن کا ایک ہی مؤقف رہا ہے کہ یہ اُن کے خلاف عالمی سازش تھی، جب کہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے مطابق: جو موصوف کو اقتدار میں لے کر آئے تھے جب اُن کا دل عمران خان کے امورِ حکمرانی سے بھر گیا تو انہوں نے ہی عمران خان کو یہ کہاکہ اب آپ باہر تشریف لے جاسکتے ہیں (یعنی عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے محروم کردیا گیا، مترجم)۔ لیکن عمران خان کو اقتدار سے باہر رہنا بہت مشکل لگا۔ شاید انہیں یہ گمان ہے کہ وہ وطنِ عزیز کے واحد سیاست دان ہیں جنہیں یہ ملک عزیز اور پیارا ہے، باقی سب ملک دشمن ہیں۔ وہ اپنی تگ و دو (دوبارہ حصولِ اقتدار کے لیے، مترجم) اور روڈوں پر دھرنوں میں اتنے زیادہ آگے نکل گئے کہ ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔ اس حملے پر کئی حلقوں خصوصاً حکومتی حلقوں کے بھی سوالات ہیں۔ اِس وقت پاکستان کا منظرنامہ اور اس میں خان صاحب کے سیاسی مستقبل کی کیا جگہ ہے، اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

عمران خان کی سیاست مختلف اوقات میں مختلف بیانات کے آگے پیچھے گھومتی رہی ہے۔ انہیں یوٹرن لینے یا پیچھے ہٹنے میں کوئی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی، گویا انہیں کسی کی کوئی پروا ہی نہ ہو۔ جس انداز سے انہوں نے اپنے دھرنوں میں پاکستان کے سیکورٹی اداروں پر تنقید کی ہے، ان کے کارکنان کی جانب سے ان اداروں کو شدید نکتہ چینی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور بہت سارے سخت ترین اعتراضات اٹھائے گئے ہیں، تب بھی ایسی کوئی کارروائی روبہ عمل آتی ہوئی نظر میں نہیں آئی جو اُن کے خلاف کی گئی ہو۔ خود اُن کے خلاف بھی مختلف اداروں کے سربراہان کی پریس کانفرنسیں اور ویڈیو بیانات سامنے آئے۔ نصف ماہ قبل گوجرانوالہ میں تحریک انصاف کے سربراہ کی جانب سے شروع کردہ لانگ مارچ میں ان پر جب حملہ کیا گیا تو دوسرے دن ان کا بیان سامنے آیا اور ان کی طرف سے سول اور نان سول اداروں کے سربراہان کو اپنے اوپر کیے گئے حملے کا ملزم قرار دیا گیا، جس پر عالمی میڈیا کی جانب سے انٹرویو میں الزامات کے ثبوتوں کے حوالے سے پوچھا گیا، جس کا جواب دینے کے بجائے وہ بات کو اِدھر اُدھر گھماتے پھراتے رہے۔ لیکن اب ان کے بیان میں لچک ہے۔ عمران خان کی جانب سے قبل ازیں پہلے آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر سخت نوعیت کے اعتراضات وارد ہورہے تھے، لیکن اب ان کے واپس ہوکر یوٹرن اختیار کرنے سے بہ ظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ شاید ایک سیاسی جتھے کے طور پر ہی خود کو مستقبل میں زندہ رکھنے کے خواستگار ہیں۔ باقی ان کے بیانیے میں اب مزید پہلو اور دیگر امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔ امریکہ جسے وہ بار بار سازش کا مرکز گردان رہے تھے، جس نے انہیں سارے عرصۂ اقتدار میں کسی مشورے میں شامل ہی نہیں کیا، جبکہ جوبائیڈن نے تو انہیں کوئی لفٹ ہی نہیں کروائی جس کا تذکرہ خان صاحب مختلف اوقات میں بڑے دکھ بھرے انداز میں کرتے بھی رہے ہیں، اس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ہاں بھی ان کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں پایا جاتا تھا۔ لیکن اب مذکورہ حوالے سے خان صاحب نے یوٹرن لے لیا ہے اور ان کا رویہ بھی امریکہ کی جانب نرم ہوچکا ہے، جو خود اُن کے مطابق انہیں ہٹانے اور اُن کی حکومت کو گرانے میں شامل تھا۔ عمران خان کا بار بار ہر معاملے پر یوٹرن لے لینا اب اہلِ وطن نے بھی اُن کے ایک مشغلے کے طور پر قبول کرلیا ہے۔ اب تحریک انصاف کے سربراہ امریکہ سے جنگ نہیں بلکہ مثبت اور بہتر تعلقات کے آرزومند ہوگئے ہیں اور اپنے اس یوٹرن کو بھی وہ اپنے ذاتی مفادات کے بجائے قومی مفادات کا نام دے رہے ہیں، یعنی یہ سب کچھ وہ ملک و قوم کی خاطر کررہے ہیں۔ انہیں اب ملک میں قانون کی حکمرانی ایک سوالیہ نشان لگتی ہے۔ اُن کے مطابق جس ملک میں بھی قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرتا۔ ان کے چار سالہ دورِ اقتدار میں قانون کی جو حیثیت رہی، اس پر انہیں پریشان اور متفکر ہونا چاہیے تھا۔ دیکھا جائے تو عمران خان کے سوالات غلط نہیں ہیں، البتہ سوال یہ ہے کہ لیڈر اِن سوالات کا حل بھی چاہتا ہے یا ماضی کی حکومتوں کی طرح بس ڈرا کر اور خوف زدہ کرکے اقتدار حاصل کرنا اس کا مقصد ہے؟ دیگر پارٹیاں جنہیں عمران خان ملک اور عوام کی قاتل قرار دیتے ہوئے نہیں تھکتے، تو کیا خود ان کی سیاست اور پارٹی کی تشکیل بھی عوامی بنیادوں پر استوار ہوسکی ہے؟ جسے سامنے رکھ کر یہ رائے دی جاسکے کہ وہ عوامی درد کو سننے اور عوامی مسائل کو حل کرنے کے اہل ہیں؟ یا پھر تحریک انصاف کی ساری قیادت حکومت میں رہتے ہوئے ملک کی ساری عوام دشمن قوتوں کی متبادل ہے؟ اس حوالے سے بھی اگر جائزہ لیا جائے تو کوئی خوش گوار یا مثبت پہلو سامنے نہیں آتے۔ کوئی بھی پارٹی یا تنظیم کہیں پر کوئی حکومت قائم کرتی یا تشکیل دیتی ہے تو اس کے امور مملکت کی سرانجام دی گئی سرگرمیوں کو پرکھنے اور جانچنے کے لیے 6ماہ کا عرصہ بھی بہت ہوا کرتا ہے، اور اس عرصے میں ہی بخوبی علم ہوجاتا ہے کہ اس حکومت کے پاس عام انسانوں کو دینے کے لیے کچھ ہے یا نہیں؟ یہ جدید سوشل میڈیا کا دور ہے، لیڈر کی چیخ پکار اور شورشرابہ اس امر کا غماز اور ثبوت نہیں ہوتا کہ وہ عوام کے دکھوں کا درماں اور حل چاہتا ہے اور وہ واقعی ایک نجات دہندہ ہے۔ اس کی خاطر فوری لیکن عملی اقدامات کا اٹھایا جانا ضروری ہوتا ہے، جو کسی بھی حکومت کے اعتماد کو عوام کے اذہان میں راسخ اور مضبوط کردیتا ہے۔ اس کے لیے اب نعروں کے بجائے عملی کردار کے اظہار کی ضرورت ہے اور دورِ حاضر بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے۔ صرف خالی خولی نعرے بازی اور گیدڑ بھبکیوں سے کام چلنے کا نہیں ہے۔ اس بات میں ذرہ برابر بھی مبالغہ نہیں ہے کہ اِس وقت ہمارا یہ ملک سیاسی، سماجی اور معاشی بحرانوں کا شکار ہے۔ جب سے تحریک انصاف وفاقی حکومت سے الگ ہوئی ہے ایک نئے بحران نے سر اٹھایا ہے۔ اب میڈیا پر یہ ظاہر ہوچکا ہے کہ پاکستان اِس وقت جس سنگین صورتِ حال سے دوچار ہے، اسے یہاں تک پہنچانے میں تحریک انصاف اور اُس کے سربراہ عمران خان نے بھی اپنی جانب سے قطعی کوئی کمی نہیں کی ہے۔ یہ خان صاحب کی حکومت ہی ہے جس کے چار سالہ دورِ کی بدولت پاکستان میں اتنے سارے بحرانوں نے جنم لیا ہے، سال 2018ء میں عمران خان کی حکومت سے قبل پاکستان میں اس طرح کی صورت حال نہیں تھی۔

گزشتہ چند ماہ کا جائزہ لے کر اگران کا موجودہ حالات سے موازنہ کیا جائے تو ملک کی حکومتی جماعت کی پوزیشن واضح طور پر عوام کے سامنے آجاتی ہے، اور معلوم پڑتا ہے کہ گزشتہ اور موجودہ حکمران طبقہ عوام کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لیے ایک بھی قابلِ ذکر کام نہیں کرسکا ہے اور موجودہ کش مکش کی صورت حال میں لگتا ہے کہ عمران خان کے ساتھی ان کے سخت بیانیے کا حصہ بننے کے لیے کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہیں اور عمران خان کا موجودہ یوٹرن بھی اسی صورتِ حال کے تناظرمیں دیکھا جارہا ہے۔ عمران خان کے خلاف دورانِ جنگ اب لگتا ہے کہ جوابی طور پر کارروائیاں شروع ہوچکی ہیں۔ نااہلی، آڈیو لیک، ٹاک شوز میں ایک مشہور گھڑی کے خریدار کا انٹرویو وغیرہ… اسے سمجھنے کے لیے مختلف پہلو ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ شروعاتی تصویر کے چند رخ اور پہلو ہوں اور آگے چل کر ان میں ابھی مزید اضافہ ہو۔ کیا تحریک انصاف کی قیادت اس تمام اتار چڑھائو پر مبنی صورتِ حال سے اپنا دامن بچاکر نکلنے میں کامیاب ہوسکے گی اور اپنا سیاسی رتبہ اور حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوپائے گی؟ یہ اس وقت کا ایک اہم ترین سوال ہے۔ مستقبل میں صورتِ حال کیا رخ اختیار کرے گی؟ اس کا جواب تو مستقبل میں ہی مل سکے گا، تاہم ایک سوال اس وقت یہ ضرور ہے کہ اس موجودہ حکومتی اتحاد اور سابق حکومت سے عوام کی تمام تر امیدیں بالکل ختم ہوچکی ہیں۔ اس کے لیے خادم اعلیٰ اور یوٹرن سیاست دانوں سے نجات کے لیے اس ملک کے عوام کو ایک حقیقی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے فی الوقت انتظار ہی کیا جاسکتا ہے۔

(نوٹ: کالم نگار کے تمام خیالات سے مترجم اور ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔)

پس نوشت: مندرجہ بالا کالم کا ترجمہ مکمل ہی کیا تھا کہ ابھی ابھی بروز اتوار 20 نومبر 2022ء کو سندھی روزنامہ ’ہلال پاکستان‘ کراچی اور دیگر سندھی اخبارات میں یہ شہ سرخی پڑھنے کو ملی ’’26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کا اعلان، طاقت ور حلقوں کو کہتا ہوں کہ الیکشن کے سوا اور کوئی بھی دوسرا حل نہیں ہے، عمران خان‘‘۔